نیوٹرل


سپریم کورٹ نے تاریخی فیصلہ دیتے ہوئے نظریہ ضرورت کو دفن کر دیا ہے۔ قومی اسمبلی کی پوزیشن 3 اپریل کی صبح والی سطح پر واپس لائی جا چکی ہے۔ بروز ہفتہ تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ ہوگی اور اسی اجلاس میں نئے وزیراعظم یعنی شہباز شریف کا انتخاب بھی ہو گا۔

اس کیس میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے حکومت پر قطعی بھروسا نہ کرتے ہوئے تمام ہدایات جاری کردی ہیں۔ جس میں قومی اسمبلی کے اجلاس سے لے کر نئے وزیراعظم کے چناؤ تک، شامل ہیں۔ بادی النظر میں یہ پارلیمنٹ پر عدم اعتماد ہے۔ پارلیمنٹ اور سیاست دان اتنے بے قدر اور بے حیثیت ہو گئے ہیں کہ اب قومی اسمبلی کے اجلاس کی کارروائی کی ہدایات بھی عدالت عظمیٰ ہی دے گی۔ اس کا کیا نتیجہ نکلے گا وہ قبل از بعید ہے۔

نمبر گیم یہی واضح کر رہے ہیں کہ اگر عمران خان اور ان کی پارٹی نے استعفیٰ نہ دیا (جس کی قوی امید کی جا رہی ہے ) تو ان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک اکثریت سے منظور ہو جائے گی۔ نئے وزیراعظم کے لئے متحدہ حزب اختلاف نے پہلے ہی میاں محمد شہباز شریف کا نام تجویز کیا ہوا ہے۔ جبکہ پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے لئے ان کے صاحبزادے میاں حمزہ شہباز امیدوار ہیں۔ متحدہ حزب اختلاف کے پاس دونوں بڑے عہدوں کے لیے باپ بیٹے کے علاوہ کوئی اور قابل اور اہل امیدوار نہیں تھا شاید اسی لئے ان پر اکتفا کیا گیا۔

اس سے بڑھ کر مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ دونوں کے خلاف ایک ایک کیس میں فرد جرم عائد ہونے والی ہیں۔ ایسے میں اگر دونوں ہی وزارت عظمیٰ اور وزارت اعلیٰ کے چناؤ میں منتخب ہو جاتے ہیں تو اس فرد جرم کا کیا ہو گا؟ ویسے بھی ہر پیشی میں شدید بیماری کے باعث حاضری سے استثنا حاصل کیا جا رہا ہے مگر سپریم کورٹ میں مکمل صحت کے ساتھ اپنے پیروں پر چل کر گئے اور چیف جسٹس صاحب نے روسٹرم پر بھی بلایا مگر یہ استفسار نہیں کیا کہ کیس کی پیروی کے دوران تو آپ شدید بیمار ہو جاتے ہیں اور یہاں بھلے چنگے ہیں؟

اصل مسئلہ پیر کے دن سے شروع ہو گا جب نئی حکومت حلف اٹھا کر کار حکومت سنبھالے گی۔ اس کے سامنے کئی چیلنجز ہوں گے۔ ڈالر کی اڑان کو نیچے لانا، مہنگائی پر قابو پانا، آئی ایم ایف پروگرام اور سب سے بڑھ کر جون میں نیا مالی سال کا بجٹ پیش کرنا۔ جو یقیناً نئی حکومت کے لئے قطعی آسان نہیں ہو گا۔ مہنگائی پر قابو پانا تو کسی بھی حکومت کے لئے جوئے شیر لانے کے مترادف ہی ہوتا ہے۔ آج تک مہنگائی بڑھی ہی ہے، کم نہیں ہوئی۔ بلاواسطہ یا بالواسطہ عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ بڑھایا گیا ہے۔ بجلی اور پیٹرول کی قیمتیں بھی مسلسل بڑھائی جا رہی ہے۔ اسٹیٹ بینک کی جانب سے شرح سود میں ڈھائی فیصد کا اضافہ ملکی معیشت کو تباہ کرنے کے لئے کافی ہے۔ ایکسپورٹ کی کمی معیشت پر بہت برے اثرات مرتب کرنے والی ہے۔

نئی حکومت کے لئے ایک جھٹکا اکتوبر میں لگے گا جب نئے آرمی چیف کا تقرر کیا جائے گا۔ دراصل یہ پورا کھیل تھا ہی اسٹیبلشمنٹ کے دو بڑوں کے درمیان۔ حکومت کا جھکاؤ ایک طرف تھا تو اپوزیشن کا دوسری طرف۔

نئی حکومت کے لئے یہ ایک سال نکالنا بہت ہی مشکل ہو گا۔ اور ایسی حکومت جو کئی سیاسی جماعتوں کا چوں چوں کا مربہ ہے، جن کے نظریات و مفادات ایک دوسرے سے مختلف ہیں، ان مخالف جماعتوں کا یہ اتحاد منزل تک پہنچ پائے گا؟ اس کی کوئی گارنٹی نہیں ہے۔ الیکشن کمیشن نے نئے انتخابات کے لئے کم از کم 7 مہینے کا وقت مانگا ہے۔ اس کے بعد ہی انتخابات کا انعقاد ممکن ہو سکتا ہے۔

آصف علی زرداری کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ خطروں کے کھلاڑی ہیں، اور ایسی جگہ سے شطرنج کی چال چلتے ہیں کہ سامنے والا مات ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ حزب اختلاف اور اس پورے کھیل میں ان کا کردار بڑا واضح رہا ہے سوائے حکومتی عہدوں کی تقسیم کے۔ وزارت عظمیٰ نون لیگ کو ، صدارت جے یو آئی کو دی جا رہی ہے۔ پیپلز پارٹی نے دونوں ہی بڑے عہدے اپنے پاس نہ رکھ کر اپنی پوزیشن واضح کردی ہے۔

نئی حکومت اگر ان چیلنجز کا سامنا نہ کر سکی اور عمران حکومت کی طرح ناکام ہو گئی تو اگلے انتخابات میں انہیں بری طرح سبکی اٹھانی پڑے گی۔ جن مسائل پر عمران حکومت کے خلاف پوری تحریک چلائی گئی وہ مسائل جوں کے توں رہے یا اس سے بڑھ گئے تو پیپلز پارٹی کے لئے میدان خالی ہو جائے گا۔

اس کے ساتھ ساتھ تحریک لبیک پاکستان نے بھی دوبارہ سیاسی میدان میں انٹری دے دی ہے اور انہوں نے احتجاج کی کال بھی دے دی ہے۔ تحریک لبیک پاکستان کا نئے انتخابات میں دیگر سیاسی جماعتوں کو جھٹکا دینے کی قوی امید ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی کیا سیاسی حکمت عملی ہے اور نئے انتخابات تک وہ کس حد تک نیوٹرل رہتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments