آج کے بچوں کے لئے بھولی بسری کہانیاں


جنگل کا قانون (1)

تم پانی گدلا کر رہے ہو
بھیڑیے نے دھاڑتے ہوئے میمنے سے کہا
میمنے نے ڈر سے کانپتے ہوئے کہا
جناب پانی تو آپ کی طرف سے میری طرف آ رہا ہے
(میمنا پانی کے بہاؤ کی طرف کھڑا تھا)
بھیڑیے نے کہا بولتے بہت ہو تمہاری زبان دراز ہے
تم نے پچھلے سال بھی مجھے گالیاں دی تھیں
جناب میں تو ابھی چھ ماہ کا ہوں
پھر وہ تمہارا باپ ہو گا
یہ کہہ کر وہ میمنے پر جھپٹا اور چند
لمحوں میں ہڑپ کر گیا

سبھی بھیڑیں اکٹھی ہو کر منمناتی آنسو بہاتی جنگل کے بادشاہ کے پاس پہنچیں وہ سو کر ابھی اٹھا تھا اس نے غور سے ان کی بات سنی۔ اس نے بھیڑیے کو بلا بھیجا بھیڑیا ہانپتا کانپتا حاضر ہوا جنگل کا بادشاہ اس سے بہت غصہ ہوا اور کہا آئندہ ایسی حرکت کی تو تمہاری ہڈیاں توڑ دوں گا میں حکم دیتا ہوں آپ سب جانور پیار محبت سے رہا کریں آئندہ مجھے کوئی شکایت موصول نہ ہو اور بھیڑوں سے بڑے پیار سے کہا میں آپ کے غم میں برابر کا شریک ہوں جو ہونا تھا ہو گیا میمنے کی زندگی اتنی ہی تھی بھیڑیے نے رو رو کر معافی مانگی اور وعدہ کیا کہ وہ تمام جانوروں سے مل جل پیار محبت سے رہے گا اور جاتے جاتے دو تین بھیڑوں کو بہلا پھسلا کر ساتھ لے گیا اور ادھر اتنی موٹی تازی بھیڑوں کو دیکھ کر بادشاہ سلامت کے منہ میں بھی پانی بھر آیا اور کہا آئندہ جس بھیڑ کو کوئی بھی تکلیف ہو وہ ضرور میرے پاس آ کر اپنی تکلیف بیان کرے تاکہ جنگل کا ماحول خوشگوار ہو جائے چنانچہ روزانہ کوئی نہ کوئی بھیڑ اسے اپنی کہانی سنانے آتی اور وہ آرام سے اسے اپنا تر نوالہ بنا لیتا اور انگڑائی لے کر ناچ اٹھتا۔

نیک دل حکمران ( 2 )

پیارے بچو کہتے ہیں ایک ملک پر چوروں اور نوسربازوں کا قبضہ ہو گیا نوسرباز لوگوں کو متاثر کرنے اور انہیں بیوقوف بنانے میں تو خوب ماہر تھے لیکن انہیں خوف تھا کہ کسی دن ان کا بھانڈا نہ پھوٹ جائے ان کا کوئی ایسا سربراہ ہونا چاہیے جس پر کسی کو بھی شک و شبہ کی گنجائش نہ ہو ان کی خوش قسمتی کہ انہیں ایک بہروپیا مل گیا جس کے خوش کن بہروپ دیکھ کر عوام اس کے گرویدہ ہوتے گئے وہ ہر وقت بھگوان کی مالا جپتا رہتا اور لوگ اس کی مالا جپتے لیکن آہستہ آہستہ جب ان کی لوٹ کھسوٹ سے ملک میں بدحالی پھیلنے لگی لوگوں کے روزگار میں تنگی آتی گئی تو عوام میں اس قدر بے چینی بڑھی کہ جگہ جگہ باتیں ہونے لگیں لوگ اجتماع کرنے لگے کہ اہلکار ہمارے مسائل کی لوٹ کھسوٹ میں مصروف ہیں ہمارے چولہے ٹھنڈے ہو رہے ہیں۔

ہمارے روز گار ختم ہو گئے ہیں۔ ہوتے ہوتے یہ بات بادشاہ کے کانوں تک پہنچی کہ عوام میں میرے اہلکاروں کے خلاف اس قدر احتجاج ہو رہا ہے کہ لوگ سڑکوں پر نکل آئے ہیں تو رحم دل بادشاہ نے عوام کی داد رسی کے لئے اہلکاروں سے ان کے محکمے واپس لے کر آپس میں بدل دیے اور ڈھنڈورچی سے جگہ جگہ اعلان کروا دیا کہ میں نے ان کے محکمے بدل دیے ہیں اور اب بدعنوانیاں کرنے والوں کے خلاف تحقیقات کراؤں گا اور نہیں ایسی سزا دلواؤں گا کہ ان کی سات پشتیں یاد رکھیں گی عوام بادشاہ سلامت کے اس اعلان پر عش عش کر اٹھے اور انہیں خوشی ہوئی کے بادشاہ سلامت کو ہمارا اس قدر خیال ہے اور ”شہنشاہ کی جے ہو“ کے نعروں سے فضا گونج اٹھی نیک دل حکمران اسی طرح بھگوان کی مالا جپتا رہا اور عوام اس کی مالا جپتے رہے۔

قدرت کا عطیہ ( 3 )

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک نشئی آدمی بھنگ کی تلاش میں مارا مارا پھر رہا تھا کہ اسے کوئی ایسا گاؤں شہر یا کوئی ایسی جگہ مل جائے کہ جہاں دور دور تک بھنگ کے کھیت ہوں تا کہ وہاں وہ اپنی بقیہ زندگی سکون سے گزار سکے خدا کا کرنا کیا ہوا کہ وہ ایک ایسے شہر میں داخل ہوا کہ جہاں کا بادشاہ انتقال کر گیا تھا اور نیا بادشاہ بنانے کا عمل جاری تھا وہاں کا رواج تھا کہ جو آدمی ایک خاص صبح اس شہر میں داخل ہو گا اسے بادشاہ بنا دیا جائے گا قسمت نے کیا یاوری کی کہ وہ نکلا تھا بھنگ کی تلاش میں اور اسے بادشاہت مل گئی اس کو امور سلطنت سے کیا دلچسپی ہونی تھی اسے تو بس ایک شوق تھا کہ اسے اٹھتے بیٹھے بھنگ کا پیالہ مل جائے اس سے زیادہ کی اسے خواہش نہیں تھی۔

البتہ اپنے خواب پورے کرنے کے لئے اس نے ملک کے وسیع رقبے پر بھنگ کی کاشت کا انتظام کیا آہستہ آہستہ ایک بڑا طبقہ بھی بھنگ کا عادی ہوتا گیا اور بادشاہ کو دعائیں دینے لگا جہاں تک امور سلطنت کا تعلق ہے وہ اس کا سپہ سالار چلاتا جو بہت جری اور بہادر تھا اور اس نے آس پاس کے کئی علاقے فتح کر کے اس کی راجدھانی میں شامل کر لیے تھے ہر فتح پر جشن ہوتا اور سب سے زیادہ بھنگ کے عادی پیالہ نوش کر کے جوش و جنون میں نعرے لگاتے کہ ہمیں قدرت نے ایسا بادشاہ دیا ہے جس کی ہند سندھ میں دہشت ہے جس کا نام سن کر بڑے بڑے ملک کانپتے ہیں اور وہ جب سے آیا ہے ہم بھی ”سکون کی نیند“ سوتے ہیں۔

جام جمشید ( 4 )

ملک یغستان میں ایک نیک دل بزرگ رہتا تھا وہ کسی کے لئے بھی کوئی دعا کرتا دعا قبول ہو جاتی اور کام ہو جاتا لوگ اس کی طرف کھنچتے چلے گئے وہ ایسے سارے کام خدا کی خوشنودی کے لئے کرتا اور قدرت نے اس کو ایسی صلاحیت دی تھی کہ اسے ان باتوں کا بھی پہلے سے علم ہو جاتا جو ابھی ہونے والی ہوتیں۔ اس بنا پر اس کے بے شمار حاسد بھی پیدا ہو گئے۔ عام طور پر ہر جگہ ایسے لوگ پیدا ہو جاتے ہیں جو نیک انسانوں کی مقبولیت دیکھ کر برداشت نہیں کر پاتے۔

لیکن وہ نیک دل انسان ایسے لوگوں کی سازشوں کے پردے چاک کرتا رہتا جو سازش انہوں نے ابھی کرنی ہوتی وہ پہلے ہی بتا دیتا کہ سازشی عناصر میرے اہل و عیال اور ان کے دوستوں خاص طور پر منافع خان اور اس کی بیوی نفع خان کی کردار کشی کریں گے۔ لوگ حیران ہوتے کہ یہ دونوں تو نیک نام انسان ہیں ان کا ایسی باتوں سے کیا تعلق بزرگ فرماتے تم کو سازشی عناصر کا علم نہیں یہ کسی حد تک بھی جا سکتے ہیں دیکھنا یہ کسی دن ہار کی کہانی بھی بنائیں گے ہوا یہ کہ ایک دن اس کی مرید خاص نفع خان نہا دھو کر اپنی محل نما کوٹھی کی چھت پر بال سکھا رہی تھی ساتھ ہی ہیروں کا جڑا ہار رکھا تھا ایک چیل آئی اٹھا کر لے گئی اس نے رو رو کر خود کو ہلکان کر لیا کہ اب ایسا ہار کہاں ملے گا میں نے ہاروں کا یہ سیٹ ملک یمن سے لیا تھا وہ روتی بسورتی بزرگ کے ہاں پہنچی اور ان سے کہا دعا کریں میرا ہار واپس مل جائے اور بزرگ کو بتایا کہ اس طرح کا ہار صرف ملک یمن میں موجود ہے بزرگ نے اس کو تسلی دی اس کے لئے نہ صرف دعا کی بلکہ اس کے لئے ایسی کرامت کی کہ اس طرح کے کئی ہار ہر ماہ کوئی نہ کوئی خدا کا بندہ اس کے گھر دے جاتا یہ کرامت دیکھ کر حاسدوں کے دل پر چھریاں چلنے لگیں لیکن بزرگ کے چاہنے والے خوش تھے کہ ہمارا بزرگ کامل ہے۔

انہوں نے یہ تو سن رکھا تھا کہ گزرے زمانے ایک جمشید بادشاہ گزرا ہے جس کے پاس جام جمشید تھا جس سے وہ دنیا جہاں کے حالات دیکھ لیا کرتا تھا لیکن وہ کتنے خوش قسمت ہیں کہ ان کے پاس آج ایک ایسا نیک طینت انسان موجود ہے جو مستقبل کی خبریں دیتا ہے اور جمشید بادشاہ کی طرح مستقبل میں پیش آنے والے حالات بھی بتا دیتا ہے اور جب اس نے یہ پیش گوئی کی کہ اب میری زبانی باتیں جسے ہم لوگ آج کل آڈیو ٹیپس کہتے ہیں بھی دشمن لوگ منظر عام پر لائیں گے تو لوگوں نے کہا سچا صادق آدمی ہے یہ بات بھی سچ ثابت ہو گی لیکن لوگ اس وقت انتہائی غمزدہ ہو گئے اور جذبات سے مغلوب ہو کر زار و قطار رونے لگے جب اس نے کہا اب میری جان کو خطرہ ہے۔ حاسد اگرچہ خوش تھے لیکن اس کے چاہنے والے لوگ پریشان تھے کہ اگر اس طرح کا برگزیدہ انسان ان کی صفوں سے اٹھ گیا تو ان کا کیا بنے گا اور وہ اس کی سلامتی کے لئے سجدے میں گر گئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments