احتجاج اور جنازے ”خواجہ سرا لیڈر“ پیدا کرتے ہیں


انسان کے زمین پر قدم رکھنے کے ساتھ ہی دنیا میں انسانی حقوق کی جنگ کا آغاز ہوا۔ یہ نہ ختم ہونے والی جنگ ہے۔ جو شاید انسان کے ساتھ ہی ختم ہوگی۔ زمانہ قدیم میں انسانی حقوق کی تھوڑی بہت پاسداری کرنے والی قومیں، دنیا کی عظیم سلطنتیں بنیں۔ آج کے جدید دور میں ترقی یافتہ اقوام کی فہرست میں وہی ملک شامل ہیں جہاں جمہوریت اور انسانی حقوق کی پاسداری کی جاتی ہے۔

خواجہ سرا اور معذور افراد ہمارے معاشرے کا وہ طبقہ ہیں جو آج بھی بنیادی انسانی حقوق کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ ان کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا نہ تو حکومت سختی سے نوٹس لیتی، نہ قانون حرکت میں آتا اور نہ ہی سول سوسائٹی۔

خواجہ سرا اور معذور افراد کے ساتھ عجیب سی توہمات جوڑ دی گئی ہیں۔ ان توہمات کا ہمارے معاشرے پر اتنا گہرا اثر ہے کہ اکیسویں صدی اور تعلیم بھی ان کے اثرات کو ختم کرنے میں ناکام رہی ہے۔

معذور افراد کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ والدین کے گناہوں کا نتیجہ ہیں، منحوس ہیں، کوئی بڑا کام نہیں کر سکتے، معاشرے پر بوجھ ہیں۔ معذور افراد، خواجہ سراؤں سے قدرے خوش نصیب ہیں کہ کم از کم انھیں انسان تو سمجھا جاتا ہے۔ خواجہ سراؤں کی پیدائش سے لے کر جنازے تک ایسی ایسی من گھڑت چیزوں کو جوڑ دیا گیا ہے جن کی وجہ سے لوگ انھیں غلیظ سمجھتے ہیں اور ان کے ساتھ بیٹھنے کو بھی گناہ سمجھتے ہیں۔

گزشتہ دو ہفتوں کے دوران خیبر پختون خوا میں خواجہ سراؤں پر تشدد کے متعدد واقعات ہوئے۔ پہلے واقعہ میں مانسہرہ میں پانچ خواجہ سراؤں کو گولی کا نشانہ بنایا گیا۔ جن میں ایک چل بسا۔ دوسرے واقعے میں مردان میں ایک خواجہ سرا کو بے دردی سے قتل کر دیا گیا۔ تیسرے واقعہ میں پشاور کے ایک خواجہ سرا کا قتل ہوا۔ جس کی میت کو ورثا نے وصول کرنے سے انکار کر دیا۔ جس کے بعد نادرہ خان اور ماہی گل نے انھیں سپرد خاک کیا۔ چند روز قبل مردان کے اسی ڈیرے سے کوکو نٹ نامی خواجہ سرا کو قتل کر دیا گیا۔ مردان کے ایک ہی ڈیرے کے چار خواجہ سراؤں کو قتل کیا جا چکا ہے۔

دہشت گردی کی حالیہ لہر کی صدر، وزیراعظم، وزیراطلاعات، وزیر انسانی حقوق، وزیراعٰلی خیبر، آئی۔ جی کے۔ پی کے، کسی نے مذمت تک نہیں کی۔ میڈیا اور سوشل میڈیا نے بھی ان واقعات کو آڑے ہاتھوں نہیں لیا۔ وجہ وہی توہمات ہیں جن کی وجہ سے خواجہ سراؤں کو چھوت تصور کیا جاتا ہے اور ان کے حقوق کو انسانی حقوق نہیں سمجھا جاتا۔

گھروں میں خواجہ سرا کو ان کی مرضی کی زندگی نہیں جینے دی جاتی۔ ہر وقت کی مار دھاڑ، لعن طعن جو خواجہ سرا کو بغاوت پر مجبور کر دیتی ہے۔ گھر چھوڑتے وقت خواجہ سرا کے ذہن میں ایک ہی بات گردش کر رہی ہوتی ہے کہ شاید اب یہ اپنی مرضی کی زندگی جی سکیں گے۔ ڈیروں پر شروع کے دنوں میں انھیں بہت پیار ملتا ہے۔ بال بڑے کرنا شروع کرتے ہیں۔ خواتین والے کپڑے پہننے کو ملتے ہیں۔ ڈانس سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اپنے جیسے بہت سے خواجہ سرا ملتے ہیں جن سے یہ اپنے دکھ درد شیئر کرتے ہیں۔

خواجہ سرا کی زندگی کا سب سے مشکل دن وہ ہوتا ہے جب انھیں پہلی بار بھیک، ڈانس یا سیکس ورک کے ذریعے پیسے کمانے کا کہا جاتا ہے۔ گھر آ کر روتے ہیں۔ کئی کئی راتیں سو نہیں پاتے۔ لیکن یہ سب کرنا پڑتا ہے۔ کیونکہ واپسی کے تمام دروازے بند ہوچکے ہوتے ہیں۔ جو خواجہ سرا گھر واپس چلے بھی جائیں تو گھر کی سختیاں اور مار دھاڑ انھیں دوبارہ ڈیرے پر جانے پر مجبور کر دیتی ہیں۔

ڈیروں پر رہنے والے خواجہ سرا ایک دوسرے سے اپنے دکھ درد شیئر کر کے دل کا بوجھ ہلکا کر لیتے ہیں۔ بھیک مانگنے اور ناچ گانے کے دوران لوگ تنگ کرتے ہیں۔ نازیبا القابات سے نوازتے ہیں۔ نازیبا حرکتیں کرتے ہیں۔ بہت سو کی عصمت دری بھی کی جاتی ہے۔ کسی سے شکایت یا پولیس کے پاس جانے پر بھی انصاف نہیں ملتا۔ ظلم و ستم کے بعض واقعات میں خواجہ سراؤں کو قتل تک کر دیا جاتا ہے۔ جن پر کمیونٹی کی طرف سے بھرپور احتجاج کیا جاتا ہے۔ تھانوں کے باہر دھرنا دینا، روڈ بلاک کرنا اور باوجود احتجاج کے خواجہ سراؤں کو انصاف تو نہیں ملتا لیکن اس کے نتیجے میں نئے لیڈر ضرور پیدا ہوتے ہیں۔

خواجہ سراؤں میں دو طرح کی لیڈر شپ ہے۔ پہلی وہ ہے جو احتجاجوں کے نتیجے میں وجود میں آتی ہے دوسری گھر والوں اور گروؤں کی سپورٹ سے اعلٰی تعلیم حاصل کرنے میں کامیاب ہو پائی ہے۔

پڑھے لکھے خواجہ سرا ظلم و ستم کے واقعات پر اکثر خاموشی اختیار کر لیتے ہیں۔ جبکہ دھرنوں، احتجاجوں اور جنازوں میں پیدا ہونے والے لیڈرز ہر واقعے پر ردعمل کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں۔

مجھے خیبرپختون خوا، پنجاب اور سندھ کے چند خواجہ سراؤں کے انٹرویوز کرنے کا اتفاق ہوا۔ کچھ کی کہانیاں یوٹیوب پر دیکھنے کا موقع ملا۔ مجھے بڑی حیرت ہوئی کہ خواجہ سراؤں کے تمام لیڈرز کو مار دھاڑ، قتل اور ریپ کے واقعات نے لیڈر بننے پر مجبور کیا اور آج وہ اپنی کمیونٹی کی نمائندگی کر رہے ہیں۔

ذرا سوچیے کہ ہم ایک اسلامی ملک کے شہری ہیں۔ اسلام امن اور سلامتی کا مذہب ہے۔ ہم دنیائے اسلام کی پہلی ایٹمی طاقت ہیں۔ ہماری فوج کو اسلامی دنیا کی بہترین فوج سمجھا جاتا ہے۔ ایسے ملک میں ہمارے جیسے جیتے جاگتے لوگ کس قدر ظلم کا شکار ہیں۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ اس کمیونٹی کے ”لیڈر“ سکولوں اور کالجوں کے بجائے تھانوں اور جنازوں میں جنم لیتے ہیں۔

خواجہ سرا کمیونٹی بڑی مختصر ہے۔ جسے ہر وقت اپنی جان و مال کے لالے پڑے رہتے ہیں۔ یہ خود سے اپنے حقوق حاصل نہیں کر سکتے۔ انھیں ان کے جائز انسانی حقوق دلوانے کے لئے ہم سب کو ان کا ساتھ دینا ہو گا۔ ان کے سروں پر ہاتھ رکھنا ہو گا۔ ان کے دکھوں کا مداوا کرنا ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments