انتشار اور بے یقینی کب تک؟


کئی دن کی مسلسل سماعت کے بعد سپریم کورٹ آف پاکستان کے پانچ رکنی بنچ نے قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی رولنگ کو کالعدم قرار دے دیا ہے۔ سپریم کورٹ نے قومی اسمبلی کی تحلیل کا حکم بھی غیر آئینی قرار دیا ہے۔ صدر عارف علوی کے نگران حکومت بنانے سے متعلق احکامات کو بھی کالعدم قرار دے دیا گیا ہے۔ جج صاحبان نے قومی اسمبلی کی بحالی کا حکم جاری کرتے ہوئے ہدایت کی ہے کہ ہفتے کی صبح عدم اعتماد پر ووٹنگ کروائی جائے۔ گزشتہ کئی دنوں سے پاکستان میں انتشار اور افراتفری کی کیفیت تھی۔ ساری قوم کی نگاہیں سپریم کورٹ پر جمی تھیں۔ امید کی جانی چاہیے کہ اس فیصلے کے بعد سیاست دان ہوش کے ناخن لیں گے اور ملک کو بے یقینی کی کی کیفیت سے نجات ملے گی۔

پاکستان کی سیاسی تاریخ پر نگاہ ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ یہاں پر ہمیشہ سیاسی استحکام کا بے حد فقدان رہا۔ پاکستان کے قیام سے آج تک کوئی ایک بھی وزیر اعظم اپنی آئینی مدت اقتدار مکمل نہیں کر سکا۔ بدقسمتی دیکھیے کہ ملک کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو گولی مار کر شہید کر دیا گیا۔ ملک کی پہلی خاتون وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کو بھی شہید کر دیا گیا۔ ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھنے والے ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔

ایٹمی دھماکے کرنے والے نواز شریف کو قید میں ڈالا گیا اور پھر جلاوطن کر دیا گیا۔ حکومتیں بنتی رہیں اور گرائی جاتی رہیں۔ فوجی ڈکٹیٹر شب خون مارتے رہے۔ مارشل لاء لگاتے اور آئین پاکستان کا حلیہ بگاڑتے رہے۔ جنرل مشرف کے فوجی دور حکومت کے دوران مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے جلاوطن رہنماؤں میاں نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو نے میثاق جمہوریت پر دستخط کیے ۔ اپنی غلطیوں سے سبق سیکھنے کا عزم باندھا۔ اگرچہ دونوں جماعتیں اس میثاق پر کامل طور پر عمل نہیں کر سکیں، تاہم یہ ضرور ہوا کہ انہوں نے نوے کی دہائی کے بدترین سیاسی طور اطوار اپنانے سے اجتناب کیا۔

تحریک انصاف ایک تیسری طاقت کے طور پر سامنے آئی تو رفتہ رفتہ سیاست میں تلخی آتی گئی۔ دھرنوں، جلسوں کے ذریعے سڑکیں آباد ہونے لگیں۔ تجزیہ کار سیاسی منظرنامے کو نوے کی دہائی کی سیاست سے مشابہ قرار دینے لگے۔ 2018 میں عمران خان نے حکومت سنبھال لی۔ اپوزیشن جماعتوں نے انتخابی نتائج کی شفافیت پر سوالات اٹھائے۔ اس کے باوجود ملکی مفاد میں دھرنے دینے، سڑکیں بلاک کرنے اور جلسے جلوس کرنے سے گریز کیا۔ ساڑھے تین برس کے بعد جب اپوزیشن جماعتوں نے عددی اکثریت حاصل کر لی تو پارلیمان میں تحریک عدم اعتماد پیش کر دی تاکہ آئینی طریقہ کار کے مطابق قائد ایوان کو تبدیل کیا جا سکے۔

یہی طریقہ کار صوبہ پنجاب میں بھی اختیار کیا گیا۔ اس تحریک کے پیش ہونے کی دیر تھی کہ ملکی سیاست میں ایک بھونچال کی کیفیت دکھائی دینے لگی۔ ہوتے ہوتے معاملہ یہاں تک آن پہنچا کہ ڈپٹی سپیکر کے ذریعے ایک رولنگ پیش ہوئی اور اپوزیشن پر غیر ملکی سازش کا الزام عائد کر کے اسمبلی تحلیل کر دی گئی۔ پنجاب میں بھی ووٹنگ کرانے کے بجائے ہیلوں بہانوں کا سہارا لیا گیا۔ پنجاب اسمبلی کی تالہ بندی کر کے اس کے گرد خار دار تاریں لگا دی گئیں۔

نہایت افسوس کی بات یہ ہے کہ اس ساری افراتفری میں ملکی مفاد کو بری طرح نظر انداز کیا گیا۔ عوام الناس کے مشکلات و مصائب کو بھی پس پشت ڈال دیا گیا۔ رمضان المبارک کا ماہ مقدس ہے۔ اپنی کرسی بچانے کی تدابیر کرتے کسی سیاست دان کو خبر نہیں کہ بازاروں میں اشیائے خورد و نوش کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگی ہیں۔ ملاوٹ عروج پر ہے۔ کسی کو فکر نہیں کہ غریب عوام کو سحری اور افطاری کے وقت پیٹ بھر روٹی میسر ہے بھی یا نہیں۔

کسی کو پرواہ نہیں کہ سحر اور افطار کے وقت بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے شہری کس عذاب سے دوچار ہیں۔ یہ مبارک مہینہ ہمیں صبر و تحمل، بردباری اور درگزر کا درس دیتا ہے۔ لیکن نیوز چینلز آن کریں تو سیاست دان ایک دوسرے پر گھناونے الزامات عائد کرتے نظر آتے ہیں۔ غداری اور ملک دشمنی کے سرٹیفیکیٹ تقسیم ہو رہے ہیں۔ ٹی وی ٹاک شوز میں سیاسی مخالفین کے لتے لئے جاتے ہیں۔ بدکلامی اور بد زبانی اپنی انتہا پر ہے۔ ابھی دو دن پہلے ایک سابق وفاقی وزیر اور ایک سینئر صحافی کے مابین بے حد تلخی دیکھنے کو ملی۔ وزیر نے صحافی کو بھاڑے کا ٹٹو کہا تو صحافی نے بھی جواباً انہیں کھری کھری سنا دیں۔ اندازہ کیجئے کہ رمضان میں بھی کس قدر عدم برداشت کا مظاہرہ ہو رہا ہے۔

مجھ جیسے برسوں سے جمہوریت کے حق میں لکھتے بولتے ہیں۔ اس نقطہ نظر کا پرچار کرتے ہیں کہ سیاست کو ہر طرح کی مداخلت سے پاک ہونا چاہیے۔ اور ملک کے سیاسی معاملات کو حل کرنا سیاست دانوں کی صوابدید ہے۔ یہ صورتحال دیکھ کر خیال آتا ہے کہ کیا واقعتاً سیاست دان اپنے مسائل حل کرنے کی استعداد کار رکھتے ہیں؟ کیا کسی ادارے یا شخصیت کی مداخلت کے بغیر یہ قومی معاملات آئین و قانون کے مطابق طے کرنے سے قاصر ہیں؟ نہایت افسوسناک بات ہے کہ صرف کرسی اور ذاتی مفاد کی خاطر ملکی مفاد کو داؤ پر لگا دیا گیا۔

مجھ جیسے پاکستانی جو برسوں سے آئین پاکستان کا دم بھرتے ہیں۔ اس کی خلاف ورزی کرنے والے فوجی ڈکٹیٹروں کو ناپسند گی کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ہم نے دیکھا کہ جمہوریت کے حق میں بھاری بھرکم بھاشن دینے والے سیاست دان آئین پاکستان کو کسی خاطر میں نہیں لائے۔ ایک ڈکٹیٹر یہ کہہ کر آئین کی توہین کیا کرتا تھا کہ آئین فقط چند صفحات کی ایک کتاب ہے۔ اب نام نہاد جمہوری سیاست دانوں نے آئین پاکستان کو روند ڈالا۔ اس سے بڑھ کر افسوسناک بات یہ ہے کہ جذباتی نوجوان اور اچھے خاصے سمجھدار لوگ بھی محض سیاسی پسند نا پسند کی بنا پر اس غیر قانونی حرکت کا دفاع کرتے نظر آئے۔ کیا قومی مفاد، جمہوری اقدار، اور آئین پاکستان کی حرمت مجھ سمیت ہر ایک کی سیاسی پسند نا پسند سے بڑھ کر ہے؟ حب وطنی کا تقاضا ہے کہ آئین و قانون کی بالادستی کے سامنے مجھ سمیت ہر ایک اپنی سیاسی پسند نا پسند کو بھاڑ میں جھونک دے۔

ملک کی حالت یہ ہے کہ ملکی معیشت کئی برس سے وینٹی لیٹر پر پڑی ہے۔ معاشی حالات ان چند دنوں میں مزید بگڑ گئے ہیں۔ روپے کی قدر جو گھٹتے گھٹتے خطے کے تمام ممالک سے کم تر ہو چکی تھی۔ اب مزید کئی درجے نیچے گر گئی ہے۔ ڈالر کی قدر ایک سو نوے روپے کے برابر ہو چلی ہے۔ یعنی ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر۔ ابھی چار ساڑھے چار سال پہلے تک ایک ڈالر ننانوے روپے کا تھا۔ اسٹیٹ بنک نے شرح سود میں اڑھائی فیصد اضافہ کر دیا ہے۔

ہمیں بتایا جا رہا ہے کہ زر مبادلہ کے ذخائر مزید کم ہو گئے ہیں۔ دنیا بھر میں ہم پاکستان کا جو چہرہ پیش کر رہے ہیں وہ یقیناً ہمارے بدخواہوں کے لئے خوشی اور اطمینان کا باعث ہو گا۔ ایک طرف فاٹف کی تلوار ہمارے سروں پر لٹک رہی ہے۔ ہمارا سبز پاسپورٹ بدترین پاسپورٹس کی فہرست میں سر فہرست ہے۔ دنیا ہمیں بتاتی ہے کہ انسانی حقوق کے ضمن میں ہم دیگر ممالک سے بہت پیچھے کھڑے ہیں۔ بد عنوانی کے ضمن میں بھی ہم کرپشن کی دلدل میں دھنستے جا رہے ہیں۔ تعلیم اور صحت کا حال بھی ابتر ہے۔ عالمی صحافتی تنظیمیں بتاتی ہیں کہ پاکستان صحافیوں کے لئے بدترین ملک ہے۔ جہاں صحافت کرنا بے حد دشوار گزار کام ہے۔ یعنی کوئی بھی شعبہ اٹھا کر دیکھ لیں ہم پیچھے والی صف میں کھڑے نظر آتے ہیں۔

ہونا تو یہ چاہیے کہ ہمارے ارباب اختیار اپنی تمام تر توانائیاں ملک و قوم کی بہتری کے لئے صرف کریں۔ مگر اس سب کی فکر ہی کسے ہے۔ فکر ہے تو بس اقتدار کی۔ کرسی کی۔ اور اختیارات سمیٹنے کی۔ اللہ پاک اس ملک پر رحم فرمائے۔ ہمارے سیاستدانوں کو توفیق عطا فرمائے کہ وہ بے مغز نعرے بازی میں قوم کا قیمتی وقت ضائع کرنے کے بجائے جمہوریت اور آئین کی سر بلندی پر ایمان لائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments