سنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے


ملک کی اکثریت آبادی آج بھی یہ سمجھتی ہے کہ آئین کی دھجیاں اڑا کر ہی نظام ٹھیک ہو سکتا ہے۔ ان کا خیال راسخ ہے کہ آئین کو ردی کی ٹوکری میں پھینکنے یا اس کی من پسند تشریح کرنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہ اکثریتی آبادی آئین نہیں ریاست کو بچانے کا نعرہ بھی لگاتی ہے۔ اس آبادی کا خیال ہے کہ آئین اہم نہیں ریاست اہم ہے۔ اس آبادی کو بغیر آئین کے بھی ریاست چلانے میں کوئی مضحکہ نظر نہیں آتا۔

یہ آبادی کسی ضابطے، دستور یا آئین کو اہم نہیں سمجھتی ہے۔ مگر اس آبادی کی خواہش ہے کہ ہمیں بغیر آئین کے ایک بہترین ملک بنانا ہے۔ اس آبادی کو ایک اچھا اور مثالی معاشرہ چاہیے جہاں میرٹ اور عدل و انصاف کا ایک بہترین نظام قائم ہو۔ جہاں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کی روایت نہ ہو بلکہ ہر شہری کو ان کا پورا پورا حق مل جائے۔ وہ معاشرہ ایک مثالی معاشرہ ہو جو پرامن اور خوشحال ہو۔ مگر اس آبادی کے پاس اس سوال کا جواب نہیں ہے کہ یہ سارا کام کیا کسی فرد واحد کے حکم سے پایہ تکمیل تک پہنچے گا یا اس ملک کے تمام شہریوں کی منشا اس میں شامل ہوگی؟ اس آبادی کے پاس اس سوال کا بھی کوئی جواب نہیں ہے کہ کیا یہ سارا کام خود بخود طے پائے گا یا اس کے لئے کسی طریقہ کار کو اپنایا جائے گا؟ اس آبادی کے پاس اس سوال کا بھی جواب نہیں ہے کہ اس طریقہ کار کو کیا نام دیا جائے گا؟

اس غیر منطقی خیال کو دل میں بسانے میں اس آبادی کا کوئی قصور نہیں ہے کیونکہ یہ آبادی ان عام لوگوں پر مشتمل ہے جو اپنی روزمرہ کی زندگی میں کسی نہ کسی شعبہ سے منسلک ہیں۔ جن کا مضمون سیاسیات نہیں ہے۔ ان کو امور مملکت یا ریاست سمجھنے سے دلچسپی نہیں ہے۔ ان کو وہی سچ نظر لگتا ہے جو کسی تقریر یا اخبار کی خبر میں کثرت سے دہرایا یا بتایا جاتا ہے۔ اس آبادی کو تحقیق کرنے اور مسائل کی جڑ تک پہنچنے سے کوئی سروکار نہیں ہے۔

یہ آبادی سنی سنائی باتوں کو علم و دانش سمجھ کر اسی کو دل و دماغ میں بٹھا لیتی ہے۔ یہ آبادی کسی اصول یا نظریے کی بنیاد پر کسی کے حق میں یا خلاف بات نہیں کرتی بلکہ یہ آبادی جذبات کی رو میں بہتی رہتی ہے۔ یہ ایک جذباتی آبادی ہے جس کے علم اور معلومات کا انحصار میڈیا، پریس ریلیزز، پریس کانفرنسز، من پسند اینکرز، من پسند سیاسی لیڈرز کی تقاریر اور سنی سنائی باتوں پر ہوتا ہے۔ یہ آبادی کسی مستند کتاب، مستند دستاویز، مستند تحقیق، مستند اعداد و شمار اور قانونی دستاویزات کے حوالوں جیسی مشقت سے مبرا ہوتی ہے۔

یہ آبادی اسی بات کو حق و سچ سمجھتی ہے جو اس کی پسندیدہ شخصیت کے منہ سے نکلتی ہے۔ اس لئے یہ آبادی دستور یا آئین کو اہم نہیں سمجھتی بلکہ کسی فرد واحد کو اہم سمجھتی ہے۔ اس آبادی کے خیال میں فرد واحد کا دماغ اس قابل ہوتا ہے کہ وہ کروڑوں دماغوں کے اوپر اپنی منشا مسلط کر سکے۔ اس آبادی کی یہ سوچ دراصل صدیوں پرانے غلام و آقا کی سوچ سے مماثلت رکھتی ہے جہاں بادشاہ عقل کل و حق تصور ہوتا تھا جبکہ عوام ان کے آگے ہیچ تھی۔

اس آبادی کی یہ سوچ اس جاگیردارانہ سوچ کی بھی عکاسی کرتی ہے جہاں چوہدری اور وڈیرا کی سوچ مزارعے کی سوچ سے افضل تصور ہوتی ہے۔ یہ اس پدرشاہی نظام کی بھی عکاسی کرتی ہے جہاں ایک فرد کئی افراد کی زندگیوں کے فیصلے کرنے کا مجاز تصور ہوتا ہے۔ یہ صدیوں پرانے اس مذہبی ماحول کی بھی عکاسی کرتی ہے جہاں چرچ کو منجانب خدا فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل تھا۔ یہ سوچ دراصل اس نظام کی بھی حمایت کرتی ہے جہاں مالک غلام سے بہتر عقل و خرد کا مالک سمجھا جاتا تھا ہے۔ یہ سوچ اس وقت کی یاد بھی دلاتی ہے جہاں فرد واحد اپنے قبیلے کا اکلوتا مالک و سردار تصور ہوتا تھا اور اسی کو کلی اختیار تھا کہ وہ جس کے بارے میں جو چاہے فیصلہ صادر کرے۔

صدیوں کے ارتقائی مراحل سے گزرنے کے بعد سماجی علوم کے ماہرین نے حق رائے دہی کا ایک قابل عمل نظام متعارف کرایا۔ جس کی بنیاد پر دساتیر مرتب ہوئے، اسمبلیاں اور حکومتیں تشکیل دینے کا عمل شروع ہوا اور یہ طے ہوا کہ بغیر دستور کے معاشرے تشکیل نہیں پا سکتے اور پھر اسی سوچ کے تحت جدید فلاحی ریاستیں قائم ہوئیں۔ انسانی حقوق کے معیارات طے ہوئے۔ جہموریت اور آزاد عدالتوں کے تصورات پنپنے لگے۔ اس عمل کو آگے بڑھانے میں لاکھوں کروڑوں لوگوں کا علم، محنت، تجربات اور قربانیاں شامل رہیں اور یہ جدید تصورات مزید بہتری کی طرف گامزن ہوئے۔

بدقسمتی سے انسانی علم و ترقی کے اس طویل سفر کے ثمرات آج تک ہم تک نہیں پہنچ سکے ہیں کیونکہ ہمارے ہاں یہ بنیادی تعلیم لوگوں کو دی ہی نہیں گئی۔ ہمارے نصاب میں فرسودہ قصے اور کہانیاں بھری پڑی ہیں مگر جمہوریت، اسمبلیاں، آئین اور اس کے تقدس کا کہیں ذکر نہیں ہے۔ ہماری اکثریت آبادی جس میں پڑھے لکھے لوگ بھی شامل ہیں وہ جمہوریت اور دستور کی اہمیت سے ناواقف ہیں۔ بد قسمتی سے یہ ہماری اکثریت آبادی ہے جو وراثت میں ملی ہوئی صدیوں پرانی، فرسودہ اور غیر جمہوری سوچ پر گامزن ہے۔

اس پر مستزاد یہ کہ اس آبادی کو ہر وہ سوچ اچھی لگتی ہے جس پر صدیوں پہلے ان کے آباؤ اجداد کاربند تھے۔ یہ تبدیلی کے خواہاں ضرور ہیں لیکن اس کا طریقہ کار وہی چاہتے ہیں جو صدیوں پہلے رائج تھا۔ ان کو یہ بات سمجھ نہیں آتی ہے کہ شخصیات اہم نہیں ہوتی ہیں بلکہ دستور اور ضابطے اہم ہوتے ہیں۔ شخصیات تو فانی ہیں اور دستور اور ضابطے وقت کے ساتھ انسانی تجرباتی اور علم کی روشنی میں نکھارے جاتے اور ان میں انسانوں کی صدیوں کے تجربات اور دانش شامل ہوتی ہے۔

دستور اور ضابطے نسلوں کے کام آتے ہیں۔ یہ قوم اس مصیبت سے نہیں نکل سکتی جب تک اس کو یہ سمجھ نہ ہو کہ ایک شخص کی بجائے بہت سارے دماغ مل کر اچھا فیصلہ کر سکتے ہیں اور عوامی نمائندوں کا بنایا گیا دستور ہی مقدس ہے جس پر عمل پیرا ہوئے بغیر جمہوریت کی گاڑی آگے نہیں چل سکتی۔ اس قوم کو دستور کی اہمیت پڑھانے کی ضرورت ہے۔ ورنہ یہ قوم اسی سوچ کو ہی اچھا سمجھے گی کہ آئین تو کاغذ کا ٹکڑا ہے اس کے ہونے یا نہ ہونے سے کیا فرق پڑتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دستور کے بغیر جدید جمہوریت ریاست کا تصور دیوانے کا خواب ہے۔ زہرا نگاہ نے بہت پہلے کہا تھا۔

سنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے
سنا ہے شیر کا جب پیٹ بھر جائے تو وہ حملہ نہیں کرتا
درختوں کی گھنی چھاؤں میں جا کر لیٹ جاتا ہے
ہوا کے تیز جھونکے جب درختوں کو ہلاتے ہیں
تو مینا اپنے بچے چھوڑ کر
کوے کے انڈوں کو پروں سے تھام لیتی ہے
سنا ہے گھونسلے سے کوئی بچہ گر پڑے تو سارا جنگل جاگ جاتا ہے
سنا ہے جب کسی ندی کے پانی میں
بئیے کے گھونسلے کا گندمی سایا لرزتا ہے
تو ندی کی روپہلی مچھلیاں اس کو پڑوسن مان لیتی ہیں
کبھی طوفان آ جائے، کوئی پل ٹوٹ جائے تو
کسی لکڑی کے تختے پر
گلہری، سانپ، بکری اور چیتا ساتھ ہوتے ہیں
سنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے
خداوند! جلیل و معتبر! دانا و بینا منصف و اکبر!
مرے اس شہر میں اب جنگلوں ہی کا کوئی دستور نافذ کر!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments