میرا دوست انسانی ڈی این اے کو تبدیل کرنا چاہتا ہے


بی بی سی چینل کے لیے کام کرنے والی ایلس رابرٹس نے کئی ماہ تک مختلف لیبارٹریوں میں تجربات کر کے انسانی ارتقا میں رہ جانے والی کمی بیشیوں پر تحقیق کی۔ اس نے جاننے کی کوشش کی کہ انسانی جسم میں وہ کون سی کم سے کم تبدیلیاں ممکن ہیں جس کی بدولت انسان کم بیمار ہو اور اس کے مختلف اعضا کی صلاحیتیوں میں اضافہ ہو۔ اس نے ریڑھ کی ہڈی، کان، دل، پاوٴں اور آنکھ کی ساخت میں تبدیلیاں تجویز کیں۔

خیر یہ تو ایلس کی جسمانی تبدیلیوں سے متعلق تحقیق تھی مگر میرا دوست تو ڈی این اے میں تبدیلی کا خواہش مند ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ”جس کو کہتے ہیں بشر اس میں ہے شر دو بٹا تین“ تو اگر اس دو تہائی شر کو نکال کر اس کی جگہ خیر بھر دی جائے تو کیا دنیا میں امن قائم نہیں ہو جائے گا؟

انسانی ڈی این اے میں موجود نفرت، انا، غصہ، انتقام، بیماری اور اقتدار کی ہوس کو اگر نکال باہر کیا جائے اور اس کی جگہ محبت، عاجزی، صبر اور معافی کے جذبات بھر دیے جائیں تو کیا دنیا دارالامان نہیں بن جائے گی؟

اقتدار میں آنے یا دوسرے کو کرسی سے اتارنے کے لیے قتل تک سے دریغ نہیں کیا جاتا۔ جب لوگ باہمی رضامندی سے اپنے لیے ایک حکمران منتخب کریں گے اور اس دوڑ میں رہ جانے والے لوگ اس پر خوش ہوں گے۔

جب دنیا کو گلوبل ویلج کا درجہ دیا جائے اور تمام ممالک کو تنظیمی طور پر اس کی اکائیوں میں تقسیم کیا جائے۔ ماحولیاتی آلودگی کو مکمل ختم کرنے پر سب کا اتفاق ہو، وسائل پر قبضے کی خاطر دوسرے ممالک پر چڑھائی ختم ہو، جب لوگ رنگ، نسل اور زبان کو ایک معمولی چیز سمجھیں اور دوسرے انسانوں کے ساتھ اس امتیاز سے ماورا ہو کر یکساں سلوک کریں۔ جب غریب امیر سے حسد محسوس نہ کرے بلکہ اسے داد دے کہ اس نے اتنی محنت سے سے دولت جمع کی ہے، لہٰذا اس کا حق بنتا ہے کہ اس دولت سے محظوظ ہو۔ دوسری طرف امیر بھی سوچے کہ میرے پاس یہ دولت میری ضرورت سے زیادہ ہے، اس لیے اگر اس میں سے کچھ حصہ کمزور لوگوں کو اس طریقے سے دیا جائے کہ ان کی عزت نفس پر بھی آنچ نہ آئے تو میرے لیے یہ راحت کا باعث بن جائے۔

جب ڈی این میں موجود لڑنے بھڑنے والا جذبہ ہی ختم کر دیا جائے تو پھر پولیس، فوج، میزائلوں اور ایٹم بموں کے وجود کا کوئی جواز باقی نہیں رہے گا۔ اس لیے ان تمام برائیوں کا خاتمہ کر کے اس پر خرچ ہونے والا سرمایہ انسانیت کی فلاح پر لگا دیا جائے، کوئی بھوکا نہ رہے نہ بغیر گھر اور کپڑے کے کوئی زندگی گزارنے پر مجبور ہو۔

جب کوئی بیمار ہی نہیں ہو گا تو پھر ہسپتالوں کو ختم کر کے اس کی جگہ پارک بنائے جائیں۔
جب موت کے درندے میں کشش ختم ہو جائے اور شاعر ٹرین کے آگے لیٹنا بند کر دیں۔

اگر آپ کی محبت یک طرفہ ہے اور محبوب آپ کے گلے کا ہار نہیں بنتا تو آپ کو اپنے گلے میں رسی ڈالنے کی بجائے کسی اور خوب رو سے بات کرنی پڑے گی۔ آپ اس محبوب کو خوشی خوشی اپنے روسیاہ رقیب کے ساتھ رخصت کریں اور ولیمے کے چاول کھا کر گھر لوٹیں۔

نہ منبر و محراب سے زہر کے چشمے پھوٹیں اور نہ مندر کی گھنٹی جنگ کا نقارہ بنے۔ نہ صلیب کسی کی گردن میں حمائل ہو اور نہ پنجا کسی کے چہرے پر تھپڑ کی صورت وارد ہو۔

دنیا کا نام تبدیل کر کے جنت رکھ دیا جائے۔

ڈی این اے میں اس قسم کی تبدیلی تو باعث خیر ہے۔ میں نے اپنے دوست کی تجویز سے بڑی حد تک اتفاق کیا۔ آپ کی کیا رائے ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments