قرآن کا سائنسی مطالعہ


اسلام اور سائنس یا قرآن اور سائنس جیسے موضوعات پر بہت کچھ لکھا گیا ہے اور بہت سے قرآنی حقائق ابھی تک انسانی چشم سے دبیز پردوں میں پنہاں ہیں، جو تدریجا بہ مرور زمانہ وا ہوتے جائیں گے۔ میرا سائنسی مطالعہ بالعموم اور قرآن کا سائنسی مطالعہ بالخصوص لامتناہی طور پر محدود ہے۔ میرے جیسے دیگر کئی جاہل مطلق لوگوں کے لیے یہ حقیقت بھی کسی فسانے سے کم نہیں ہوگی کہ قرآن کا سائنسی مطالعہ بھی وجود رکھتا ہے۔ قرآن کی مذہبی اہمیت سے تو سبھی آگاہ ہیں ؛ لیکن قرآن کی سیاسی، معاشی، سماجی، قانونی اور سائنسی اہمیت سے بہت کم لوگ آگاہ ہوں گے۔ مقامی مساجد، حجروں اور دینی مدارس میں درجہ اولی تک قرآن کو بہ طور ناظرہ پڑھایا اور حفظ کرایا جاتا ہے۔ درجہ ثانیہ میں آخری پارہ (عمہ) ، ثالثہ میں سورہ عنکبوت سے عمہ تک، رابعہ میں سورہ یونس سے سورہ عنکبوت تک، خامسہ میں سورہ بقرہ سے سورہ یونس تک اور سادسہ میں جلالین شریف مع ترجمہ پڑھایا جاتا ہے۔

وفاق المدارس کے نصابی نظام کے مطابق راقم الحروف نے بہ ذات خود درجہ رابعہ تک تعلیم پائی ہے، مگر قرآن اور سائنس کی لفظی اور عطفی ترکیب سے شد بد تک نہیں رکھتا۔ میں نے جب اپنے ہم عصر فارغ التحصیل دوستوں سے قرآن کے سائنسی مطالعے کی بابت استفسار کیا تو ان کی اکثریت بھی اس حقیقت سے شناسائی نہیں رکھتی۔

میرا تجسس رہا ہے کہ قرآن کا ترجمہ اور مفہوم جدید عصری اور سائنسی تناظر میں سیکھ لوں ؛ لیکن کہاں میں اور کہاں یہ بحر بے کراں! تاہم مولانا وحید الدین خان، ذاکر نائیک اور ڈاکٹر اسرار احمد کی تصانیف کے طفیل اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ٹھہرے پانی میں پھینکا گیا یہ پہلا کنکر کئی وسیع حلقے جنم دے گا۔ ان مذہبی سکالروں کی فکر و نظر سے کوئی اختلاف کر سکتا ہے مگر قرآن کی سائنسی حقیقت سے نہیں۔

قرآن کا سائنسی مطالعہ نہ صرف دل چسپ ہے بل کہ چشم کشا بھی ہے۔ قرآن کے سائنسی مطالعے کے بعد اللہ تعالیٰ کی عظمت، محمدﷺ کی صداقت اور اسلام کی اہمیت غیب کے بجائے حقیقی معنوں میں مجسم ہو کر انسانی آنکھوں پر آشکار ہو جائیں گی۔ اکیسویں صدی سائنس کی صدی ہے جو قرآن اور احادیث کو عملی شکل میں پیش اور ثابت کرنے کی مقتضی ہے۔ قرآن مجید میں ان گنت آیتیں ایسی ہیں جو انسان کو غور و فکر کرنے کی طرف بلاتی ہیں، جس کو علم کی زبان میں قرآن کا سائنسی مطالعہ کہا جاتا ہے۔ زیر نظر تحریر میں چند قرآنی آیات کا ترجمہ سائنسی تقابل میں پیش کیا جاتا ہے۔

بگ بینگ کے مطابق کائنات ایک بڑے تودے کی شکل میں تھی، پھر بگ بینگ نے انھیں الگ کر دیا۔ کہکشائیں، سورج اور چاند وجود میں آ گئے۔ قرآن کی 30 : 21 کے مطابق: ”آسمان اور زمین باہم ملے ہوئے تھے پھر انھیں جدا کیا اور ہر چیز کو ہم نے پانی سے جدا کیا۔“ زمین کی بیضوی ساخت کے متعلق قرآن کی 30 : 79 میں لفظ ”دح یا دحاھا“ مستعمل ہے، جس کا مطلب شترمرغ کے انڈے کی طرح گول ہونا ہے، یا ریت میں وہ بیضوی جگہ جہاں شترمرغ اپنا انڈا دیتا ہے۔

”شتر مرغ انڈا دینے کے لیے گھونسلے کا استعمال نہیں کرتا۔“ نئی سائنسی تحقیق کے مطابق سورج بھی زیر گردش ہے اور قرآن کی 33 : 21 کے مطابق: ”وہی اللہ تعالی ہے جس نے رات اور دن، سورج اور چاند کو پیدا کیا ہے اور ان میں سے ہر ایک اپنے اپنے مدار میں تیرتے پھرتے ہیں۔“ قرآن کی 40 : 36 کے مطابق: ”نہ آفتاب کی یہ مجال ہے کہ چاند کو پکڑے اور نہ رات دن پر آگے بڑھ جانے والی ہے اور سب کے سب آسمان میں تیرتے پھرتے ہیں۔

“ اسی طرح سورج کے بجھ جانے کے حوالے سے سائنس کہتی ہے کہ ایک دن سورج بجھ جائے گا۔ قرآن کریم کی 38 : 36 آیت میں سورج کی حرکت کے مقدار کے لیے لفظ ”مستقر“ مستعمل ہے، جس سے مراد متعین اور مقررہ مدت ہے۔ ایڈون ہبل کے مطابق تمام کہکشائیں ایک دوسرے سے دور اور کائنات میں وسعت پیدا ہو رہی ہے۔ قرآن مجید کی 47 : 51 کے مطابق: ”آسمانوں کو ہم نے اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے اور یقیناً ہم کشادگی کرنے والے ہیں۔“ ماہر ارضیات ڈاکٹر فرینک پریس کے مطابق پہاڑ زمین کو ہلنے سے محفوظ رکھتے ہیں۔

قرآنی آیات کے مطابق: ”کیا ہم نے زمین کو فرش نہیں بنایا اور پہاڑوں کو میخیں نہیں بنایا۔“ 31 : 21 کے مطابق: ”اور ہم نے زمین میں پہاڑ بنائے تاکہ وہ مخلوق کو نہ ہلا سکے۔“ ماہر نباتات اور جدید سائنس کے مطابق پھلوں، پھولوں اور پودوں کے بھی جوڑے ہوتے ہیں۔ قرآنی آیت 49 : 51 میں ہر چیز کے جوڑے کا ذکر ہے۔ آیت 3 : 13 کے مطابق: ”اور اس میں ہر قسم کے پھلوں کے جوڑے دہرے دہرے پیدا کر دیے ہیں۔“ قرآن کریم کی 69 : 16 آیت مکھی کے شہد میں شفا کے حوالے سے بہت مشہور ہے۔

مکھی پر تحقیق کرنے والے سائنس دان واں فرش کو نوبل انعام ملا ہے۔ قرآن میں اس موضوع پر ایک مکمل سورۃ ”نحل“ ہے۔ اسی طرح انسانی زندگی کی ناپائیداری، رشتوں کی نازکی اور انسانوں کو ایک دوسرے کو مارنے کے سلسلے کو استعارتا مکڑی کے طرز زندگی ”العنکبوت“ میں پیش کیا گیا ہے۔ چیونٹیوں میں موجود خبر رسانی، ذخیرہ اندوزی، مردہ چیونٹیوں کے دفنانے کا طریقہ، تقسیم کار کا طریقہ وغیرہ کے لیے قرآن میں سورۃ ”نمل“ بھی موجود ہے۔

انسانی پیدائش کی قرآنی توضیحات کی سائنسی تصدیق ڈاکٹر کیتھ مور، پروفیسر مارشل جانسن، تھامس جیفرسن، لیووف اور ڈی گریف نے اپنی تحریروں میں جا بہ جا کی ہے۔ انسانی جسم کی ساخت میں سماعت اور بصارت کے حوالے سے سائنس دانوں کے مطابق انسانی تخلیق میں سب سے پہلے سننے کا مرحلہ اور پھر دیکھنے کا مرحلہ آتا ہے۔ قرآنی آیت 78 : 23 کے مطابق: ”وہی تو ہے جس نے تمھیں سننے اور دیکھنے کی قوتیں دیں اور دل دیے، مگر تم لوگ کم ہی شکرگزار ہو۔

“ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش بغیر باپ کے حوالے سے سائنس نے تصدیق کی ہے کہ ایک خاص قسم کی  نر شہد کی مکھی کی تولید دراصل مادہ شہد کی مکھی سے نر مکھی کی قربت کے بغیر ہوتی ہے۔ اس خاص اور عجیب قانون تولید کے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ قانون تولید مختلف صورتوں میں مختلف ہو سکتا ہے اور اللہ تعالی نے سورۃ آل عمران میں اس واقعے کو ایک خاص واقعہ کہا ہے۔

سائنس کے مطابق مریخ اور چاند پر بھی زندگی کے آثار پائے جاتے ہیں اور سورۃ شوریٰ 29 : 43 میں ذکر ہے کہ زمین کے سوا آسمان یعنی خلا میں بھی تخلیقات (جاندار) ہیں۔ قرآن مجید میں ہے کہ اللہ نور ہے۔ نور سے مراد توانائی Energy ہے، یعنی کام کرنے کی صلاحیت۔ فزکس کے قوانین کے مطابق توانائی کو نہ پیدا کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی فنا، مگر توانائی اپنی صورت تبدیل کرتی رہتی ہے۔ توانائی مختلف صورتوں میں ہر جگہ موجود رہتی ہے۔ یوں اللہ تعالی کو توانائی سمجھ کر اس حقیقت کو تسلیم کیا جاسکتا ہے کہ اللہ ہر جگہ موجود ہے۔ اللہ کو بھی برہنہ یا خالص نگاہ Naked Eye سے نہیں دیکھا جاسکتا اور اللہ تعالی کو بھی انسانی آنکھ سے نہیں دیکھا جاسکتا۔

قرآن کریم میں جنت کا ذکر بھی ہے۔ سورۃ ”الرحمن“ میں اشاروں، اور ارادوں سے سب کچھ کا ہونا یا پانا اب جدید سائنس سے ممکن ہوا ہے۔ سورۃ ”الرحمن“ نے انسانوں کو تہذیب و تمدن اور پر آسائش طرز زندگی سے روشناس کیا ہے۔ اسی طرح قرآن میں 7 : 57 کے مطابق آبی چکر اور 43 : 24 کے مطابق عمل تبخیر کے ذریعے بارش ہونے کی تصدیق بھی موجود ہے۔ سورہ انبیاء کی آیت نمبر 32 میں اوزون کی تہہ کو حفاظتی چھتری کی مانند قرار دیا ہے۔ قرآن میں سور کے گوشت کے حرام ہونے کا بار بار ذکر ہوا ہے۔ جدید سائنس کے مطابق سور مائع فاضل مادے بہت کم مقدار میں خارج کرتا ہے اور باقی پیشابی مادے سور کے خون میں ضم ہو کر یورک ایسڈ میں تبدیل ہوتے ہیں۔ یوں سور کے گوشت کھانے سے انسان میں یورک ایسڈ کی وجہ سے پٹھوں کی بیماری پیدا ہو جاتی ہے۔

یہ حقیقت تو روز روشن کی طرح عیاں ہو گئی کہ قرآن اور سائنس دو الگ الگ موضوعات نہیں ہیں، بل کہ سائنس قرآن سے نکلی ہے۔ آخر میں اپنے قارئین کرام سے ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں کہ جدید سائنس کے میدان میں مسلمانوں اور مسلم علما کا کیا حصہ ہے؟ رمضان المبارک میں یوں تلاوت قرآن تو ہر روزہ دار کرتا /کرتی ہے۔ اس رمضان میں تلاوت کے ساتھ ساتھ اگر قرآن کا تھوڑا سا سائنسی مطالعہ بھی ہو جائے تو ہمارے اس نہایت محدود علم میں شاید کچھ اضافہ ہو جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments