کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک


اس سال بھی آسٹریلیا میں مسلمانوں نے دو مختلف دنوں میں آغاز رمضان کیا ہے۔ ان حالات میں قیاس یہی ہے کہ عید بھی دو مختلف دنوں میں منائی جائے گی۔ برسوں سے یہی ہو رہا ہے اور شاید آئندہ بھی ایسا ہی ہوتا رہے جب تک کہ ہمارے علما اور ائمہ مساجد اکٹھے بیٹھ کر کوئی متفقہ لائحہ عمل اختیار نہیں کر لیتے۔

عید الفطر مسلمانوں کے لیے سال کا سب سے پر مسرت دن ہوتا ہے۔ یہ مسرت اور خوشی صحیح معنوں میں جبھی حاصل ہوتی ہے کہ خوشی کا یہ دن رشتہ داروں اور دوستوں کے ساتھ مل کر منایا جائے۔ آسٹریلیا میں رہتے ہوئے ہم عزیز و اقارب کی محبت سے تو محروم ہیں لیکن یہ مبارک دن دوستوں کے ساتھ بھی منانے سے اکثر محروم رہ جاتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں تقریباً ہر سال ہی کچھ لوگ ایک دن عید مناتے ہیں اور کچھ دوسرے دن۔ اس سے جو مضحکہ خیز صورت حال بن جاتی ہے اور جو بدمزگی ہوتی ہے، کسی سے پوشیدہ نہیں۔

کیونکہ اس کا نشانہ ہم سبھی بنتے ہیں۔ اس کی وجہ سے نہ صرف ہم عید کی حقیقی خوشی سے محروم ہو جاتے ہیں بلکہ ایک دوسرے کو غلط ثابت کرنے کی بھی کوشش ہوتی ہے۔ جس سے دلوں میں کدورتیں جنم لیتی ہیں۔ اس طرح مسلمان جو پہلے ہی یہاں چھوٹی سی اقلیت میں ہیں، مزید گروہوں میں تقسیم ہو رہے ہیں۔ اس سے نہ صرف امت مسلمہ کے اتحاد کا خواب شرمندہ تعبیر ہوتا دکھائی نہیں دیتا بلکہ اس میں مزید دراڑیں پڑ رہی ہیں۔

علاوہ ازیں یہاں غیر مسلم اکثریت اور حکومت کے سامنے بھی ہم گروہوں اور فرقوں میں بٹی منتشر قوم کا تاثر دے رہے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے عید الفطر کے موقع پر ہی نیو ساؤتھ ویلز کے پریمئرلکمبا مسجد میں آئے تو کچھ مسلمانوں نے ان سے درخواست کی کہ مسلمانوں کے اس سب سے بڑے تہوار پر تمام مسلمانوں کو چھٹی ہونی چاہیے۔ اس پر پریمئر نے جو کہا وہ ہمارے علما کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ انہوں نے کہا ”مسلمان کسی ایک دن پر اتفاق کر لیں تو ہم چھٹی پر غور کریں گے۔ لیکن آپ لوگ دو مختلف دن عید مناتے ہیں۔ ہم کس دن چھٹی دیں“

یہ ایک غیر مسلم سیاست دان کا ہمارے علما کے لیے ایک واضح چیلنج تھا۔ لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ علما نے پھر بھی آپس میں مل بیٹھنے اور کسی ایک دن پر اتفاق کرنے کی ضرورت نہیں سمجھی۔

اس وقت حالت یہ ہے کہ آسٹریلیا میں بسنے والے مختلف ممالک کے مسلمان اپنے آبائی ملک اور اپنی زبان کے لوگوں تک محدود ہوتے جا رہے ہیں اور انہی کے ساتھ روزے اور عیدین مناتے ہیں۔ مسجدیں بھی انہی ناموں سے بن رہی ہیں۔ مثلاً ترکش مسجد، لبنانی مسجد، انڈونیشین مسجد، پاکستانی مسجد، اور بوسنین مسجد وغیرہ وغیرہ۔ گویا خانہ خدا کو بھی کسی مخصوص زبان کے لوگوں کی حد تک محدود کر دیا گیا ہے ۔ جبکہ مسجد خدا کا گھر اور تمام مسلمانوں کی عبادت گا ہے۔ یہ تمام کلمہ گو مسلمان کے لیے یکساں قابل احترام ہے۔ اسے کسی ایک کیمونٹی کی مسجد کہنا خانہ خدا کی توہین ہے۔

اسلام میں جتنے بھی فرقے ہیں وہ اس بات پر متفق ہیں کہ اسلامی مہینے کا آغاز ہلال کے نظر آنے کے بعد ہوتا ہے۔ گویا شیعہ، سنی، دیو بندی، بریلوی، مالکی، شافعی، حنفی اور حنبلی فرقے کے تمام مسلمان ایک دن روزے شروع کر سکتے ہیں اور ایک ہی دن عید کر سکتے ہیں، بشرطیکہ چاند کے ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ ہو جائے۔

آسٹریلیا میں اس سلسلے میں اختلاف صرف اس بات پر ہے کہ چاند کو اپنی آنکھوں سے دیکھ کر اسلامی ماہ کا آغاز کیا جائے یا موجودہ دور کی سائنسی اور مشینی معلومات (observatory) کی بنیاد پر چاند کے ہونے یا نہ ہونے پر عمل کیا جائے۔ یورپ اور آسٹریلیا میں مسلمانوں کی اکثریت سائنسی معلومات پر بھروسا کرتے ہوئے چاند کے ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کرتی ہے۔ وہ اسی بنیاد پر رمضان المبارک کا آغاز اور عیدیں مناتے ہیں۔ دوسری طرف مسلمانوں کا ایک دوسرا طبقہ اس بات پر مصر ہے کہ جب تک انسانی آنکھوں سے چاند دیکھنے کی شہادتیں نہ ملیں وہ اسلامی ماہ کا آغاز نہیں کریں گے۔ وہ اس حدیث پر عمل کرتے ہیں کہ چاند دیکھ کر روزہ رکھا جائے اور چاند دیکھ کر عید کی جائے۔

پہلے گروہ کی دلیل یہ ہے کہ اس حدیث کو ہم بھی مانتے ہیں۔ لیکن چاند دیکھنے کے لیے جب عام انسانی آنکھ سے زیادہ موثر اور قابل بھروسا سائنسی ایجادات موجود ہیں، جو چاند کی صحیح پوزیشن اور مخصوص وقت میں اس کی جسامت، جو انسانی آنکھ سے دیکھے جانے کے قابل ہو، بتا سکتی ہیں اور چاند کے ہونے یا نہ ہونے کا آسانی سے فیصلہ کیا جاسکتا ہے تو اس کے مطابق اسلامی ماہ کا آغاز کیا جاسکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ آنحضرت ﷺ کے دور میں یہ سائنسی سہولتیں میسر نہیں تھیں۔ اگر ہوتیں تو آپ ﷺ اس سہولت سے ضرور استفادہ کرتے۔

میں علمائے کرام کا تہ دل سے احترام کرتا ہوں۔ دونوں نقطہ نظر کے علما کی نیت کو درست تسلیم کرتا ہوں۔ لیکن ایک شہر میں رمضان المبارک کا آغاز یا عیدیں دو الگ دنوں میں نہیں ہو سکتیں۔ دونوں میں سے صرف ایک دن ہی درست ہو سکتا ہے۔ اگر ایک گروہ نے رمضان المبارک کا روزہ رکھ لیا اور دوسرے گروہ کے مطابق رمضان شروع نہیں ہوا تو پہلے گروہ کا روزہ بیکار گیا کیونکہ اس دن رمضان المبارک تھا ہی نہیں۔ یا پھر دوسرے گروہ کو روزہ نہ رکھنے کا گناہ سمیٹنا پڑا۔ اس طرح پہلا گروہ جب عید منا رہا تھا تو دوسرے نے روزہ رکھا ہوا تھا۔ اب اگر پہلے گروہ نے قبل از وقت عید کی ہے تو وہ غلط اور گناہ تھا۔ یعنی اس دن رمضان المبارک کا آخری روزہ تھا۔ لیکن اگر دوسرا گروہ غلط تھا تو انہوں نے عید والے دن روزہ رکھ کر گناہ کیا۔ ہر دو صورتوں میں ایک گروہ غلط اور گناہ گار ہوا۔

اس گناہ کا بار یقیناً ان علما کے سر جاتا ہے جن کی پیروی کر کے مسلمان روزے رکھتے یا عید مناتے ہیں۔ وہ ان علما پر یقین اور بھروسا کرتے ہیں۔ اگر علما غلط فیصلہ کرتے ہیں تو ان کی ذمہ داری عامۃ المسلمین پر نہیں بلکہ ان علما پر جاتی ہے جنہیں فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔

اس مسئلے کا حل بھی انہی ائمہ مساجد اور علما کے پاس ہے۔ اسلام میں ہر مسئلے کا حل موجود ہے یا اسے حل کرنے کا طریقہ موجود ہے۔ مثلاً قرآن کریم، حدیث رسول ﷺ، سنت رسولﷺ، فقہ، اجتہاد، اجماع اور چار بڑے اماموں کی تشریح دین ہمارے لیے راہ معین کرتی ہے۔ وقت اور زمانے کے لحاظ سے نئے نئے فقہی مسائل ابھر کر سامنے آتے ہیں۔ ان مسائل کو حل کرنے کے لیے علمائے دین ان مستند طریقوں کی روشنی میں فیصلے کرتے ہیں۔

چاند دیکھے جانے کے بارے میں موجودہ قضیے کو بھی آسانی سے حل کیا جا سکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا سائنسی ایجادات کو اسلامی اور دینی مقاصد کے لیے استعمال کرنا جائز ہے یا نہیں؟ مثلاً الیکڑانک میڈیا (ٹی وی، ریڈیو اور انٹرنیٹ وغیرہ) جدید ٹرانسپورٹ، موسمی حالات بتانے والے آلات، چاند ستاروں اور خلائی سیاروں کی تازہ ترین معلومات اور ان کے متعلقہ آلات، ذرائع رسل و رسائل، گھڑیاں، ٹیلیفون اور ویسے ہی بے شمار جدید دنیا کے سائنسی آلات موجودہ دور کے انسان کی دسترس میں ہیں۔ کیا اسلام ان آلات کے استعمال کرنے پر کوئی قدغن لگاتا ہے؟

موجودہ سائنسی دور میں جب غیر مسلم ان آلات و ایجادات سے بھر پور استفادہ کر رہے ہیں۔ اور انہی آلات و ایجادات کی بنیاد پر مسلمانوں کو زیر نگیں لا رہے ہیں تو کیا مسلمانوں کو اس سائنسی معلومات سے بھر پور استفادہ نہیں کرنا چاہیے؟ اور کیا ان آلات کی مدد سے چاند کے نظر آنے یا نہ آنے کا فیصلہ کیا جا سکتا ہے یا نہیں؟

یہ میرے بلکہ میرے جیسے بے شمار مسلمانوں کے ذہن میں موجود وہ سوالات ہیں۔ جن کے جوابات ہمارے علما ہی دے سکتے ہیں۔ اگر ہمارے ان علما کے ذہن میں اپنے فیصلے کے حق میں مختلف دلائل ہیں بھی تو انہیں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر بیٹھنے اور بات چیت کے ذریعے مسئلے کے ”متفقہ“ حل کی ضرورت ہے۔ ضرورت صرف اس امر کی ہے۔ کہ وہ صاف ذہن اور کشادہ دلی کے ساتھ دوسروں کی بھی سنیں اور پھر اکثریت جو فیصلہ کرے، سب اس پر بلا تفریق عمل کریں۔ آخر پاکستان، انڈونیشیا، بنگلہ دیش اور سعودی عرب میں بسنے والے مختلف مسالک کے مسلمان کسی ایک دن پر اتفاق کر سکتے ہیں تو یہاں آسٹریلیا میں ہم کسی ایک مسجد یا کسی ایک عالم کے پیچھے چل کر اس دن کو ایک دن کیوں نہیں منا سکتے؟

اگر مستقبل میں بھی اس مسئلے کا کوئی حل نہ نکالا گیا تو اس گناہ کا وبال ہم سب، خصوصاً علما کے گلے پڑے گا۔ مسلم کیمونٹی یوں ہی گروہوں میں بٹی رہے گی۔ ایک دوسرے کے خلاف نفرت اور کدورت مزید بڑھے گی۔ مسلمان مزید کمزور اور بے وقعت ہوں گے۔ غیر مسلموں کے لیے ہمارے اوپر ہنسنے کے مواقع ملتے رہیں گے۔ ہماری نئی نسل کے ذہنوں میں اسلام کی وہ سچی تصویر نہیں ابھر سکے گی جو آسٹریلیا میں اسلام کے روشن مستقبل کے لیے ضروری ہے۔ ان تلخ مگر واضح حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے میں اپنی طرف سے اور آسٹریلیا میں بسنے والے دیگر مسلمانوں کی طرف سے علما سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ امت کو جوڑنے اور انہیں ایک لڑی میں پرونے کے لیے اپنا مثبت، فیصلہ کن اور واضح کردار ادا کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments