عدم اعتماد کا شکار۔ میر سے بھی سادہ عمران خان


پچھلے ایک ہفتے سے شہر اقتدار میں جاری سیاسی گہما گہمی اپنے اختتام کو پہنچی۔ سابق وزیر اعظم عمران خان صاحب عدم اعتماد کا شکار ہو گئے۔ اور اس عدم اعتماد کی جنگ میں وطن عزیز کے دونوں طاقتور اداروں عدلیہ اور پاک فوج کا کردار بڑی حد تک مثبت رہا اور کسی مرحلے پر بھی ایسا محسوس نہیں ہوا کہ اس سیاسی عدم استحکام کی صورتحال میں کوئی ادارہ آئین سے بالا کچھ کرنا چاہ رہا ہو۔

بہرحال میں موسم بہار آتے ہی بحیثیت عام پاکستانی کچھ یوں سوچ رہا تھا۔ اقتدار کے ایوانوں میں عدم اعتماد کا بگل بج چکا ہے۔ شہر اقتدار میں اب کے برس موسم بہار میں پت جھڑ غالب ہے۔ اقتدار کی جنگ چھڑ چکی ہے۔ صاحب اقتدار اور اقتدار کے پجاریوں میں رسہ کشی جاری ہے۔ اقتدار کی کرسی پر چھینا جھپٹی کی جا رہی ہے۔ حکومت و اپوزیشن کی اس عدم اعتماد کی جنگ میں نقصان ایک عام پاکستانی کا ہے۔ وہ عام پاکستانی جو قربانیاں دیے جا رہا ہے۔ وہی عام پاکستانی جس کی قربانیاں رائیگاں جا رہی ہیں۔

ابھی یہ خوف ذہن میں پل ہی رہا تھا کہ خبر آئی کہ صدر مملکت عارف علوی صاحب نے وزیراعظم کی ہدایت پر اسمبلیاں توڑ دیں۔ دل سے ایک آہ نکلی کہ اسمبلیاں توڑنا، اقتصادی زبوں حالی کی شکار قوم کے ساتھ ظلم ہے۔ اور سابق وزیراعظم میر ظفر اللہ خان جمالی مرحوم سے بقائی میڈیکل یونیورسٹی، کراچی میں ایک کانفرنس کے دوران ہوئی ملاقات اور اسمبلی توڑنے بارے ان کے تاریخی الفاظ یاد آنے لگے۔ انہوں نے بڑے سادہ الفاظ میں سمجھایا تھا کہ اسمبلی توڑنے کا نقصان صرف اور صرف عام پاکستانی کو ہوتا ہے۔

اور یہی وجہ تھی کہ انہیں جب اقتدار سے الگ کرنے کا فیصلہ ہوا تو انہوں نے اسمبلی توڑنے بارے بالکل بھی نہیں سوچا اور وہ عام پاکستانی کے مفاد کی خاطر چپ چاپ استعفیٰ دے کر رخصت ہوئے۔ خیر میر ظفر اللہ خان جمالی مرحوم نے کس اور کیسی صورتحال میں استعفیٰ دیا اس بارے مختلف معلومات تاریخ کا حصہ ہیں۔ مگر میں نے بحیثیت طالبعلم جو ان کی بات جو نتیجہ اخذ کیا تھا۔ وہ یہ ہے کہ اسمبلیاں جو بھی توڑے۔ نقصان عام پاکستانی کا ہی ہوتا ہے۔

تبھی اس قدر پریشانی ہوئی کہ ایک شخص جو خود کو عام پاکستانی کا نجات دہندہ کہتا ہو۔ وہ اسمبلیاں توڑنے کی ہدایت کیسے کر سکتا ہے؟ معاشی طور پر تباہ اپنی قوم کو کیسے آزمائش میں ڈال سکتا ہے؟ حالانکہ وہ اس سے قبل ڈوبتے کو تنکے کا سہارا کے مصداق چودھری پرویز الہی کی حمایت کی خاطر وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار کی قربانی دے چکے تھے۔ اور پھر یوں لگنے لگا کہ جیسے حکومت عمرانی کو سادہ لوح عثمان بزدار کی آہ لگ گئی ہو۔

جب اس سہارے سے کام نہ چل سکا تو خان صاحب کسی بے بس عاشق کی طرح محبوب کے ایک پرانے خط کو ذریعہ نجات سمجھنے لگے۔ جس کا کبھی بے وفا محبوب پہ کچھ اثر نہیں ہوا۔ ویسے بھی ہم پاکستانی ہر غلط کام کر کے شیطان اور امریکہ پر ڈال دیتے ہیں۔ حالانکہ شیطان اور امریکہ آپ پاکستانیوں سے تنگ آئے پڑے ہیں۔ البتہ کوئی بلیک بیری کے میسیجز ہوتے تو خان صاحب بچ جانا تھا کیونکہ بلیک بیری کے معاملے میں خان صاحب ہمیشہ خوش قسمت ثابت ہوئے ہیں۔ پر خط والا مشورہ کسی امپورٹڈ معاون کا کچھ غلط ہو گیا۔

خان صاحب اپنے دو تین مخلص ترین رتنوں کے مشورے کے بعد عام پاکستانی کا تقریباً بیڑا غرق کر بیٹھے تھے۔ مگر اللہ بھلا کرے چیف جسٹس آف پاکستان کا جنہوں نے بروقت از خود نوٹس لیتے ہوئے اس غیر آئینی اقدام کو کالعدم قرار دیتے ہوئے اسمبلی بحال کر دی۔

اور پھر جب میدان سجا تو آخری گیند تک مقابلہ کرنے کی بجائے۔ خان صاحب پویلین میں ہی نو بال کرواتے رہے۔ اور شام میں ایک لمحے کے لیے تو ایسا لگا کہ خان صاحب، نواز شریف کی 1999 ء والی غلطی دہرانے لگے ہیں۔ اور رات گئے تک پوری قوم کو سرپرائز کے پیچھے لگائے رکھا یہ بھی پاکستانی قوم کی بدنصیبی ہے کہ ہمیشہ ”سرپرائز“ دینے والے لیڈر ملے۔ عدل کے اعوان بھی رات گے سج گئے تھے اور ادارے بھی عدالتی حکم پر عملدرآمد کے لیے متحرک ہو چکے تھے۔

پر شکر ہے عثمان بزدار کی طرح خان صاحب کے ایک باوفا اور سمجھدار ساتھی سپیکر قومی اسمبلی نے استعفیٰ دے کر اپنی اور آئین کی لاج رکھ لی۔ اس سے ایک سبق تو ملا دوست ہوں تو عثمان بزدار اور اسد قیصر جیسے۔ باقی موسمی بٹیر جتنی جلدی حلال کر دیے جائیں اتنا ہی بہتر ہوتا ہے۔ نہیں تو فصل اجاڑ دیتے ہیں۔ خیر! رات کے پچھلے پہر تحریک عدم اعتماد 174 ووٹوں کے ساتھ کامیاب ہوئی۔ یاد رہے ملکی تاریخ کی یہ واحد تحریک عدم اعتماد ہے جو کامیاب ہوئی۔

اس سے عام پاکستانی کی زندگی میں کتنا فرق پڑے گا اس بارے کچھ کہنا قبل از وقت ہے مگر ایک بات طے ہے کہ میر سے سادہ عمران خان صاحب کا اسمبلیاں توڑنے والا عمل معاشی عدم استحکام تھا۔ اور عام پاکستانی کے ساتھ ظلم تھا۔

وہ دوست احباب جو ابھی تک میر سے بھی زیادہ سادہ ہیں وہ مندرجہ ذیل الفاظ کو تین بار پڑھیں اور عقل کو ہاتھ مارنے کے ساتھ ساتھ یہ بات میر سے سادہ خان صاحب کو بھی سمجھائیں۔

ہوا کچھ یوں ہے۔ بچے نے کھیلنے کو کھلونا مانگا۔ بچے کی ضد کے سامنے باپ کی شفقت بے بس ہو گئی۔ اور باپ نے بچے کو کھلونا دلوا دیا۔ بچہ خوش ہو گیا۔

اب بچہ کھلونا خراب کر رہا تھا۔ باپ نے بہت سمجھایا پر بچہ نہ مانا۔ اب کی بار باپ اپنے غصے کے سامنے بے بس ہو گیا اور کھلونا چھین لیا۔ اب بچہ ناراض ہے۔ اور یہ کوئی نئی بات نہیں۔ پاکستان کے ہر گھر میں ایسا ہوتا ہے۔ اور باپ کی شفقت اور غصہ دونوں بچے کی تربیت کے لیے ضروری ہوتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments