ہندوستان کی غیرت مند حکومت اور حجام کی شیو
سن تھا 1971، مقام تھا مشرقی پاکستان اور وزیر اعظم تھی اندرا گاندھی۔ مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی کی تحریک زوروں پر تھی، حکومت نے وہاں آپریشن شروع کر رکھا تھا۔ اس دوران اندرا گاندھی نے اپنی ’آزاد خارجہ پالیسی‘ کے تحت پوری دنیا کے رہنماؤں کو خط لکھے جس میں انہوں نے پاکستان میں جاری آپریشن اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے یہ تاثر دیا کہ بھارت اس معاملے میں خاموش تماشائی بن کر نہیں بیٹھ سکتا کیونکہ مشرقی پاکستان کی سرحد سے لاکھوں مہاجرین ہندوستان میں داخل ہو رہے ہیں۔ مس گاندھی نے یہ خطوط مارچ 1971 سے اکتوبر 1971 تک لکھے۔ اسی خارجہ پالیسی کے تحت اندرا گاندھی نے اکیس دنوں میں امریکہ، سوویت یونین، فرانس، جرمنی، برطانیہ اور بیلجیم کے دورے بھی کیے تاکہ مہاجرین کی آمد کو جواز بنا کر پاکستان پر حملے کی راہ ہموار کی جائے۔ یہی نہیں بلکہ مس گاندھی نے عوامی لیگ کی ’جلا وطن حکومت‘ کو بھی کلکتہ کے نزدیک کام کرنے کی اجازت دی۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک آزاد اور خود مختار ہندوستان کی ’غیرت‘ پر مبنی خارجہ پالیسی تھی۔ بالآخر دسمبر 1971 میں اندرا گاندھی کے حکم پر بھارتی فوج نے پاکستان پر حملہ کر دیا۔ 16 دسمبر کو ملک دو لخت ہو گیا۔ میری ہمت تو نہیں یہ لکھنے کی مگر کیا اسے بھارت کی ’آزاد‘ خارجہ پالیسی کا شاخسانہ قرار نہیں دیا جانا چاہیے؟
سن تھا 2002، شہر تھا بھارتی گجرات اور وزیر اعلیٰ تھا نریندر مودی۔ شہر میں فسادات پھوٹ پڑے جن کے نتیجے میں ایک ہزار لوگ مارے گئے۔ اس موقع پر نریندر مودی نے جو کردار ادا کیا اس کا اندازہ ایک سینیئر پولیس افسر کے اس حلفیہ بیان سے لگایا جا سکتا ہے جو اس نے بھارتی سپریم کورٹ میں جمع کروایا۔ اس پولیس افسر نے کہا کہ ایک اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے نریندر مودی نے کہا تھا کہ مسلمان کمیونٹی کو سبق سکھانا ضروری ہے جنہوں نے ہندو زائرین کی ایک ٹرین کو آگ لگائی تھی، اس پولیس افسر نے کہا کہ مودی نے اجلاس میں یہ بھی کہا کہ ہندوؤں کو اپنے غصے کا اظہار کرنے کی اجازت ہونی چاہیے۔ دبنگ بھارتی صحافی کرن تھاپر نے اس بارے میں جب نریندر مودی سے ایک انٹرویو میں پوچھا تو وہ انٹرویو چھوڑ کر چلا گیا۔ تھاپر نے سوال کیا تھا کہ گجرات قتل عام پر بھارتی سپریم کورٹ نے ستمبر 2003 میں کہا تھا کہ اسے اب گجرات حکومت پر کوئی اعتماد نہیں رہا، اسی طرح اپریل 2004 میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے کہا کہ مودی جدید زمانے کے نیرو ہیں جو لاپرواہی سے منہ پھیر کر بیٹھے رہے جب ان کی حکومت میں لاچار بچوں اور معصوم عورتوں کو زندہ جلایا جا رہا تھا۔ یہی نریندر مودی بعد میں ہندوستان کا وزیر اعظم بنا اور آج بھی ہے، اسی مودی کے دور میں کشمیر پر قبضہ کیا گیا اور کشمیریوں پر وہ ظلم توڑے گئے جن کی مثال اس سے پہلے نہیں ملتی۔ اسی نریندر مودی نے ایسی ’کامیابی‘ سے اپنی خارجہ پالیسی چلائی کہ نہ صرف ہزاروں لوگوں کے قتل کا داغ اپنے ماتھے سے مٹا ڈالا بلکہ کشمیر پر کھلم کھلا قبضے کو بھی عالمی سطح پر اجاگر نہ ہونے دیا۔ یہی نریندر مودی تھا جس نے فروری 2019 میں ’آزاد‘ خارجہ پالیسی کے تحت پاکستان میں فضائی حملوں کا حکم دیا جس پر پورے بھارت میں جشن منایا گیا اور بھارتی میڈیا نے اس اقدام پر داد و تحسین کے خوب ڈونگرے برسائے۔ یہ اور بات ہے کہ پاکستانی کی فضائیہ نے، جو اس وقت پوری طرح چوکس تھی، نہ صرف اس حملے کو ناکام بنا دیا بلکہ ان کے افسر ابھی نندن کا جہاز گرا کر اسے گرفتار بھی کر لیا۔
میں خارجہ پالیسی کا کوئی ماہر نہیں، بلکہ سچی بات ہے کہ کسی بھی قسم کی پالیسی کا ماہر نہیں، مگر کچھ باتیں ایسی ہیں کہ جنہیں جاننے کے لیے کسی کنسلٹنٹ کی خدمات حاصل کرنے کی ضرورت نہیں۔ مثلاً ایک دودھ پیتا بچہ بھی جانتا ہے کہ ہندوستان اور پاکستان میں وجہ تنازعہ کشمیر ہے اور دونوں ممالک کی خارجہ پالیسی اسی کے گرد گھومتی ہے۔ ہندوستان اپنی ’آزاد‘ خارجہ پالیسی کے تحت اسے اپنا اٹوٹ انگ کہتا ہے اور چونکہ ہندوستان ایک ’خود دار‘ ملک ہے اس لیے وہ اس معاملے پر کسی تیسرے ملک کی ثالثی بھی قبول نہیں کرتا، وہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کو بھی نہیں مانتا اور وہ کشمیر میں نافذ کالے قوانین، جن کے تحت کسی بھی کشمیری کو بغیر وجہ بتائے نہ صرف گرفتار کیا جا سکتا ہے بلکہ اسے قتل بھی کیا جا سکتا ہے، پر کسی عالمی ادارے یا تنظیم کا دباؤ قبول نہیں کرتا۔ صرف یہی نہیں بلکہ ہندوستان کی ’آزاد‘ خارجہ پالیسی کا ایک بنیادی منترا یہ بھی ہے کہ کشمیر میں سرے سے آزادی کی کوئی تحریک یا شورش نہیں، وہاں صرف چند دہشت گرد گروہ ہیں جنہیں سرحد پار یعنی پاکستان سے مدد ملتی ہے، اس بات کو ہندوستان پوری دنیا میں تواتر کے ساتھ ہر عالمی فورم پر اٹھاتا ہے اور یہی بات اس کی ’آزاد‘ خارجہ پالیسی کی بنیاد ہے۔
یہاں تک لکھنے کے بعد اچانک مجھے خیال آیا ہے کہ میں خود سے سوال کروں کہ آیا میں ہندوستان کی خارجہ پالیسی کی تعریف کر رہا ہوں یا اس کی مخالفت؟ اگر ہندوستان کی خارجہ پالیسی ٹھیک ہے تو پاکستان کا کشمیر پر موقف غلط ہے اور اگر ہندوستان کی پالیسی درست نہیں تو پھر اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ہندوستان آزاد ملک ہے یا غلام! برٹرینڈ رسل کا مشہور زمانہ حجام کا پیرا ڈوکس یاد آ گیا۔ فرض کریں کہ کسی گاؤں میں حجام ہے جو صرف ان لوگوں کی شیو بناتا ہے جو خود شیو نہیں کرتے، سوال یہ ہے کہ حجام کی شیو کون بناتا ہے؟ حجام اپنی شیو خود نہیں بنا سکتا کیونکہ وہ صرف ان لوگوں کی شیو کرتا ہے جو خود شیو نہیں کرتے لیکن اگر حجام خود شیو نہیں کرتا اور اپنے آپ کو اس درجے میں ڈال لیتا ہے جو حجام سے شیو بنوانے کے اہل ہیں تو پھر بھی حجام خود اپنی شیو نہیں بنا سکتا کیونکہ جونہی وہ ایسا کرے گا وہ اس درجے سے نکل جائے گا جو حجام سے شیو بنوانے کے اہل ہیں۔ سو، اب مجھے بھی کوئی سمجھا دے کہ اگر ہندوستان کی خارجہ پالیسی کی تعریف کرنا درست ہے تو پھر کیا پاکستان کی پالیسی غلط ہے اور اگر پاکستان کی پالیسی درست ہے تو لا محالہ یہ غیرت اور حمیت کی بنیاد پر ہی ٹھیک ہوگی، پھر اس واویلے کی کیا ضرورت کہ ہم خود دار نہیں ہیں!
کالم کی دم: یہ کالم جس وقت لکھا گیا اس وقت ملک میں غیر یقینی صورتحال تھی لہذا میں نے ’علامہ‘ وجاہت مسعود کی پیروی کرتے ہوئے اس کالم کا عنوان ’ہندوستان کی غیرت مند حکومت اور حجام کی شیو‘ رکھ دیا تاکہ آپ بھی اسی غیر یقینی حالت میں رہیں کہ ہندوستان کی تعریف کرنی ہے یا پاکستان کی پالیسی کو درست کہنا ہے!
- اور بھی دکھ ہیں زمانے میں ’قانون‘ کے سوا - 02/10/2024
- اپنے بچوں کو کامیاب ضرور بنائیں مگر۔ ۔ ۔ مکمل کالم - 29/09/2024
- خرابی ہمارے مقدر میں نہیں، ہم میں ہے! - 18/09/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).