کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے


عدالت لگی ہوئی تھی۔ جج نے آٹھ سالہ لڑکے سے پوچھا کہ وہ اپنی ماں کے ساتھ رہنا چاہتا ہے یا باپ کے۔

بچے کو پتا تھا کہ اس کا باپ ایک جاگیر دار ہے اور بہت امیر آدمی ہے۔ کئی شادیوں کے بعد صرف وہ ہی ایک لڑکا پیدا ہوا تھا اور باپ ہر قیمت پر اس کو اپنی وراثت کے لئے اپنے ساتھ رکھنا چاہتا تھا لیکن وہ اس لڑکے کی ماں سے علیحدگی چاہتا تھا۔

لڑکے نے ایک طرف باپ کو دیکھا جہاں نرم و ملائم بستر، مزیدار کھانے، چاکلیٹ، کھلونے اور عمدہ اسکول اس کی راہ تک رہے تھے تو دوسری طرف اس کی ماں تھی جس کے ساتھ رہنے سے مفلسی، مزدوری اور بھوک اس کی منتظر تھی۔ بچے نے جج صاحب کو جواب دیا کہ وہ اپنی ماں کے ساتھ رہنا چاہتا ہے۔

یہ بچہ ساحر لدھیانوی تھا جو بڑا ہو کر ایک مشہور شاعر ہوا۔ ساحر نے شاید اپنے ان ہی ماضی کے حالات کے لئے اپنی ایک نظم فرار میں لکھا

اپنے ماضی کے تصور سے ہراساں ہوں میں
اپنے گزرے ہوئے ایام سے نفرت ہے مجھے
اپنی بے کار تمناؤں پہ شرمندہ ہوں
اپنی بے سود امیدوں پہ ندامت ہے مجھے
میرے ماضی کو اندھیروں میں دبا رہنا دو
میرا ماضی میری ذلت کے سوا کچھ بھی نہیں
میری امیدوں کا حاصل میری کاوش کا صلہ
ایک بے نام اذیت کے سوا کچھ بھی نہیں

اور پھر شاید ساحر نے اپنی ماں کی علیحدگی کو مدنظر رکھ کر ہی یہ کہا ہو،
تعارف روگ بن جائے تو اس کا بھولنا بہتر
تعلق بوجھ بن جائے تو اس کا توڑنا اچھا
وہ افسانہ جسے انجام تک لانا نہ ہو ممکن
اسے ایک خوبصورت موڑ دے کے چھوڑنا اچھا

ساحر اور اس کی ماں نے بہت مشکل وقت دیکھا۔ تب ہی ساحر کی شاعری مزدوروں کی شاعری ہے۔ ساحر کی شاعری معاشرے کے ان غریب لوگوں کی آواز بن گئی جن کے پاس کہنے اور بولنے کو بہت کچھ تھا لیکن الفاظ نہیں تھے۔ ساحر کی شاعری نے اس طبقے کے لوگوں کو آواز دی۔ ساحر کی مشہور زمانہ نظم تاج محل اسی طرف اشارہ کرتی ہے، کچھ اشعار اس نظم کے۔

میرے محبوب کہیں اور ملا کر مجھ سے
بزم شاہی میں غریبوں کا گزر کیا معنی
ثبت جس راہ میں ہوں سطوت شاہی کے نشاں
اس پہ الفت بھری روحوں کا سفر کیا معنی
میری محبوب پس پردہ تشہیر وفا
تو نے سطوت کے نشانوں کو تو دیکھا ہوتا
مردہ شاہوں کے مقابر سے بہلنے والی
اپنے تاریک مکانوں کو تو دیکھا ہوتا
ان گنت لوگوں نے دنیا میں محبت کی ہے
کون کہتا ہے کہ صادق نہ تھے جذبے ان کے
لیکن ان کے لئے تشہیر کا سامان نہیں
کیوں کہ وہ لوگ بھی اپنی ہی طرح مفلس تھے
اک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر
ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق

ساحر نے یہ نظم اس، وقت لکھی جب وہ صرف 23 سال کا تھا۔ اس نظم کے مشہور ہوتے ہی ساحر کو فلموں میں گانے لکھنے کا کام مل گیا اور اس کے بعد ساحر نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ ساحر کے فلمی گانوں میں بھی اس کی اور اس کی ماں کی زندگی کی جھلک ملتی ہے جیسے ترشول فلم کا یہ گانا، چند شعر،

تو میرے ساتھ رہے گا منے
تاکہ تو جان سکے، تجھ کو پروان چڑھانے کے لئے
کتنے سنگین مراحل سے تیری ماں گزری
میرا ہر درد تجھے دل میں بسانا ہو گا
میں تیری ماں ہوں، میرا قرض چکانا ہو گا
میری بربادی کے ضامن اگر آباد رہے
میں تجھے دودھ نہ بخشوں گی تجھے یاد رہے
تجھے یاد رہے، تجھے یاد رہے

شاید یہی وجہ تھی کی ساحر نے کئی عشق کیے لیکن شادی نہ کی۔ امرتا پریم جو کہ خود بھی ایک مشہور ناول نگار اور شاعرہ تھیں، ساحر کے عشق میں گرفتار تھی۔

امرتا پریم اور ساحر کا عجیب سا رشتہ تھا۔ امرتا پریم شادی شدہ ہونے کے باوجود ساحر سے ملتی اور ساحر کے جانے کے بعد ایش ٹرے سے ساحر کی بجھی ہوئی سگریٹوں کو اپنے لبوں سے لگاتی۔

ساحر کے گانے رفتہ رفتہ فلموں کی کامیابی کی ضمانت سمجھے جانے لگے۔ ساحر نے ہی پہلی دفعہ مطالبہ کیا کہ فلمی گانے لکھنے والے شاعر کا نام فلموں میں آنا چاہیے۔ جس کے بعد سے ہی اب باقاعدہ شاعر کا نام فلموں میں دیا جاتا ہے۔

ساحر فلموں میں گانے لکھنے کا معاوضہ بھی میوزک ڈائریکٹر کے برابر ہی لیتا تھا۔ فلم کبھی کبھی کے گانے ہر کسی کو آج تک یاد ہیں۔ ساحر کی نظموں کا ترجمہ دنیا کی کئی زبانوں میں کیا جا چکا ہے جو لوگوں میں اب بھی ایک نیا جذبہ جگاتی ہیں۔ ساحر نے اسی لئے کہا تھا کہ

میں ہر اک پل کا شاعر ہوں،
ہر اک پل میری کہانی ہے
ہر اک پل میری ہستی ہے،
ہر اک پل میری جوانی ہے
رشتوں کا روپ بدلتا ہے
بنیادیں ختم نہیں ہوتی
خوابوں اور امنگوں کی
میعادیں ختم نہیں ہوتی
تو اپنی ادائیں بخش انہیں
میں اپنی وفائیں دیتا ہوں
جو اپنے لئے سوچی تھیں کبھی
وہ ساری دعائیں دیتا ہوں
میں ہر اک پل کا شاعر ہوں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments