بنگالی استانی کا یونیورسٹی پہ راج


اب ظاہری بات ہے کہ یورپ اور ایشیاء کا کلچر انتہائی مختلف ہے اور پھر دونوں براعظموں کے باشندوں کا سوچنے کا انداز اور رہن سہن کے طریقے بھی انتہائی مختلف ہیں۔ ہم چونکہ ایک طالبعلم کے طور پہ یورپ میں وارد ہوئے تھے لہٰذا ہمارا سب سے زیادہ مشاہدہ یہاں کے تعلیم و تدریسی نظام کے متعلق ہوا اور پھر خاص طور پہ یونیورسٹی کے متعلق۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمارا مضمون (نفسیات) بھی کچھ ایسا ہے کہ ہمیں چیزوں کا گہرا مشاہدہ اور پھر تجزیہ کرنا ہی پڑتا ہے۔

گو کہ میں پاکستان کی کسی بھی یونیورسٹی کا طالبعلم نہیں رہا اور یہ بھی سننے کو ملتا رہتا ہے کہ سکول اور یونیورسٹی میں بہت فرق ہے لیکن پھر بھی پاکستانی دوستوں سے بات چیت کرنے کے بعد اور یہاں یورپ میں یونیورسٹی کے طالبعلم ہونے کے ناتے، میں یہاں چند انتہائی تعجب انگیز تجربات اور مشاہدات کا ذکر کرنا چاہتا ہوں۔

مجھے یاد ہے کہ ابتدائی دنوں میں ایک مضمون کی پہلی کلاس لینے ہم سب طالب علم یونیورسٹی کی راہداری میں کھڑے پروفیسر کا انتظار کر رہے تھے کہ ایک سادہ سا بندہ جو کہ انتہائی خستہ لباس (ہمارے معیار کے مطابق) سے آراستہ تھا، ہمارے سامنے سے گزرا اور کلاس کا دروازہ کھول کر کرسیوں کو ذرہ ترتیب سے رکھنے لگا اور وائٹ بورڈ کو صاف کرنے لگا۔ پھر اس نے ہمیں کہا کہ اندر آ جاؤ۔ مجھے دوسروں کے متعلق تو علم نہیں لیکن اپنے متعلق میں یہ بات پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ مجھے وہ صفائی کرنے والا ملازم ہی لگ رہا تھا اور پھر جب اس نے اپنا تعارف کروایا تو میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں کیونکہ وہ ہمیں ارتقائی نفسیات پڑھانے آیا تھا یعنی وہ ہمارا استاد تھا۔

پاکستانی دوست جو میرے ہم جماعت بھی ہیں، کا تاثر بھی یہی تھا۔ استاد آتا ہے کلاس میں اور بچے آپس میں باتیں کرتے رہتے ہیں اور مجال ہے کہ استاد انہیں دبک سکے۔ آپ کلاس کے دوران اپنا موبائل استعمال کر سکتے ہیں، استاد آپ کو کچھ نہیں کہے گا۔ آپ کو کچھ دیر کے لیے کلاس سے باہر جانا ہے؟ کافی نہیں ہے؟ کھانا کھانا ہے؟ بے دھڑک کھائیں پئیں، کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ کچھ استاد کبھی کبھار کلاس میں انتہائی عاجزی اور معذرت خواہانہ انداز میں کھانے پینے سے روکتے نظر آتے ہیں۔ مجھے ہمیشہ یورپین استادوں پہ ترس آتا ہے کہ یہ کسی پہ چلا نہیں سکتے، کسی کو برا بھلا نہیں کہہ سکتے۔

کلاس میں اگر آپ سوال کرنا چاہتے ہیں تو بے دھڑک ہو کر کریں اور استاد کبھی بھی یہ باور کرانے کی کوشش نہیں کرے گا کہ وہ آپ سے زیادہ جانتا ہے۔ میرے ساتھ کئی دفعہ ایسا ہو چکا ہے کہ میں نے کوئی سوال پوچھا ہو اور استاد نے جواب میں یہ کہا ہو کہ مجھے اس نظریے پہ اس طرح سے سوچنے کا موقع نہیں ملا اور یہ کہ میں نہیں جانتا کہ اس کا جواب کیا ہو گا۔

عام طور پہ استاد چاہتا ہے کہ طالبعلم اس سے سوال کریں یا پھر وہ طلبہ سے سوال کرے اور وہ ایسا کرتا بھی ہے۔ سوال پوچھا جائے گا کہ اچھا یہ بتاؤ کہ نفسیات کسے کہتے ہیں؟ کتنا سادہ سوال ہے! ہر کسی کو اس کا جواب بھی آتا ہے لیکن پوری کلاس کو سانپ سونگھ جاتا ہے۔ استاد پھر کہتا ہے کہ مہربانی کر کے کوئی بندہ کچھ ہی کہہ دے وہ سہی ہو یا غلط، تو بھی کوئی نہیں بولتا۔ استاد کی مجال ہے کہ وہ کسی طالبعلم کو مخاطب کر کے کہہ دے کہ تم بتاؤ! کیونکہ بھئی یہ یورپ ہے یہاں آزادی ہے آپ کو کہ آپ بولنا چاہتے ہو تو بولو ورنہ کوئی زبردستی نہیں ہے۔

ہماری ایک کلاس کا مکمل تھیم ہی یہ تھا کہ ہر طالبعلم بتائے گا کہ اس کا دن کیسا گزرا یا یہ کہ وہ کیا محسوس کر رہا ہے وغیرہ وغیرہ۔ ہم سب اپنی اپنی باری پہ بول رہے تھے کہ بات سویڈن کے ایک لڑکے پہ آئی۔ اس نے کہا کہ میں بات نہیں کرنا چاہتا۔ استاد نے کہا کہ کوئی مسئلہ نہیں، میں معذرت خواہ ہوں اگر تم نے اس طرح کی صورتحال میں برا محسوس کیا ہو کہ سب بول رہے ہیں، تم نہیں بول رہے۔

استاد بچوں سے پوچھتا ہے کہ بیٹا یہ ہوم ورک ٹھیک رہے گا؟ کوئی مسئلہ تو نہیں ہے ناں؟ اگر وقت پہ نا بھی کر سکے تو خیر ہے، میں وقت بڑھا دیتا ہوں وغیرہ وغیرہ۔

اگر کوئی طالبعلم کلاس میں دیر سے آتا ہے تو اس کے لیے کوئی مسئلہ نہیں ہے لیکن اگر استاد پانچ منٹ دیر سے آئے تو پوری کلاس سے معذرت کرتا ہے۔ آپ نے چھٹی کی ہے وہ آپ سے بالکل نہیں پوچھ سکتا کہ آپ نے چھٹی کیوں کی ہے؟

اب آپ اندازہ لگائیں کہ ہم پاکستانی ڈنڈے کے عادی طالب علم اس طرح کے ماحول میں خراب نہ ہوں تو کیا کریں؟ ہماری تو جب تک کلاس میں ڈنڈے سے ضیافت نہ ہو ہم ایک صفحہ نہ پڑھتے تھے لہٰذا اس یورپین، انتہائی مضر ماحول کے ساتھ مطابقت پیدا کرنے میں ہمیں اچھا خاصا وقت درکار تھا۔ اب ہم اس ماحول کے عادی ہو گئے ہیں، جب دل کرے کلاس میں جاتے ہیں، استاد کے بار بار کہنے پہ بھی خاموش رہتے ہیں، کلاس میں کھلے دل سے کھاتے پیتے ہیں اور موبائل پہ دوستوں کے پیغامات کا جواب تو ہم دیتے ہی کلاس میں ہیں۔ استاد بھی اس طرح کے ماحول کے عادی ہیں۔ آپ ان کی تھوڑی بہت تعریف کر دیں یا ادب سے انہیں بلا بھی لیں تو وہ آپ کے اچھے بھلے فین ہو جاتے ہیں۔ انہیں محسوس ہوتا ہے کہ آپ کا تعلق اس گولے سے نہیں ہے۔

اس سمیسٹر میں ایک مضمون کی پہلی کلاس لینے میں اپنی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے میں کلاس میں پندرہ منٹ دیر سے آیا، اوورکوٹ اتار کر ساتھ والی کرسی پہ رکھا، کانوں سے ہیڈ فون اتارے تو دیکھا کہ ایک ہیبت ناک خاموشی کلاس پہ طاری ہے اور پروفیسر مجھے گھور رہی ہے۔ پوچھنے لگیں کہ تم پندرہ منٹ دیر سے ”کیوں“ آئے؟ آپ قسم لے لیں کہ ان چار سالوں میں کبھی کسی استاد نے ”کیوں“ والا سوال کیا ہو! میں نے کلاس کی جانب دیکھا تو سارے گورے گوریاں دبکے بیٹھے تھے۔

جی بالکل! ہمیں ایک بنگلا دیشی پروفیسر پڑھا رہی تھیں اور ان کا پڑھانے کا طریقہ وہی مشرقی۔ میں نے کوئی تھکا ہوا بہانہ بنایا اور سکون سے کرسی پہ بیٹھ گیا۔ مجھے تھوڑی دیر لگی سمجھنے میں مگر پھر سمجھ آ گئی کہ اب یہاں یورپ میں ہمارے پاکستانی طرز کی تعلیم کا راج ہونے والا ہے۔ چونکہ مضمون کی تمام تفصیلات یونیورسٹی طے کرتی ہے لہٰذا مضمون زیادہ مشکل نہیں ہے اور نہ ہی بہت سا ہوم ورک لیے ہوئے ہے لیکن کلاس کا ماحول اور طریقۂ تدریس تو اب یونیورسٹی تمام اساتذہ کو سمجھانے سے رہی۔

یہ بنگالی استانی یہاں پی ایچ ڈی کی طالبہ ہیں لہٰذا انہیں دو مضامین پڑھانے ہیں اور ہماری بدقسمتی کہ ہم نے غلطی سے ان کا مضمون منتخب کر لیا۔ گورے کلاس فیلوز تو اچھے بھلے گھبرائے ہوئے ہیں کہ یہ مضمون تو نہایت مشکل ہے بلکہ کچھ طلبہ نے تو یہ مضمون ویسے ہی چھوڑ دیا ہے۔ پچھلی کلاس میں ایک گوری کلاس سے باہر جانے کے لیے اٹھی (شاید اسے واش روم جانا تھا) ۔ استانی نے فوراً روک لیا کہ کہاں جا رہی ہو؟ وہ بیچاری فوراً ہی قریبی نشست پہ بیٹھ گئی۔

سوال کرتی ہیں تو ہم معمول کے مطابق جواب نہیں دیتے جبکہ وہ اشارہ کرتی ہیں کہ ہاں وہ فلاں لائن سے تیسرا بندہ جواب دے۔ گوروں کی تو یہاں سٹی گم ہو چکی ہے۔ کل کلاس میں ایک بندے سے جب استانی نے بار بار سوال پوچھا اور وہ جواب نہیں دینا چاہتا تھا تو یقین کریں اس کی حالت رونے کے قریب تر تھی۔ ہر ہر عمل اور رویے پہ کہ جو میرے لیے پاکستانی سیاق و سباق کو سمجھنے کی وجہ سے نارمل ہے، گورے گوریاں گھبرا کر ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں گویا کسی نے چلتی رائفل کی نلی اس کے سامنے کر دی ہو۔

خیر میں نے کل کی کلاس کے بعد پوری کلاس کو سمجھا دیا ہے کہ سب سے پہلے آپ نے گھبرانا نہیں ہے۔ یہ استانی آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں، یہ بنگلہ دیش یا پاکستان نہیں۔ امید تو ہے کہ اگلی کلاس میں طلبہ یوں سہمے ہوئے نہیں بیٹھیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments