ہاشم شاہ ایک درویش صفت پنجابی شاعر (2)۔


تحقیق و تحریر۔ سید شبیر احمد

آپ کی پنجابی شاعری زیادہ تر عشقیہ شاعری پر مبنی ہے۔ آپ کے سب ہی قصوں میں عشق، محبت اور پیار کا جنون ملتا ہے۔ عشق کی تعریف کرتے ہوئے آپ کہتے ہیں جو اس کا مریض ہوا ہے وہ پھر کبھی بھی تندرست نہیں ہو سکتا۔

بھلا عشق گیا جس ویہڑے، اوہدی سبھ جڑ مول گواوے
جیوں باغبان سٹے کٹ بوٹا، اتے بھی سر وار لگاوے
قسمت نال ہووے مڑ ہریا، نہیں مول سکے جڑ جاوے
ہاشم راہ عشق دا ایہو کوئی بھاگ بھلے پھل کھاوے

( یہ بھلا عشق جس کے بھی گھر میں گھسا اسے برباد کر کے رکھ دیا۔ اس گھر کا پھر کچھ بھی نہیں بچتا۔ اس کی مثال وہ درخت ہے جس کو باغ کا نگران کاٹ کر رکھ دے تو وہ پھر کبھی نہیں لگ سکتا۔ وہ درخت پھر قسمت سے ہی دوبارہ ہرا ہو سکتا ہے ورنہ وہ خشک ہو کر مرجھا جاتا ہے۔ ہاشم یہ پیار محبت اور عشق کا راستہ بہت ہی کٹھن ہے کوئی بہت ہی خوش قسمت ہی اس عشق کا پھل کھا سکتا ہے ورنہ سب کے حصے میں رسوائی، جدائی اور پھر موت ہی ہے۔ )

پنجابی کے سبھی صوفی شعرا نے اپنے آپ کو پہچاننے کی بات کی ہے وہ کہتے ہیں کہ اگر آپ نے اپنے رب کو پہچاننا ہے تو سب سے پہلے اپنے آپ کو پہچانو۔ اگر آپ نے اپنے آپ کو پہچان لیا تو آپ اپنے رب کو بھی پہچان لو گے۔ ایسا ہی خیال آپ نے اپنے اس دوہڑے میں بیان کیا ہے۔

دیپک دیکھ جلے پروانہ، ان ایہہ کی مذہب پچھاتا
عاشق دین نہ مذہب رکھیندے، اونہاں ورد خدا کر جاتا
جن ایہہ علم بھلایا دل توں، ان لدھا یار گواتا
ہاشم شاہ تنھاں رب پچھاتا، جنہاں اپنا آپ پچھاتا

(پروانہ ہمیشہ شمع کو دیکھ کر اس پر دیوانہ وار اپنی جان وار دیتا ہے۔ ان کے لئے شمع کے عشق میں جان دینا ہی ان کا مذہب ہے۔ عاشق کا بھی کوئی مذہب نہیں ہوتا وہ صرف اپنے رب کا نام ہر وقت پکارتا رہتا ہے۔ جس نے بھی یہ علم اپنے دل سے بھلا دیا سمجھو اس نے اپنا ملا ہو پیارا محبوب گنوا دیا۔ اے ہاشم جنہوں نے اپنے آپ کو پہچان لیا انہوں نے اپنے رب کو پہچان لیا اور اسے پا لیا۔ )

دلبر یار کیہا تدھ کیتا، میری پکڑی جان عذاباں
دارو درد تیرے دا نہ ہے، اساں پڑھیاں لاکھ کتاباں
روون جوش لگے نت اکھیاں، جدبھڑکی بھاہ کباباں
ہاشم شاہ بہت سہے دکھ پیارے، کدی آ مل دیکھ خراباں

( اے میرے دلبر تو نے یہ کیا کر دیا میری جان دکھ، تکلیفوں اور دکھوں میں گھر گئی ہے۔ میں تیرے عشق میں مارا مارا پھرتا ہوں۔ تیرے دیے ہوئے اس درد کا کسی کتاب میں کوئی علاج نظر نہیں آیا ہے میں نے اس کے لیے لاکھوں کتابیں پڑھ لی ہیں۔ جب تیرے عشق کا جوش بڑھتا ہے تو میری آنکھیں زار و زار روتی ہیں اور میں کباب کی طرح تیرے عشق کی آگ میں جلتا ہوں۔ ہاشم شاہ نے تیرے لیے بہت دکھ برداشت کیے ہیں کبھی تو آ کر مل جاؤ اور اپنے بیمار پیاروں کا حال دیکھ لو) ۔

اپنے پیار اور عشق کو دنیا کی نظر سے چھپاتے ہوئے آپ اپنے محبوب سے شکوہ کرتے نظر آتے ہیں۔
دلبر یار کیہہ تدھ کیتی، مرے ساس لباں پر آئے
ظاہر کراں ہووے جگ رسوا، تے ر ہیا خاموش نہ جائے
میں کر شرم ڈراں وچ ویہڑے، اتے برہوں ڈھول بجائے
ہاشم شاہ فیل وڑے جس ویہڑے، بھلا کچرک کوئی لکائے

( اے میرے محبوب تم نے میرے ساتھ یہ کیا کیا ہے مجھے سانس لینا دشوار ہو گیا ہے۔ میری سانس میرے لبوں پر آ گئی ہے۔ اگر میں اپنا عشق اور اس کا دکھ ظاہر کروں تو دنیا میں رسوائی ہوگی لیکن مجھ سے خاموش بھی رہا نہیں جاتا۔ بتاؤ میں کیا کروں۔ میں رسوائی کے ڈر کے مارے اپنے صحن سے باہر نہیں نکلتا لیکن تمہاری جدائی میرے عشق کا ڈھول پیٹ رہی ہے جس سے ساری دنیا کو پتہ چل جائے گا۔ میں کب تک اپنے عشق کو دنیا سے چھپا سکوں گا۔ اپنے عشق کو ہاتھی سے تشبیہ دے کر وہ کہتے ہیں کیونکہ ہاشم جس کے گھرمیں ہاتھی گھس جائے وہ کب تک اس کو چھپا سکتا ہے۔ ایک دن وہ ظاہر ہو ہی جاتا ہے۔ )

کیوں تلوار وچھوڑے والی، توں ہر دمسان چڑھانویں
تیتھے زور نہیں، بن تیغوں توں ایویں مار گواویں
عاشق نال نہیں سر رکھدے، توں کس پر تیغ اٹھاویں۔
ہاشم بول نہیں، مت بولیں، کوئی ہور نصیحت پاویں

(اے میرے محبوب تم کیوں ہر وقت دوریاں ڈالنے والی تلوار میرے سر پر لٹکائے رکھتے ہو۔ مجھے تم پر زور نہیں ہے تم تو بغیر تلوار کے مجھے مار مکا سکتے ہو۔ جو عاشق ہوتے ہیں وہ ہر وقت مرنے کے لئے تیار رہتے ہیں۔ ان کا سر تو کٹنے کے لئے ہر وقت تیار رہتا ہے۔ تم کیوں ہر وقت تلوار اٹھائے پھرتے ہو۔ ہاشم شاہ تم بڑے بول نہ بولو تمہیں کوئی اور نصیحت کرو۔ )

آپ فرماتے ہیں کہ عشق کرنا بہت ہی مشکل کام ہے اور اللہ تعالی سے عشق کرنا تو بہت ہی آسان بات ہے۔ آپ اس دوہڑے میں فرماتے ہیں۔

رب دا عاشق ہون سکھالا، ایہہ بہت سکھالی بازی
گوشہ پکڑ رہے ہو صابر، پھڑ تسبیع بنے نمازی
سکھ آرام جگت وچ شوبھا، اتے دیکھ ہووے جگ راضی
ہاشم خاک رلاوے گلیاں، ایہہ کافر عشق مزاجی

(ا اللہ تعالی سے عشق کرنا تو بہت آسان بات ہے۔ یہ بازی تو بہت ہی سہل سی بازی ہے۔ ایک گوشے میں صبر سے پڑھے رہو۔ ہاتھ میں تسبیح پکڑ کر ایک کونے میں بیٹھ کر اللہ تعالی کا ورد کرتے رہو اور نمازیں پڑھتے رہو۔ یہ تو بہت آسانی سی بات لگتی ہے کیونکہ آرام اور سکھ ہی دنیا میں اچھا لگتا ہے۔ اس طرح آپ کو اللہ سے عشق کو دیکھ کر ساری دنیا آپ سے راضی ہو گی۔ لیکن یہ کافر عشق ایسا مزاج رکھتا ہے جو آپ کو گلیوں کی خاک چھاننے پر مجبور کر کے رلا دیتا ہے۔

ڈیوڑھ یا ڈیوڑھی

ڈیوڑھ پنجابی زبان کی ایک صنف ہے جس کی دوسری سطر پہلی سطر سے نصف ہوتی ہے۔ دونوں ستروں میں قافیے کی پابندی کی جاتی ہے۔ اور دونوں سطریں مفہوم کے اعتبار سے باہم مربوط ہوتی ہیں۔ مولانا مولا بخش کشتہ نے اپنی کتاب پنجابی شاعراں دا تذکرہ میں اسے سویا یا ڈیوڑھ لکھا ہے اور تعریف ان الفاظ میں کی ہے کہ ایک مصرعے کے ساتھ ایک آدھا یا چوتھا حصہ اور لایا جائے اسے ڈیوڑھ کہتے ہیں۔ اردو اور فارسی میں اسے مستزاد کہتے ہیں۔ ہاشم شاہ نے بھی اپنی شاعری میں ایسی سی حرفیاں کہی ہیں جن کا شمار ڈیوڑھ میں ہوتا ہے۔

کامل شوق ماہی دا مینوں، نت رہے جگر وچ وسدا
لوں لوں رسدا
رانجھن بے پرواہی کردا، کوئی گناہ نہ دسدا
اٹھ اٹھ نسدا
جیں جیں حال سناواں روواں، دیکھ تتی ول ہسدا
ذرا نہ کھسدا
ہاشم کم نہیں ہر کس دا، عاشق ہون درس دا
برہوں رس دا

(مجھے اپنے محبوب سے بہت ہی زیادہ پیار ہے۔ اس کی محبت ہر وقت میرے دل و جگر میں رہتی ہے۔ میرے جسم کے ذرے ذرے سے اس کی محبت ٹپکتی ہے۔ لیکن میرا محبوب بہت بے پرواہ ہے وہ مجھ سے الفت نہیں کرتا اور نہ ہی میرا کوئی گناہ بتاتا ہے۔ مجھ سے دور دور رہتا ہے۔ میں جب بھی اپنا حال اسے سناتا ہوں تو روتا ہوں اور وہ مجھے دیکھ کر ہنستا ہے۔ مجھ پر اسے رحم نہیں آتا ذرا بھی ترس نہیں آتا۔ ہاشم عاشق ہونا ہر کسی کا کام نہیں ہے کیونکہ عشق میں ہمیشہ جدائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ )

سی حرفی
لام۔ لکھ کروڑ قربان کیتے
تیرے عشق ادائی دی آن تے نی
تیری نازکی دیکھ حیران ہوئے
سارے سوہنے جمل جہاں دے نی
کس واسطے کجل پا ونی ہیں
تیرے نین ہی شوخ طوفان دے نی
ہاشم شاہ میاں کر یاد رکھیں
دن چار ہی لاڈ گمان دے نی

( اے میرے محبوب تمہارے عشق کی اداؤں پر میں اپنی لاکھوں کروڑوں جانیں قربان کر دوں۔ تمہاری نازکی دیکھ کر ساری دنیا کے خوبصورت اور نازک اونٹ بھی حیران رہ جاتے ہیں۔ تم اپنی آنکھوں میں کاجل کس لئے ڈالتی ہو وہ تو پہلے ہی اتنی سیاہ ہیں کہ ان پر شوخ طوفانوں کا پتہ چلتا ہے۔ ہاشم شاہ یہ بات ہمیشہ یاد رکھنا کہ لاڈ، پیار محبت کے دن بہت ہی تھوڑے ہوتے ہیں )

یہ سی حرفی بھی ہاشم شاہ کی کتاب سسی پنوں سے لی گئی ہے۔ سسی اپنے محبوب سے جدا ہے اور اس کی یاد میں تڑپ رہی ہے۔ سسی کی اس کیفیت کو انہوں نے اس سی حرفی میں بیان کیا ہے۔

لام لگڑی بھاہ پریم دی نی
مائی! ہوت گئے ساڑ بال مینوں
ہائے ہائے! وچھوڑا پنوں یار والا
مائی! نہیں سی خواب خیا ل مینوں
جیہڑی رب بھاوے آہا کجھ ہوسی
مائی! نال وچھوڑے نکال مینوں
ہاشم شاہ بلوچاں دے آونے دی
کوئی کڈھ وکھال توں فال مینوں

(سسی کہتی ہے کہ پیار محبت کی آگ کا مجھے پتہ نہیں تھا اس نے تو مجھے جلا کر راکھ کر دیا ہے۔ میرے ساجن پنوں یار کی جدائی تو میرے خواب و خیال میں بھی نہیں تھی جو مجھے بہت تنگ کرتی ہے۔ جو کچھ میرا رب چاہے گا وہی کچھ ہو گا اور میرا رب پنوں یار سے میری جدائی کو ختم کرے گا اور ہمیں ملائے گا۔ ہاشم شاہ فال نکالو اور بتاؤ کہ میرے پنوں یار سے جدائی کب ختم ہو گی اور بلوچ کب مجھے لینے آئے گا۔ )

تینڈا عشق قصائی وڑیا جن نال سولاں دل بھریا
اک دن برس جیہا ہو بیتے میں عمر ولوں بہوں ڈریا
دلبر یار ڈٹھے مکھ تیرے میرا تن من تھیوے ہریا
ہاشم شاہ راہ اڈیکے تیرا کدی آمل بھاگی بھریا

اے محبوب تیرا عشق قصائی کی طرح ہے اسے ذرا رحم نہیں آتا۔ وہ میرے دل میں داخل ہو گیا ہے اور اس نے میرا دل کانٹوں سے بھر دیا ہے۔ میرا ایک ایک دن ایک ایک برس کی طرح بیت رہا ہے اور میں یہ دیکھ کر ڈر رہا ہوں کہ اتنی لمبی عمر کیسے بیتے گی۔ اے دلبر اگر تیرا چہرا دیکھوں تو میرا تن من ہرا ہو جائے مجھے خوشی نصیب ہو۔ ہاشم تیرا رستہ دیکھ رہا ہے تیرا انتظار کر رہا ہے۔ اے خوش قسمت کبھی آ کر مجھے مل جا۔ )

مولانا مولا بخش کشتہ اپنی کتاب پنجابی شاعراں دا تذکرہ میں ہاشم شاہ کے متعلق لکھتے ہیں کہ ہاشم شاہ پیری مریدی کے ساتھ ساتھ روزی کمانے کے لئے ترکھانوں کا کام بھی کرتے تھے جس میں انہیں کافی مہارت حاصل تھی۔ اردو، ہندی اور پنجابی میں شاعری کرتے تھے۔ عروض طب اور رمل نجوم کو بہت اچھی طرح جانتے تھے۔ طبعیت میں شوخی اور شعروں میں کافی روانی تھی۔ ان کی شاعری میں سوز و تڑپ، رس و لوچ اور خیالات میں کافی جدت تھی۔ تشبیہات، استعارے اور مہاورے بہت اچھے اور بر محل استعمال کرتے تھے۔ پنوں کو جب اس کے آدمی اٹھا کر لے گئے تو سسی تھل کے ریگستان میں اکیلی اس کو ڈھونڈھ رہی تھی اس کو آپ نے اس دوہڑے میں بیان کیا ہے۔ ان الفاظ اور تشبیہات کو آپ پر غور کریں۔

نازک پیر ملوک سسی دے، مہندی نال شنگارے
بالو ریت تپے وچ تھل دے، جیوں جون بھنن بٹھیارے
سورج بھج وڑیا وچ بدلی، ڈر د ا لشک نہ مارے
ہاشم دیکھ یقین سسی دا، صدقوں مول نہ ہارے

(نازک اور ملوک سی سسی کے نازک پاؤں مہندی سے سنوارے ہوئے تھے۔ تھل کی تپتی ہوئی ریت اتنی گرم تھی جیسے دانے بھوننے والے نے دانے بھوننے کے لئے ریت گر کم کر رکھی تھی۔ تھل کی گرمی میں سسی پنوں کو ڈھونڈھ رہی تھی۔ سورج نے سسی کو دیکھ کر بدلی کی اوٹ لے لی تا کہ سسی کو تمازت کم لگے۔ سسی کی وجہ سے وہ ڈرتا اپنی چمک نہیں دکھا رہا تھا۔ ہاشم کو سسی کا پنوں کو پا لینے کا یقین دیکھ کر اس کے صدق پریقین تھا کہ وہ نہیں ہارے گی۔ )

پنوں کے فراق میں سسی کو کسی پل چین نہیں تھا۔ اس کی اس کیفیت کو ہاشم شاہ نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے۔

دل وچ سوز فراق پنوں دا، روز المبا بالے
برہوں مول آرام نہ دیندا، وانگ چکھا نت جالے
آتش آپ آپے بھٹیارا، آپ جلے نت جالے
ہاشم پھیر کیہا سکھ سوون، جد پیتے پریم پیالے

( پنوں سے جدائی کا درد دل میں ہر روز آگ کا ایک نیا الاؤ روشن کرتا ہے۔ جدائی اور وچھوڑا کہیں آرام نہیں کرنے دیتا۔ ہو وقت آگ لگائے رکھتا ہے اور روز جدائی کی اس آگ میں جلاتا ہے۔ وہ خود ہی آگ ہے اور خود ہی آگ جلانے والا ہے۔ وہ خود بھی جلتا ہے اور ہمیں بھی جلاتا ہے۔ ہاشم جن لوگوں نے ایک دن عشق کے زہر کا پیلہ پی لیا پھر انہیں کب آرام آتا ہے۔ ان کے لئے ساری زندگی جدائی کی آگ میں جلنا ہے )

ہاشم شاہ نے پنجابی بھی جو چار قصے منظوم کیے ان سب کا انجام جدائی اور دردناک تھا۔ اسی لئے ان کے کلام میں پریم کا رس اور اس پریم کے نتیجے میں برہوں اور جدائی کا ذکر بڑے سوز سے موجود ہے۔ اسی وجہ سے ان قصوں کو بعد میں آنے والے بہت سے شاعروں نے اپنے طور پر منظوم کیا۔

بابا بدھ سنگھ گزٹ میں چھپے اپنے ایک مضمون میں ہاشم شاہ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ہاشم شاہ پنجاب کے عظیم ترین شاعروں میں سے ایک ہیجو عشق مجازی کی شاعری میں بہت بلند مقام رکھتا ہے۔ ہاشم شاہ محبت کے جذبہ سے سرشار ہے اور دل کی گہرائیوں اور تصورات کی بلندیوں کو چھوتا ہے۔ اس کی روح ایک ان دیکھی شے کے لئے بے قرار رہتی ہے۔ وہ اندرونی آگ میں جلتا محسوس ہوتا ہے۔ اس کا شاعرانہ تصور اس کے ذہن میں ہیر رانجھا اور سسی پنوں کی ایک خیالی تصاویر ابھارتا ہے اور وہ ان تاریخی اور رومانی کرداروں کی زبان سے بات کرتا ہے۔ سچی محبت اور سلگتی ہوئی خواہش کا اظہار کرتا ہے۔

نوٹ۔ اس مضمون کی تیاری میں انٹرنیٹ اور وکی پیڈیا کے علاوہ مندرجہ ذیل کتب سے استفادہ حاصل کیا گیا ہے۔

1) ۔ پنجابی کے پانچ قدیم شاعر۔ مصنف شفیع عقیل۔ مطبوعہ انجمن ترقی اردو۔ بابائے اردو روڈ کراچی
2) ۔ پنجابی شاعراں دا تذکرہ۔ مصنف مولانا مولا بخش کشتہ۔ مطبوعہ عزیز پبلشرز لاہور۔
1-Website- www.punjbi.kavita.com/Hashimshah
2-Article Baba Budh Singh on Hashim Shah published in Journal History Lahore in 1923


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments