عمران خان: جب صدر ممنون نے ’بے چینی کے شکار‘ نو منتخب وزیر اعظم عمران خان سے حلف لیا

فاروق عادل - مصنف، کالم نگار


پاکستان میں حلف برداری کی اہم تقریبات ایوان صدر میں ہوتی ہیں۔ اراکین کابینہ کے اجتماعی و انفرادی حلف اور آئینی مناصب پر فائز کی جانے والی شخصیات کے حلف اور سال بھر کے دوران ہونے والی اس نوعیت کی تقریبات کی تعداد گنی جائے تو بعض اوقات یہ درجنوں میں جا پہنچتی ہے۔

حلف برداری کی ان تمام تقریبات میں چند تقریبات سب سے زیادہ سے اہم اور زیادہ پُررونق ہوتی ہیں، اُن میں ایک وزیراعظم کی حلف برداری کی تقریب بھی ہے۔

ایوان صدر میں میرے قیام کے زمانے میں وہاں دو وزرائے اعظم نے حلف اٹھایا۔ ایک شاہد خاقان عباسی اور دوسرے عمران احمد خان نیازی۔

حالات کیسے بھی ہوں، کسی ملک کا وزیراعظم منتخب ہونا کوئی معمولی واقعہ نہیں بلکہ ایک اعزاز ہے۔ مگر اس حقیقت کے باوجود شاہد خاقان عباسی کی تقریب حلف برداری میں اُداسی کی کیفیت غالب تھی۔ پاکستان مسلم لیگ نواز کے قائد اور سابق وزیراعظم کو نااہل قرار دے کر انھیں کھیل کے میدان سے نکال باہر کرنے کی اداسی۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ خود حلف اٹھانے والا بھی یاس کی کیفیت سے خود کو آزاد نہیں کر پاتا۔

عمران خان کی تقریب حلف برداری اس تقریب سے بالکل مختلف تھی۔ حلف برداری جیسی تقریبات سادہ اور مختصر ہوتی ہیں لیکن اس کے باوجود میزبان ادارے یعنی ایوانِ صدر کے لیے کئی قسم کے دباؤ کا ذریعہ بھی بنتی ہیں۔

ان میں سب سے بڑا دباؤ تقریب میں شرکت کے لیے بطور مہمان دعوت نامے کا حصول ہے۔ ایوان صدر کے سب سے بڑے ہال میں زیادہ سے زیادہ مہمانوں کی گنجائش سات سے آٹھ سو کے درمیان رہتی ہے۔

اس قسم کے مواقع پر گنجائش کی یہ کیفیت ایک انار، سو بیمار قسم کی ہو جاتی ہے۔ فطری طور پر یہ اقتدار سنبھالنے والی جماعت اور وزیراعظم منتخب ہونے والی شخصیت کا حق ہے کہ مہمانوں کا انتخاب بھی وہی کریں۔

سمجھ میں نہیں آتا کہ شرکت کے خواہشمندوں کی اتنی بڑی تعداد کو کیسے مطمئن کیا جائے۔ کچھ ایسی ہی کیفیت عمران خان کی تقریب حلف برداری کے موقع پر بھی پیش آئی۔

کوئی نہیں جانتا تھا کہ عمران خان اور اُن کی جماعت کا طرز عمل اس سلسلے میں کیا ہو گا۔ اس لیے شروع میں احتیاطاً مہمانوں کی ایک فہرست تیار کی گئی۔

ذرائع ابلاغ سے تعلق رکھنے والی شخصیات کا انتخاب میری ذمہ داری تھی۔ میرے دفتر نے اس سلسلے میں اپنی تیاری ابھی مکمل کی ہی تھی کہ بنی گالہ حرکت میں آ گیا۔ یوں محض احتیاط کے طور کی گئی تیاری فطری طور پر دھری کی دھری رہ گئی اور اطلاع ملی کہ عمران خان کے چیف آف سٹاف نے ایوان صدر سے رابطہ کیا ہے۔

شاہد خاقان عباسی، ممنون حسین

عمران خان کے چیف آف سٹاف کون؟

شروع شروع میں لوگوں نے تعجب کے ساتھ یہ سوال اٹھایا لیکن جلد ہی معلوم ہو گیا کہ نعیم الحق۔ نعیم الحق کا نام سُنتے ہی لوگوں کے ہونٹوں پر مسکراہٹ دوڑ جاتی اور اس مسکراہٹ کا سبب ایک دلچسپ واقعہ تھا۔

ہوا یہ تھا کہ انتخابات میں پی ٹی آئی کی کامیابی کے اگلے روز نعیم الحق حسب عادت بنی گالہ پہنچے تو منظر بدلا ہوا تھا۔ عمران خان کے گھر کی سکیورٹی وزیراعظم ہاؤس کا عملہ سنبھال چکا تھا، جس نے انھیں گھر میں داخل ہونے سے روک دیا جس پر وہ خفا ہوئے اور اونچی آواز میں انھیں بُرا بھلا کہا۔

یہ مناظر ٹیلی ویژن چینلز نے بار بار چلائے اور سوشل میڈیا پر بھی وائرل ہوئے۔ یہ پس منظر اپنی جگہ لیکن نعیم الحق اب ایک مختلف حقیقت تھے۔ ان کی طرف سے سات سو افراد کی فراہم کردہ فہرست اولیت اختیار کر گئی۔

عمران خان، نعیم الحق

بنی گالہ کے پسندیدہ صحافیوں کے نام بھی اسی فہرست میں شامل تھے۔ صحافیوں کی فہرست میں کون کون شامل تھا، یہ بھی ایک الگ اور دلچسپ کہانی ہے۔ مثلاً وہ صحافی اور شخصیات جنھوں نے تحریک انصاف کا روز اول سے ساتھ دیا تھا، ان کے نام اس فہرست میں شامل نہیں تھے۔ ان میں سے کئی لوگوں کے ایوان صدر فون آئے کہ ہمیں کیسے اس تقریب میں مدعو نہیں کیا۔

خیر مہمانوں کی فہرست کی تیاری ایک بڑا درد سر تو ہے ہی اور دعوت نامے کے حصول کے خواہشمند تقریب کے آغاز تک پریشان کیے رکھتے ہیں لیکن پریشان کرنے والی ایک بات اور بھی تھی۔ اس تقریب میں دو حریف جماعتوں کی اعلیٰ ترین شخصیات آمنے سامنے آنے والی تھیں اور بیوروکریسی اسی بات پر پریشان تھی۔

اس دور میں ایوان صدر کے انتظامی سربراہ کے نائب نے ان دنوں کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ ’وہ بڑے مشکل دن تھے۔ میں دعا کیا کرتا تھا کہ یا اللہ، یہ دن خیریت سے گزر جائیں۔‘

’لوگ سوچتے تھے کہ صدر ممنون حسین عمران خان سے حلف کیسے لیں گے اور عمران خان کا سامنا ممنون صاحب سے ہو گا تو ان کا ردعمل کیا ہو گا۔‘

صدر ممنون حسین اور عمران خان کا آمنا سامنا بھی ایک اعتبار سے یادگار تھا لیکن اس سے قبل ایک اور واقعہ رونما ہوا۔ عمران خان حلف اٹھانے کے لیے ایوان صدر پہنچے تو گراؤنڈ فلور کے پورچ پر صدر مملکت کے سیکریٹری نے اُن کا خیر مقدم مصافحے کے ساتھ کیا۔ قومی اسمبلی سے منتخب ہو کر ایوان صدر کی دہلیز پر کھڑے وزیراعظم نے ایک نگاہ اٹھا کر اپنا خیر مقدم کرنے والے کی طرف دیکھا۔ ان کی آنکھوں میں سوال تھا جیسے جاننا چاہتے ہوں کہ آپ کون؟

خیر مقدم کرنے والے نے اگلے ہی لمحے بغیر کسی سوال کے کہا کہ ’شاہد خان، سیکریٹری ٹو دی پریزیڈنٹ۔‘

نو منتخب وزیر اعظم لحظہ بھر کو ٹھٹک گئے۔ یوں لگتا تھا کہ انھیں جیسے اپنے دھرنے کی تقریریں یاد آ گئی ہوں جن میں وہ وفاقی سیکریٹری داخلہ کو نام لے لے کر للکارا کرتے تھے۔ انھوں نے تصدیق چاہی کہ ’وہی شاہد خان جو سیکرٹری داخلہ تھے۔‘

شاہد خان نے مسکراتے ہوئے سر اثبات میں ہلا کر جواب دیا کہ ’جی وہی‘ اور ہاتھ کے اشارے سے نو منتخب وزیر اعظم کی رہنمائی کی ’سر اس طرف۔‘

لفٹ میں مہمان، اُن کے ملٹری سیکریٹری اور میزبان تھے۔ مہمان کے ہاتھ میں وہی مختصر تسبیح تھی جو تصویروں میں دکھائی دیا کرتی تھی۔ لفٹ کے مختصر سے سفر میں مہمان کی انگلیاں تسبیح پر گھومتی رہیں، یقیناً اس دوران میں وہ زیر لب وہی کچھ پڑھ رہے ہوں گے جو وہ پڑھا کرتے ہوں گے۔ انھیں زبان سے کچھ کہنے کی ضرورت تھی، نہ انھوں نے کچھ کہا۔

ممنون حسین

پنک روم جہاں نو منتخب وزیر اعظم کی ملاقات صدر سے ہوتی ہے

ذرا سی دیر کے بعد وہ ’پنک روم‘ کے دروازے پر تھے، اور تھوڑا ہی عرصہ قبل جس کا یہ بے معنی نام تبدیل کر کے تحریک پاکستان کے ایک بڑے رہنما مولانا محمد علی جوہر سے منسوب کرتے ہوئے جوہر روم رکھا گیا۔

ایوان صدر کے بڑے بڑے کمروں کے مقابلے میں جوہر روم نسبتاً چھوٹا لیکن آرام دہ کمرہ ہے۔ ڈرائنگ روم کہہ لیجیے۔ یہی وہ کمرہ ہے جس میں بانی پاکستان کی ایک تاریخی تصویر آویزاں ہے جس میں امریکا کے سفیر معمول سے کافی زیادہ جھکتے ہوئے بانی پاکستان محمد علی جناح کی طرف نہایت احترام کے ساتھ بڑھ رہے ہیں۔

سربراہان مملکت اور غیر ملکی وفود سے ملاقاتیں عام طور پر چوتھی منزل کے جناح روم میں ہوا کرتی ہیں لیکن کبھی کبھی یہاں بھی کر لی جاتی ہیں۔ سربراہان مملکت کے دوروں کے موقع پر مرکزی تقریب شروع ہونے سے قبل مہمان اور میزبان بھی کچھ دیر کے لیے یہیں قیام کرتے ہیں۔

روایت یہ ہے کہ حلف اٹھانے کے لیے آنے والے وزرائے اعظم سب سے پہلے صدر مملکت سے تنہائی میں ملاقات کرتے ہیں۔ یہ ملاقات صدر مملکت چیمبر یعنی دفتر میں نہ ہو تو اسی جوہر روم میں ہوتی ہے جسے کبھی ’پنک روم‘ کے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔

عمران خان جوہر روم میں داخل ہوئے تو وہاں پہلے سے موجود صدر ممنون حسین نے آگے بڑھ کر ان کا خیر مقدم کیا اور انھیں مبارکباد دی۔ عمران خان نے بہت دھیمی آواز میں، جیسے کوئی راز داری کیا کرتا ہے، جواب دیا کہ ’شکریہ‘ اور بیٹھنے کے لیے آگے بڑھ گئے۔

صدر ممنون حسین کو اس لمحے عمران خان کچھ محجوب یا کنفیوز سے محسوس ہوئے۔ صدر مملکت اپنی مخصوص نشست پر بیٹھ گئے۔ اس دوران عمران کی نگاہیں سامنے کی چھت اور دیوار پر لگی رہیں۔ چند منٹ کی ملاقات کے دوران عمران خان نے صرف ایک ہی جملہ کہا جو ایک درخواست تھی۔

انھوں نے صدر ممنون حسین سے کہا کہ ’حلف کی تحریر میرے لیے مشکل ہو گی، اس طرح پڑھیے گا کہ میرے لیے مشکل نہ ہو۔‘

میزبان نے اپنے مہمان کی اس خواہش کا خیال رکھا۔ حلف برداری کی اس تقریب کی تفصیلات بھی دلچسپ اور یادگار ہیں لیکن یہ جاننا دلچسپ ہے کہ حلف نامہ وزیراعظم تک کیسے پہنچتا ہے۔

حلف برداری کی تقریب کا میزبان ایوان صدر ضرور ہوتا ہے لیکن ریاست کی اس اہم ترین سرگرمی کا اہتمام کیبنٹ ڈویژن کرتا ہے۔

آئین پاکستان کے جدول سوم میں شامل ریاست کے اعلیٰ ترین مناصب میں شامل وزیراعظم کے حلف کو نو منتخب وزیر اعظم نے نام کے اضافے کے ساتھ ان کی خواہش کے مطابق اردو یا انگریزی زبان میں پرنٹ کر کے ایک دیدہ زیب منقش سبز فائل میں رکھ کر وزیراعظم کو پہلے سے پہنچا دیا جاتا ہے تاکہ وہ ریہرسل کر لیں۔

اس تقریب کے میزبان بھی سیکریٹری کیبنٹ ہوتے ہیں جو صدر مملکت کو حلف کے لیے مدعو کرتے ہیں۔

تقریب حلف برداری: ’وہ کسی بے چینی کا شکار ہیں‘

نو منتخب وزیر اعظم جب تک ایوان صدر پہنچتے ہیں، تمام مہمان جناح ہال میں بیٹھ چکے ہوتے ہیں۔ ٹھیک وقت مقررہ پر صدر مملکت کا اے ڈی سی دروازہ کھول کر جوہر روم میں داخل ہوتا ہے اور کمرے کے تقریباً وسط میں کھڑے ہو کر صدر مملکت سے اجازت طلب کر کے انھیں مطلع کرتا ہے کہ ’سر، تقریب کا وقت ہو چکا۔‘

اس اطلاع پر صدر مملکت جوہر روم سے باہر آتے ہیں۔ مہمان یعنی وزیر اعظم بھی ان کے برابر آ کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ پھر پروٹوکول کا تقریباتی لباس میں سجا سجایا ایک اہلکار بگل بجاتا ہے اور صدر مملکت اور وزیراعظم قدم سے قدم ملاتے جناح ہال کی طرف بڑھتے ہیں۔

ان دونوں شخصیات کے ہال میں داخل ہوتے ہی تقریب کے تمام شرکا احتراماً اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ اسی دوران قومی ترانہ بجنا شروع ہو جاتا ہے جس کے احترام میں پہلے سے کھڑے ہوئے لوگ بالکل ساکت ہو جاتے ہیں۔

عمران خان کی تقریب حلف برداری میں بھی بالکل ایسے ہی ہوا لیکن ذرا سے فرق کے ساتھ۔ اس تقریب میں پہلا دلچسپ واقعہ اس وقت رونما ہوا جب حلف کی عبارت پڑھنے کے لیے عمران خان کو عینک کی ضرورت محسوس ہوئی۔

عینک نکالنے کے لیے انھوں نے پہلے دائیں بائیں ہاتھ سے ٹٹول کر دیکھا پھر انھیں یاد آیا کہ عینک تو گھنٹوں تک طویل شیروانی کے اندر کرتے کی پہلو والی جیب میں ہے لہٰذا عینک نکالنے کے لیے عمران خان نے جب شیروانی کو اٹھایا تو وہ گھٹنوں سے اٹھتی ہوئی کمر تک پہنچ گئی، یوں جیب میں ہاتھ ڈال کر انھوں نے عینک نکالی تو حاضرین کے چہروں پر مسکراہٹ بکھر گئی۔

اس سے قبل تلاوت کے دوران جب عمران خان سٹیج پر بیٹھے تھے تو ان کی حرکات و سکنات دلچسپ تھیں۔ صدر ممنون حسین نے مجھے بتایا جو اس وقت ان کے سب سے قریب بیٹھے تھے کہ ’مجھے ایسا لگتا تھا کہ وہ اس وقت کسی بے چینی کا شکار ہیں۔ وہ کبھی بے ضرورت ہاتھوں کو حرکت دیتے۔ کبھی منھ چلانے لگتے اور کبھی ٹانگوں کو حرکت دینے لگتے۔‘

عارف علوی

زیادہ دلچسپ صورتحال حلف کے دوران پیدا ہوئی۔ حلف پڑھتے ہوئے عمران خان سب سے پہلے ’خاتم النبیین‘ کے لفظ پر اٹکے۔ صدر ممنون حسین نے جسے درست کرانے کی بار بار کوشش کی لیکن یہ کوشش ناکام رہی۔ حلف کے دوران دوسری جگہ وہ ’کماحقہ‘ کے لفظ پر اٹکے۔ حلف میں ’کماحقہ‘ کا لفظ اس جگہ آتا ہے جہاں وزیر اعظم حلف اٹھاتے ہیں کہ وہ کوئی قومی راز افشا نہیں کریں گے۔

عمران خان کی بحیثیت وزیراعظم تقریب حلف برداری اس اعتبار سے یادگار تھی کہ ان سے سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کے قریبی ساتھی یعنی ایک سیاسی مخالف نے ان سے حلف لیا اور ہر مشکل مرحلے سے انھیں گزارنے میں ان کی مدد دی۔

اب تقریباً تین سال آٹھ ماہ کے بعد ایک اور حلف درپیش ہے۔ اس بار بھی حلف لینے اور دینے والوں کا تعلق حریف سیاسی جماعتوں سے ہو گا کیونکہ صدر مملکت عارف علوی کا تعلق پاکستان تحریک انصاف سے ہے اور وزارت عظمیٰ کے لیے متحدہ اپوزیشن کے امیدوار شہباز شریف ہیں۔

اگر مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف نئے قائد ایوان بنے تو اس یادگار موقع پر ان دو بڑوں کا طرز عمل کیا ہو گا، یہ منظر دلچسپ ہو سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments