چیری بلاسم


سیاست میرا موضوع کم ہی رہا۔ کہ سیاسی کالم ہمیشہ غیر موثر ہوتے ہیں۔ ویسے بھی اس پر لکھنے والے تھوک کے حساب سے موجود ہیں۔ جو اپنی اپنی بساط کے مطابق سیاستدانوں کو شرم دلانے سے لے کر انھیں سدھارنے تک کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ لیکن شرم ان کو ذرا نہیں آتی دوسرے لفظوں میں سنی کسی کی نہیں جاتی۔ بہت سے سینیئر تجزیہ نگار موثر تجزیے بھی پیش کرتے ہیں۔ جن پہ اگر سیاستدان عمل کریں تو بہت ممکن ہے کہ ان کی سیاسی عاقبت سنور جائے۔

لیکن مسئلہ یہ ہے کہ تجزیہ نگاروں کی دکھائی عاقبت سے کسی کو کوئی سروکار نہیں ہوتا، یہ ہمیشہ اپنی بنائی جنت میں رہنا چاہتے ہیں۔ یہ ہمیشہ اپنی من مرضی کے فیصلے کرتے ہیں۔ لیکن اب تو کچھ ایسے بھی صاحب بصیرت آچکے ہیں جو اپنے من کو بھی تکلیف نہیں دیتے۔ دائیں بائیں والوں کی سنتے ہیں اور ادھر ادھر ہانک دیتے ہیں۔ بہت ممکن ہے میں غلط ہوں، لیکن یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اگر یہ صاحب بصیرت لوگ اپنے من کی سن لیں تو شاید بہتر اور مثبت نتائج آئیں۔ لیکن بات یہ بھی ہے کہ جب بہت سے مصاحب موجود ہوں تو پھر خود کو تکلیف کیوں دی جائے۔ سیاسی ماحول گرما گرم ہے بلکہ یوں کہیے الاؤ بھڑک رہا ہے۔ اس بھڑکتے الاؤ میں پرانا رجحان نئے عزم سے دہرایا جا رہا ہے۔

سیاسی حریفوں کو مختلف بیہودہ ناموں سے پکارنا سیاستدانوں کا مزاج بن چکا ہے۔ جو کہ کسی کو زچ کرنے کا انتہائی گھٹیا طریقہ ہے۔ لیکن اپنی اپنی چال پہ ہر کوئی اس مہرے کو استعمال کرتا رہا ہے۔ کسی بھی جماعت کا کوئی ایک رکن حریف جماعت اور جماعت کے رکن کی تضحیک کے لیے کوئی بیہودہ سا نام رکھ لیتا ہے اور پھر باقی اراکین بڑے جوش و خروش سے اس کو جلسے جلوسوں میں دہراتے پھرتے ہیں۔ کسی کو غیر شائستہ نام غیر مہذب انداز میں پکارنا اس بات کی دلیل ہے کہ اب مخالف کے پاس دلائل ختم ہوچکے ہیں۔

ان دنوں یہ سلسلہ انتہا پر ہے۔ سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالا جاتا رہا ہے لیکن جو گند اب کی بار پھینکا جا رہا ہے اس کی اس سے پہلے کبھی مثال نہیں ملتی۔ قوم کی نمائندگی کرنے والوں کے بیانات سنتی ہوں تو سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ یوں لگتا ہے یہ مہذب قوم کے عوامی نمائندے نہیں بلکہ پسماندہ قصبے کے چھوٹے سے گلی محلے میں رہنے والی ان پڑھ جاہل خواتین ہیں۔ جو معمول کے جھگڑے میں ایک دوسری کو بیہودہ گالیوں سے نواز رہی ہیں۔

اور یہ خواتین اپنی لڑائی میں ایک دوسری کو ایسی ایسی واہیات گالیاں دیتی ہیں کہ کہ شریف مرد سر اٹھانے کے قابل نہیں رہتا۔ اور جو مرد شرم کو خیرباد کہہ چکا ہو وہ خود کو گالی دینے لگتا ہے، کہ ایسی زبردست گالی وہ کیوں نہ ایجاد کر سکا۔ ان پڑھ لوگوں کے پاس سوائے گالی کوسنوں اور بد دعاؤں کے کچھ نہیں ہوتا سو وہ اپنا سارا وقت یہی دینے میں صرف کرتے ہیں۔ ہماری ساری سیاست بھی گلی محلے کی لڑائی کا روپ اختیار کرچکی ہے۔ جس میں اصل مقاصد سے ہٹ کر بات نام بگاڑنے، کوسنوں اور بد دعاؤں تک جا پہنچی ہے۔ یہ ایسی لڑائی ہے جس کی سمجھ خود لڑنے والوں کو بھی نہیں آ رہی لیکن دیکھنے والوں کو چس ضرور آ رہی ہے۔

فیس بک پر ایک ویڈیو دیکھی جس میں منتخب خواتین اراکین اسمبلی میں بیٹھ کر چیری بلاسم شو پالش کی تشہیر کر رہی تھیں۔ ایک خاتون ہاتھ میں جوتا پکڑے جس انداز سے فرضی پالش کر رہی تھیں اس سے اندازہ ہوا کہ ان محترمہ کے میاں صاحب خاصے خوش قسمت ہیں۔ کہ جو عورت فرضی پالش اتنی اچھی کرتی ہو وہ حقیقت میں جوتا کیسا زبردست چمکاتی ہو گی۔ لیکن مجھے پورا یقین ہے وہ گھر میں ایسا کچھ نہیں کرتی ہوں گی۔ ویسے تو وہ خواتین کسی کو چڑانے کے لیے یہ ایکٹ کر رہی تھیں لیکن اللہ جانتا ہے چیری بلاسم والے تو دیکھ کر نہال ہو گئے ہوں گے۔ لاکھوں لگا کر بھی ان کی پراڈکٹ کی تشہیر آج تک اس سے اچھی نہیں ہوئی ہوگی، جتنی ان صاحبہ نے مفت کردی۔ سمجھیے کمپنی والوں کی چاندی ہو گئی۔ اس طرح کہنے اور کرنے سے ان کے مخالف کو تو شاید کوئی فرق نہ پڑے لیکن پراڈکٹ کی خوب بکری ہونے والی ہے۔ ہو سکتا ہے کمپنی کو منافع ہونے پر تشہیری مہم میں حصہ لینے والیوں کو تحفوں کی صورت بھاری معاوضہ ملے کہ بہر حال کمپنی کی آمدن میں ان کی وجہ سے خاطر خواہ اضافہ ہونے والا ہے۔

اس ویڈیو کا دوسرا رخ انتہائی کریہہ ہے۔ کہ اگر تو یہ سب عوام کو انٹر ٹین کرنے کے لیے تھا تو بہت ہی دلچسپ اور مزاح سے بھرپور تھا۔ لیکن اگر یہ محض کسی کی تضحیک کے لیے تھا تو پھر دل پر ہاتھ رکھیئے اور سچ بتائیے کیا یہ سب عوام کے منتخب نمائندوں کو زیب دیتا ہے۔ دوسرے کی عزت کا جنازہ نکالنے کے چکر میں آپ لوگ اپنا وقار کیوں مجروح کر رہے ہیں۔ یہ کسی بھی طرح مہذب لوگوں کا اجلاس نہیں لگ رہا تھا۔ یوں لگ رہا تھا کوئی مزاحیہ تھیٹر چل رہا ہے۔

میں حیران ہوں مسند اقتدار پہ براجمان کیسے کیسے مسخرے بیٹھے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ایسے مسخروں کو اس ملک کے سیاہ سفید کا مالک بنا دینا چاہیے؟

اپوزیشن ہمیشہ سے حکمران جماعت کو آنکھیں دکھاتی آئی ہے کہ اس کے پاس دل کی بھڑاس نکالنے کا یہی طریقہ ہوتا ہے، کہ اس سے زیادہ اپوزیشن کر کچھ نہیں سکتی۔ لیکن افسوس اس بات کا ہے حکمران طبقہ بھی برابر منہ ماری کر رہا ہے۔ بات اگر عام سیاسی ورکروں تک رہتی تب بھی قابل قبول تھا لیکن مقام افسوس یہ ہے کہ ایم پی اے، ایم این اے سے لے کر وزیر اعظم تک سب اسی کام میں لگے ہیں۔ ہر منصب ہر رتبے کا اپنا مقام ہوتا ہے۔ جتنا بڑا رتبہ ہو گا اتنی زیادہ اخلاقی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے۔

لیکن اگر کوئی اپنا رتبہ بھول کر گلی محلے کی جھگڑالو عورتوں والی زبان استعمال کرنا شروع کردے۔ تو دنیا ہمیں کس نگاہ سے دیکھے گی اس کا اندازہ آپ خود کر لیں۔ عوامی نمائندے قوم کا چہرہ ہوتے ہیں۔ ایک دوسرے کو غیر مہذب ناموں سے پکارنا کیا عوامی نمائندوں کو زیب دیتا ہے وہ بھی اس صورتحال میں جب ساری دنیا کی نگاہیں ہم پہ لگی ہوں۔ بات الزامات سے نکل کر گالم گلوچ اور نام بگاڑنے تک جا پہنچی ہے۔ خود کو اچھا کہنے یا دوسرے کو غیر مہذب انداز میں پکار کر آپ بڑا لیڈر نہیں بن سکتے۔ بڑا لیڈر بننے کے لیے بڑا ذمہ دار بننا پڑتا ہے۔ اپوزیشن جماعتیں ہوں یا حکمران طبقہ خدارا اس نام بگاڑنے والی روش کو ختم کر دیں۔ دشمن پر وار دلیل کے ساتھ کریں بد تہذیبی کے ساتھ نہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments