حسد کا بھانبھڑ


بیڈ منٹن کھیلتے کھیلتے شٹل لان کے اس حصے کی طرف بار بار جا رہی ہے جو سبزیوں اور پھولوں کے لئے مختص ہے۔ کھلاڑیوں کی عمریں بتدریج سات اور تیس سال ہیں۔ جو آپس میں ماں بیٹا ہیں۔ ماں اپنے پودوں کے بارے میں محتاط ہے اور بیٹے سے کہتی ہے کہ جذبات میں اتنی زوردار شاٹس نہ لگاؤ کہ شٹل پھولوں میں گرے۔

ساتھ ساتھ کھیل اور باتیں جاری ہیں۔ کہ بیٹا پوچھتا ہے :
مما! میرے پودے پر پھول کب کھلیں گے؟

ماں کہتی ہے۔ نئی کلیاں بنی ہیں۔ امید ہے کہ اگلے چند دنوں میں بہت سے نئے پھول کھلنے والے ہیں۔ دیکھو! کچھ دوسرے پودوں پر رنگے برنگے پھول آ گئے ہیں۔

ہاں میں نے دیکھا ہے۔ بیٹا جواباً کہتا ہے۔

دو دن پہلے ہم جو پھول آپ دونوں کے لئے لائے تھے ان پر بھی بہار آ گئی ہے (پچھلے دنوں، دونوں بچے اپنی پسند سے غزانیہ کے پودے لائے تھے، جس کی ایک ایک کلی کھل کے پھول بنی ہوئی تھی اور بہت سی کلیاں ابھی بڑے ہونے کی منتظر تھیں ) ۔ اور تمہاری بہن والے پودے پر تو نیا پھول آ بھی گیا ہے۔ آؤ تمہیں دکھاؤں۔

دونوں اس کیاری کی طرف جاتے ہیں لیکن یہ کیا؟ اس پر تو ادھ کھلی کلیاں ہی ہیں۔ پھول تو کہیں نہیں۔ سرخ رنگ کا وہ پھول اپنی ایک ایک پتی کے ساتھ جو صبح جوبن پر تھا۔ اب کہیں دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ دو تین پتے بچے تھے۔ اس نے معذرت خواہانہ نظر او لہجے میں اپنے بیٹے کو دیکھا۔ جو اس کے خیال میں اسے دیکھنے کا منتظر تھا۔ شرارتی! شاید مالی یا کسی اور سے لان کی صفائی کے دوران ٹوٹ گیا۔ ہو جاتا ہے۔ ہم آپ کو ایک دو دن میں دوبارہ دکھا دیں گے۔ پریشان نہیں ہونا۔ آؤ ہم اپنا کھیل دوبارہ شروع کرتے ہیں۔

اس دوران بیٹا بالکل خاموش ہے۔ کھیل دوبارہ شروع ہو جاتا ہے۔ شٹل اور ریکٹ کی آوازیں۔ ماں اور بیٹے کی مکالمے۔ اوپر نیچے ہوتی باتیں۔ سروس صحیح نہ ہونے پر ماں کی ہدایتیں۔ بار بار گری شٹل کو اٹھانے پر بیٹے کی خفگیاں۔ کووؤں کی تیز کائیں کائیں۔ چڑیوں کی معصوم چوں چوں۔ تتلیوں کی پھولوں پر اڈاریاں۔ اور گھر کے اندر سے آتی بیٹی کی غیر واضح پکاریں۔ کہ کھیلتے کھیلتے بیٹا اپنے ریکٹ سمیت ماں کے پاس آتا ہے۔

ماں اسے اپنی جگہ پر کھڑے رہنے کا کہتی ہے۔ زیادہ قریب آنے سے منع کرتی ہے کہ کھیلو گے کیسے؟ لیکن وہ اس کے قریب کھڑا ٹس سے مس نہیں ہو رہا۔ متوجہ ہونے پر اسے اندازہ ہوتا ہے۔ وہ کچھ کہنے نہ کہنے کی کشمکش میں ہے۔ تھوڑا جھجکا، تھوڑا ڈرا اور شاید کچھ شرمندہ بھی۔ ماں اسے گود میں لے کر لان کی ایک کرسی پر بیٹھ جاتی ہے۔ اس کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں پکڑتی ہے۔ اور پوچھتی ہے کہ کیا آپ کچھ کہنا چاہتے ہیں؟ وہ بولے بغیر سر ہلا کے ہاں کا اشارہ کرتا ہے۔ اور ماں کی آمادگی دیکھنے پر کہنا شروع کرتا ہے۔

بیٹا: مام، وہ پھول میں نے توڑا تھا۔
ماں : اوہ اتنی سی بات پر پریشان کیوں ہو؟ ہو جاتا ہے انجانے میں اس طرح۔
بیٹا: ممی، میں نے جان بوجھ کیا۔
ماں : پکا؟ لیکن کیوں؟

بیٹا: جب میں تھوڑی دیر پہلے لان میں آیا تو اپنے اور آپی کے پودے کو دیکھنے گیا۔ میرا پودا پھولوں سے خالی تھا۔ جبکہ دوسرے پودے پر سرخ رنگ کا پیارا سا پھول تھا۔ مجھے بہت برا لگا اور غصہ آیا اور میں پتیاں توڑنا شروع کر دیں۔

ماں : پھر تین چار چھوڑی کیوں؟

بیٹا: مجھے آپ کی بات یاد آئی کہ جیلسی میں دوسروں کی خوشی برداشت نہیں ہوتی۔ اور یہ آپ کے اچھے کاموں کو کھا جاتی ہے۔ تو میں نے مشکل سے اپنے آپ کو روکا۔ اس طرح یہ پتیاں رہ گئیں۔

مما، میں نے بہت برا کیا۔ شیطان مجھ سے برا کروانا چاہتا تھا۔

ماں : جو حیران تھی۔ اتنے چھوٹے بچے کی حساسیت پر۔ متشکر تھی اپنے رب کی جس نے اس پیاری جان کو خود احتسابی کی توفیق دی۔ کانپ رہی تھی اتنے شفاف دل پر۔ دعا گو تھی اس کے مزید اچھا ہونے کے لئے۔

ماں نے بہت محبت سے یہ کہتے ہوئے اسے اپنے ساتھ لگا لیا۔ نہیں میرے پیارے! آپ نے بہترین کیا کہ سچ بولا۔ آپ نے خود کو روک لیا۔ آپ نے شیطان کا مقابلہ کیا۔ آپ نے بہت اچھا کیا۔

حسد سے بچو کہ یہ تمہاری نیکیاں اس طرح کھا جاتا ہے جس طرح آگ سوکھی لکڑیوں کو (حدیث نبوی ﷺ)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments