درگاہ سے درگاہ کا سفر


اشفاق احمد فرماتے ہیں، ”گورنمنٹ کالج لاہور (موجودہ یونیورسٹی) ایک درسگاہ ہے جس میں“ س ”کا حرف اضافی ہے۔ عالم گواہ ہے کہ اس جہان فانی میں فقر کا گوہر درگاہوں سے ہی نصیب ہوتا چلا آ رہا ہے۔ جس فقیر کے کاسہ کو وہ انمول صدف عطا ہوتا ہے اسے درویشی کا وہ جوہر، جس کی چمک دمک سے دنیا کی نس نس روشن ہو جاتی ہے، نصیب ہو جاتا ہے۔ مگر یہ قیمتی رتن حاصل کرنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں، بلکہ صرف وہ خاص لوگ جنہیں خدائے بر حق کی طرف سے منتخب کر لیا جاتا ہے، اسے حاصل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

گورنمنٹ کالج لاہور دیگر درگاہوں سے قدرے مختلف نوعیت کی درگاہ ہے۔ اس درگاہ میں زندگی کی چند خوبصورت سال گزارنے کا موقع تو صرف خاص خاص لوگوں کو ہی میسر آتا ہے، مگر اس درگاہ کی خاصیت یہ ہے کہ یہ ہر فقیر کے کشکول میں اتنا فیض ضرور ڈال دیتی ہے جتنا فقیر کی استطاعت کے موافق ہوتا ہے۔

ہر درگاہ میں بہت سی کمیٹیاں یا تنظیمیں، جو معاملات کو سنبھالتی ہیں، موجود ہوتی ہیں۔ گورنمنٹ کالج لاہور میں بھی ایسی کئی تنظیمیں، جنہیں سوسائٹی کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے، موجود ہیں۔ ہر سوسائٹی کا حلقہ جدا جدا ہے۔ کوئی سائنسی تحقیق میں محو تو کوئی حقوق عامہ کی پاسداری کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش میں سرگرداں۔ ان میں سے ایک سوسائٹی ”مجلس اقبال“ ، جو ادبی تحقیق و تخلیق میں گورنمنٹ کالج کا طرہ امتیاز ہے، کے نام سے علمی شان و شوکت کی حامل ہے۔ اس سوسائٹی کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ طلبہ کو ادبی ورثہ سے روشناس کروانے کے مقصد کو مقدم رکھا جائے۔ چند دن قبل مجلس اقبال طلباء کو پنجابی ورثہ کی ایک جہت سے روشناس کروانے کی خاطر پنجابی زبان کے شیکسپیئر، ہیر کے خالق، حضرت وارث شاہ کی درگاہ پر لے گئی۔

گورنمنٹ کالج لاہور کی شان و شوکت کی علامت ”مینار“ کے سامنے سے گاڑی صبح آٹھ بجے روانہ ہوئی۔ گاڑی کے اندر سپیکرز پر ہلکی ہلکی ترنم، جو دلوں کو مترنم کرنے کی صلاحیت سے لبریز تھی، بج رہی تھی۔ ناشتے کا انتظام شیخو پورہ میں کیا گیا تھا۔ ساڑھے نو بجے کے قریب مقرر کردہ ہوٹل کے دروازے کے عین سامنے گاڑی کو روکا گیا اور طلباء کو ہوٹل کے اندر سندر کرسیوں پر ذی شان کے ساتھ بٹھایا گیا۔ ناشتہ میں وہ تمام روایتی اشیاء، جن کے بغیر لاہوریوں کا ناشتہ مکمل نہیں ہوتا موجود تھیں، کے علاوہ مجلس اقبال کے مشیر اعلیٰ جناب ڈاکٹر سفیر حیدر کی محبت اور کابینہ کے خلوص نے کھانے میں وہ لذت گھول دی تھی جس کو احاطہ تحریر میں لانا میرے تئیں ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ یہاں سے گاڑی میں سوار ہو کر ناچتے گاتے ایک بجے کے قریب ہم محبت کے وارث کی درگاہ پر موجود تھے۔

درگاہ کے منتظمین نے ہمارا بھر پور استقبال کیا اور ایک خاص کمرے، جس کی سامنے اور بائیں جانب والی دیوار کے ساتھ کرسیاں پڑی تھیں اور سامنے والی دیوار پر آویزاں وارث شاہ کی تصویر مسکرا رہی تھی، بٹھایا گیا۔ ایک مجاور نے ہیر رانجھا کی اصل کہانی ہمارے گوش گزار کرنے کے بعد وارث کے اس کارنامے، جو رانجھے سے ہیر کو جدا کر کے وارث کے سپرد کرنے کا باعث بنا، کو بھی بیان کیا۔ ایک صاحب نے ہیر کے چند بول یوں گنگنائے کے دل پیار کی پینگ میں ہولارے لینے لگا۔

چند لمحات بعد ڈھول منگوایا گیا جس کی تھاپ پر ہم سب ناچتے، جھومتے اور رقص کرتے درگاہ کی جانب بڑھے۔ قدم قدم پر ایک ایسی خوشبو، جس کے ذرہ ذرہ سے عظیم محبت کی سوندھی سوندھی مہک اٹھ رہی تھی، روح میں سرایت کرتی گئی۔ درگاہ کے صدر دروازے کے اندرونی بائیں جانب محبت پیار کے بازوں میں محو رقص تھی اور دائیں طرف عشق کھڑا ان کی بلائیں لے رہا تھا۔ درگاہ کی مرکزی عمارت کے چھت کے اندرونی حصے میں مینا کاری نے میرے قلب میں ایک ایسی ترنگ کو ابھارا جس کا احساس مجھے زندگی میں اس سے قبل کبھی نہیں ہوا تھا۔ مرکزی کمرے کے عین درمیان دو قبریں تھیں ایک وارث کے وارث ( والد) کی اور دوسری ہیر کے وارث کی۔ درگاہ پر کسی نے محبت کے حصول میں کامیابی پر پھول چڑھائے تو کسی نے اپنی ہیر کو حاصل کرنے کی خاطر پھول اٹھائے۔

ہم مرکزی عمارت کے عین عقب میں واقع اس لائبریری میں بھی گئے جس کے ایک حصے میں پنجاب کی ثقافت، جس کا تعلق براہ راست ہیر رانجھا سے تھا، دکھائی گئی تھی۔ لائبریری کی دوسری جانب کتاب کے پنوں پر ہیر اپنی محبت کے امر ہونے کا جشن منانے میں محو تھی۔ جشن اس قدر شاندار تھا کہ ہم اس میں کھو کر رہ گئے اور یہ بالکل بھول گئے کہ جہاں ہیر ہوتی ہے وہاں کیدو کا وجود لازم ہے۔ وقت نے کیدو کا سا کردار ادا کیا اور ہمیں چار و ناچار جشن عشق کو الوداع کہنا پڑا۔ الوداع!

علی حسن اویس

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

علی حسن اویس

علی حسن اُویس جی سی یونی ورسٹی، لاہور میں اُردو ادب کے طالب علم ہیں۔ ان کا تعلق پنجاب کے ضلع حافظ آباد سے ہے۔ مزاح نگاری، مضمون نویسی اور افسانہ نگاری کے ساتھ ساتھ تحقیقی آرٹیکل بھی لکھتے ہیں۔

ali-hassan-awais has 65 posts and counting.See all posts by ali-hassan-awais

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments