سردار دل جیت سنگھ پوٹھوہاری: کیمبل پور کے زمیندار کی بھارت نقل مکانی کی غمناک داستان


1999 ء میں ہندوستان کے سفر میں جو جانا، جو سنا، جو سمجھا، اس کی ایک جھلک پیش ہے۔

ہم تینوں دہلی سے چنائی جانے کے لیے ایک ٹرین میں سوار ہوئے۔ ہمارے کیبن میں سردار دل جیت سنگھ پوٹھوہاری بھی تھے۔ سردار صاحب کے آبا و اجداد کا تعلق کیمبل پور ، موجودہ اٹک کے پاس کسی گاؤں سے تھا۔ سردار صاحب کی عمر لگ بھگ چالیس سال تھی۔ ان کے والدین تقسیم ہند کے وقت کیمبل پور سے نکل کر ہندوستان آ گئے تھے۔اس وقت ان کی رہائش دہلی سے کچھ فاصلہ پر ایک چھوٹے سے قصبے میں تھی۔ سردار صاحب نے اپنے والدین اور خاندان کے دیگر لوگوں سے اپنے آبائی علاقے کے بارے میں خاصی معلومات حاصل کر رکھی تھیں۔ وہ ایک بڑی کمپنی میں ملازمت کر رہے تھے اور کمپنی کے کام کے سلسلہ میں ہی بھوپال جا رہے تھے۔

سردار صاحب نے بھوپال میں اتر جانا تھا لہذا میں یہ چاہتا تھا کہ ان کے اترنے سے پہلے جان سکوں کہ ان کے خاندان نے کیمبل پور سے نقل مکانی کیوں اور کیسے کی؟ میں ان کے پاس بیٹھ گیا۔ ہم دھیمی آواز میں باتیں کرنے لگے تاکہ ہماری باتوں سے دوسرے ساتھیوں کی نیند میں خلل نہ پڑے۔ مجھے جو انھوں نے بتایا اس کا مختصر خلاصہ میں آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں۔ یاد رہے میں بھی ایک مہاجر کی اولاد ہوں جو بے یارو مدد گار اپنا سب کچھ حتیٰ کہ اپنی منکوحہ (جسے سکھ اغوا کر کے  لے گئے تھے) کو بھی چھوڑ کر پاکستان آ گیا تھا۔ اس لیے جب کوئی مجھے اپنی نقل مکانی کی داستان سناتا ہے تو مجھے اپنے خاندان کی نقل مکانی سامنے نظر آجاتی ہے۔

سردار صاحب نے بتایا کہ ان کے والد کا نام شیر سنگھ ہے اور وہ ایک زمیندار گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں۔ علاقے میں زیادہ تر مسلمان رہتے تھے۔ ہندوؤں اور سکھوں کی آبادی بہت کم تھی۔ بچپن میں وہ جیسے باقی بچے کھیلتے ہیں ان کا بچپن بھی دوسرے بچوں جیسا ہی گزرا۔ وہ مقامی طور پر منعقد ہونے والے مختلف میلوں میں شریک ہوتے تھے۔ ملاپ اردو کا ایک اخبار تھا جو اس علاقے میں کبھی کبھار ملتا تھا۔انھوں نے ایک انتہائی دلچسپ بات بتائی کہ اس علاقے میں کاغذ بہت کم ملتا تھا لہذا وہ زمین پر ریت کی بڑی سی سلیٹ بنا لیتے اور اس پر مختلف چیزیں لکھ کر یاد کر لیتے تھے۔اس سے پہلے کہ سردار صاحب مجھے نقل مکانی کی بابت کچھ بتاتے وہ خاموش ہو گئے۔

انھوں نے نم زدہ آنکھیں چھپانے کی ایک ناکام کوشش کی اور ایک لمبی سانس کھینچ کر بتایا کہ تقسیم کے وقت ان کے والد صاحب کی عمر سولہ سال تھی اور وہ کیمبل پور میں ایک ہندو ہائی سکول میں زیر تعلیم تھے۔ جب حالات خراب ہونا شروع ہوئے تو ہر کسی کو فکر لاحق ہوئی۔ ان کے گاؤں میں بھی ہندوؤں اور سکھوں کے گھر تھے۔ جب ان کے گھروں پر حملے ہونے لگے تو ایک مسلمان خاندان نے انھیں پناہ دی۔ اس دوران کچھ لوگوں اس گھر پر آئے اور بوڑھی خاتون سے پوچھا کہ یہاں پر کوئی ہندو یا سکھ تو نہیں چھپے ہوئے۔ اس خاتون نے بڑی دلیری سے جواب دیا کہ یہاں پر ایسا کوئی شخص نہیں ہے۔ اس دوران جو لوگ گھروں سے باہر تھے انھیں مار دیا گیا۔ ان میں سردار صاحب کے دادا جی بھی شامل تھے ان کے خاندان کے بے شمار لوگوں کو مارا گیا ۔یہ سب کچھ سناتے ہوئے کبھی وہ خاموش ہو جاتے اور کبھی ان کی آواز بھی بھرا جاتی تھی۔

میں صورتحال کو دیکھتے ہوئے مزید سوالات کرنے سے رُک گیا اور صرف اتنا پوچھا کہ ہندوستان میں ان کا خاندان کیسے پہنچا؟

اس پر انھوں نے بتایا کہ پہلے کسی نے انھیں کیمبل پور کے ہندو ہائی سکول میں پہنچا دیا۔ وہاں وہ دو ماہ تک رہے۔ بعد ازاں وہ کوئلہ لے جانے والی وین میں بیٹھ کر واہ کینٹ آ گئے۔ جہاں پر وہ کئی ماہ تک رہے پھر ایک دن ایک ٹرین آئی جو انھیں اٹاری اور امرتسر کے راستے ہندوستان لے آئی۔ لاہور سٹیشن پر اس ٹرین کو لوٹا گیا اور قتل و غارت بھی کی گئی۔ جو خوش نصیب تھے وہ سرحد عبور کر کے ہندوستان آ گئے۔ جن میں ان کا خاندان بھی شامل تھا۔ کئی لوگ راستے میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

ایک اچھا خاصا زمیندار گھرانہ دہلی میں قائم کیمپوں میں آ گیا۔ میں نے ان سے آخری سوال یہ پوچھا کہ سردار صاحب آپ کے والد 16 سال کی عمر کے تھے جب یہ واقعہ ہوا تو انھوں نے یہاں پر آ کر کیا کیا؟ ہم ابھی یہ باتیں کر ہی رہے تھے کہ ایک سٹیشن آ گیا جس پر چھوٹے چھوٹے بچے کھانے پینے کی چیزیں جیسے ٹافی اور بسکٹ وغیرہ بیچ رہے تھے۔ سردار صاحب نے ایک بچے کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ میرے والد کئی سال تک دہلی کے مختلف ریلوے سٹیشن پر اسی طرح کی چیزیں بیچا کرتے تھے۔

انھیں پڑھنے کا شوق تھا لہذا وہ دن میں پڑھتے اور شام میں یہ کام کرتے۔ وہ محنتی تھے اسی لیے بہت جلد اپنے آپ کو سنبھال لیا اور ہماری تعلیم کا بھی بندوبست کیا۔ میں الیکٹریکل انجینئر ہوں۔ والد صاحب چند سال پہلے فوت ہوئے ہیں۔ ماتا حیات ہیں۔ جب کبھی انھیں کیمبل پور کی یاد آتی ہے تو وہ باتیں کرنا شروع کر دیتی ہیں، بیچ میں روتی ہیں اور ہمیں بھی رلا دیتی ہیں۔ آخری بات پر میں بھی اپنے خاندان کی ہجرت یاد کرتے ہوئے کھڑکی سے باہر دیکھ کر اپنے غم چھپانے کی کوشش کرنے لگا۔

کافی دیر خاموشی کے بعد سردار صاحب نے ایک مرتبہ پھر گفتگو شروع کی اور کہنے لگے ہندوستان آنے کے بعد ہم لوگ کئی ماہ تک عارضی کیمپوں میں رہے۔ بعد ازاں دہلی سے خاصا دور پنجاب کے ایک بڑے قصبے میں ہمیں کچھ مکانات دیے گئے اور ہم نے ان میں رہنا شروع کردیا۔یہ کہنے کے بعد سردار صاحب نے ایک لمبا وقفہ کیا اور بولے کہ مشتاق جی جن گھروں میں ہمیں رہنے کے لیے کہا گیا تھا وہ اس قصبے کے مشرق میں واقع تھے۔ لوگوں نے بتایا کہ وہ محلہ مسلمانوں کا تھا اس علاقہ میں ان کی مسجد بھی موجود تھی لیکن بے آباد تھی، کیونکہ اب اس محلہ میں کوئی مسلمان نہیں رہتا تھا۔

تقسیم ہند کے وقت ان پر بہت ظلم ہوا انھیں لوٹا گیا، مارا گیا اور گھروں سے نکلنے پر مجبور کیا گیا۔ جو مکانات خالی ہوئے وہ پاکستان سے آنے والے ہندوؤں اور سکھوں کو الاٹ کر دیے جاتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ ہم جس گھر میں رہے تھے اس کی کوئی بھی چیز باقی نہیں تھی، سوائے بچوں کی چند کتابوں کے۔ جب میں نے ان کتابوں کو پہلی مرتبہ دیکھا تم مجھے یوں لگا کہ یہ میری وہی کتابیں ہیں جو میں کیمبل پور کے گاؤں میں اپنے گھر میں چھوڑ آیا تھا۔

لوٹنے والوں کو سب چیزوں سے دلچسپی تھی سوائے ان کتابوں کے۔
سب کچھ لوٹا گیا ۔۔۔کتابیں محفوظ رہیں ۔۔۔ یہاں بھی اور وہاں بھی۔۔۔

سردار صاحب گویا ہوئے کہ اس مکان کی دیواروں پر خون کے چھینٹے تھے۔ ہمیں چیخوں کی آوازیں تو سنائی نہیں دے رہی تھی لیکن خون کے چھینٹے دیکھ کر ہمیں یہ اندازہ ہو رہا تھا کہ یہاں پر ان پر کیا بیتی ہوگی۔ سردار صاحب نے یہ بھی بتایا کہ جب میری ماتا دیوار صاف کر رہی تھی تو ساتھ میں رو بھی رہی تھی۔ یوں لگتا ہے جیسے کہہ رہی ہوں کہ خون کا رنگ تو ایک جیسا ہی ہے اور قتل بھی ایک جیسا ہی ہوتا ہے۔ ظلم بھی ایک جیسا ہی ہوتا ہے، لوٹ مار اور نقل مکانی بھی ایک جیسی ہی ہوتی ہے،وہ ہندوستان سے پاکستان کی طرف مسلمانوں کی ہو یا پاکستان سے ہندوستان کی طرف ہندوؤں اور سکھوں کی ہو۔

یہاں بھی زمینداروں کے بچوں نے بازاروں میں ٹافیاں بیچی ہیں اور مجھے یقین ہے کہ اس گھر میں رہنے والے مسلمانوں نے بھی پاکستان میں جا کر کئی سال تک بازاروں میں ٹافیاں ہی بیچی ہونگی۔ یہاں بھی ہمیں کسی نے ہار نہیں پہنائے اور جو یہاں سے وہاں گئے انھیں بھی کسی نے ہار نہیں پہنائے ہوں گے۔سب کو بوجھ سمجھا گیا اور غریب جان کر مدد بھی کی گئی۔

کچھ ہی دیر میں سرحد کے دونوں اطراف رہنے والے بادشاہ سے فقیر ہو گئے ۔

کچھ وقفے کے بعد جب ہم دونوں میں مزید بات کرنے کا حوصلہ پیدا ہوا تو سردار صاحب نے ایسی بات کہی جو میں نے کبھی نہیں سوچی تھی۔ انھوں نے کہا کہ ایک دن میں نے اپنے پتا سے پوچھا یہ ٹھیک ہے کہ آپ اپنے گاؤں سے ڈر کے مارے نکل آئے اور ایک لمبے عرصے تک کیمپوں میں رہے اور آپ کے بقول چند ماہ بعد امن ہو گیا تو آپ نے واپس اپنے گاؤں جانا پسند کیوں نہ کیا اور ہندوستان کا ہی انتخاب کیوں کیا؟جب کہ ابھی بھی ہمارے کافی رشتہ دار ان علاقوں میں رہ رہے ہیں۔

یہ وہ سوال تھا جو میں نے کبھی بھی اپنے بزرگوں سے نہیں کیا تھا لیکن سردار صاحب نے یہ سوال اپنے بزرگوں سے کیا۔ سردار صاحب نے بتایا کہ ان کے پتا نے کہا کہ اس وقت ماحول یہ بن چکا تھا کہ پاکستان مسلمانوں کے لیے جبکہ ہندوستان ہندوؤں اور سکھوں کے لیے ہے۔ اگر آپ امن سے رہنا چاہتے ہیں تو مسلمانوں کو پاکستان ہندو اور سکھوں کو ہندوستان چلے جانا چاہیے۔ یہ وہ تصور تھا جس کی بنیاد پر سب نے واپس اپنے گاؤں جانے کی بجائے ایک ان دیکھے ملک میں جہاں ان کا کوئی واقف بھی نہیں تھا ، رشتہ دار تو دور کی بات تھی، جہاں ان کی کوئی جائیداد بھی نہیں تھی اور نئے سرے سے دوبارہ زندگی شروع کرنی تھی، ہندوستان کو ترجیح دی۔

میں نے ڈرتے ڈرتے ایک اور سوال پوچھا کہ کیا کبھی آپ کے پتا نے اپنے اس فیصلے پر بھی بات کی تھی؟ سردار صاحب نے بتایا کہ میں نے یہ سوال تو نہیں پوچھا لیکن ان کی باتوں سے یہ ضرور محسوس کیا کہ شروع میں تو وہ کہتے تھے کہ ہمیں نہیں آنا چاہیے تھا لیکن جب وہ سنبھل گئے اور ارد گرد کے لوگوں سے ان کے اچھے تعلقات بن گئے تو پھر وہ کہتے تھے کہ جو ہوا ٹھیک ہوا۔ وہ یہ بات ضرور کہتے تھے کہ تقسیم ہند میں نقل مکانی یا ہجرت کی بات نہیں ہوئی تھی،صرف اکثریت کی بات تھی۔ ہمارے لیڈروں کے درمیان طے یہ ہوا تھا کہ جس علاقے میں مسلمان اکثریت میں رہتے ہیں وہ پاکستان کہلائے گا لیکن اس کا یہ مطلب نہیں تھا پاکستان میں غیر مسلم نہیں رہ سکتے۔

یہ بحث کافی دیر سے چل رہی ہے اور شاید آئندہ بھی سو سال تک چلتی رہے گی۔ کچھ لوگ اس کے حق میں اور کچھ اس کی مخالفت میں ہیں۔ مجھے اپنے آباؤ اجداد کے فیصلے پر تنقید کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں ۔ اس لیے کہ انھوں نے اس وقت کی صورتحال کے مطابق جو بہتر سمجھا وہی فیصلہ کیا۔ اگر میں اس وقت موجود ہوتا تو میں بھی اپنے حالات کے مطابق فیصلہ کرتا جو شاید آج کی نسل کو پسند نہ ہوتا۔ اس لیے میں یہ سمجھتا ہوں کہ جو بھی فیصلہ ہوتا ہے وہ اس وقت کے حالات کے مطابق ہی کیا جاتا ہے۔ بعد ازاں جب فیصلے کا تجزیہ کیا جاتا ہے تو کلی طور پر حالات ہمارے سامنے نہیں ہوتے۔ جس وجہ سے ہمیں فیصلے کو غلط یا صحیح قرار دینے کا کوئی حق حاصل نہیں ہوتا۔

پھر اس کے بعد نیند کی دیوی کو آتے آتے بہت دیر لگ گئی ۔۔۔ مجھے بھی اور سردار صاحب کو بھی ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments