ناپختہ اور غیر تربیت یافتہ صحافیوں کی اندھی تقلید سے بچنا ہم سب پر لازم ہے


مقبولیت شعور ماپنے کا معیار ہرگز نہیں ہونا چاہیے۔ ہماری قوم کا سنگین المیہ یہی ہے کے وہ مشہور ہونے کے لالچ میں کیے جانے والے جذباتی تبصروں سے مربوط ہو جاتے ہیں اور بین الاقوامی سطح پر قوم کے اوسط مقیاس ذہانت کی بننے والی مجموعی تصویر میں منفی صباغت کو فروغ دیتے ہیں۔ سوشل میڈیا نے مساوی طور پر ہر درجے کے صحافیوں کو یہ طاقت با آسانی فراہم کر دی ہے کے وہ اپنے پیروکاروں کی فہرست کو حسب توفیق طوالت بخش سکیں۔

بائیس کروڑ عوام کی آدھی تعداد ناخواندگی کے سبب اپنا حق استعمال کرنا تو دور اپنا جائز اور ناجائز حق میں تمیز کرنے سے بھی قاصر ہے۔ پنجاب میں موجود چھوٹے میڈیا ہاؤسز میں نجیب الطرفین صحافت کی شدید کمی ہے۔ زیادہ تر ٹی وی چینلز پر غیر تربیت یافتہ افراد کا قبضہ ہے۔ جنھیں لکھنے پڑھنے میں تو دلچسپی ہو سکتی ہے مگر ان میں ملکی حالات کو سدھارنے میں اپنا کردار ادا کرنے کی صلاحیت کا فقدان ہے۔ ٹیلی ویژن ذرائع ابلاغ کی وہ معراج ہے جہاں لاکھوں افراد تک آپ کی بات بغیر کسی جدوجہد کے پہنچ جاتی ہے۔

اور عکاسی کے نفسیاتی اثرات کے نتیجے میں آپ حد درجے تک قائل بھی ہو جاتے ہیں۔ جس کا سب سے زیادہ تکلیف دہ نتیجہ ریاست کی ناکام ترین کارکردگی کے طور پر سامنے آتا ہے۔ عوام کی جان و مال کو تحفظ نہیں ملتا، جرائم کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے۔ تحقیق کے مطابق ایک خبر رساں چینل کی خبر فراہم کرنے کی صلاحیت تقریباً سات خبریں فی منٹ ہے۔ اور اس صلاحیت کا وہ بھرپور استعمال کرتا ہے، خبریں مختلف نوعیت کی ہوتی ہیں، کھیلوں سے متعلق، سیاسی خبریں، انٹرٹینمنٹ کی خبریں اور دیگر نوعیت کی خبریں۔

جرائم کے متعلق بھی خبریں بڑے وثوق سے فراہم کی جاتی ہیں اور اکثر اصلی منشا انتظامی ناکامیوں کی مبالغہ آرائی کے ذریعے تشہیر کرنا ہوتا ہے۔ حیرت ہے جب اتنی معلومات ہے تو جرائم کو روکنے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مدد کیوں نہیں کرتے؟ اور اگر کرتے ہیں تو ادارے ان کے ساتھ کام کرنے میں اپنی توہین کیوں سمجھتے ہیں۔ تحقیق کا دائرہ وسیع کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کے پرائم ٹائم میں خبروں کی نشریات کی صلاحیت کے مظاہرے کے بعد کے مرحلے میں یہ ریاستی اداروں کی نا اہلی اور سہولیات کے فقدان کا چرچا کرنے کے لیے سیاسی مہمان بلاتے ہیں جو عوام کو یہ بتاتے ہیں کے زیادہ تر سرکاری دفاتر میں بھرتیاں بغیر میریٹ کے اور سیاسی اثر و رسوخ کی بنیاد پر کی جاتی ہیں۔

جنگل کا قانون ہے۔ پارلیمان میں تو اس سے بھی زیادہ برا مدعا ہے۔ یہ تمام جرائم پیشہ افراد وہاں چھپے بیٹھے ہیں۔ اور سیاسی بساط کے یہ وزیر انتہائی طاقت ور اور خطرناک ہوتے ہیں۔ یہ سب سن لینے کے بعد کام کرنے والے کل طبقے کا تقریبا چالیس فیصد حصہ صبح جلدی کام پر جانے کی حجت کے باعث حسب معمول ”سارے ہی چور ہیں“ کہہ کہ خواب غفلت میں کھو جاتا ہے۔ طالب علموں کو شاید ابھی جس الجھن کا حل دریافت کرنے میں کسی ایٹمی طاقت کے سہارے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ ”ہم تعلیم کیوں حاصل کرتے ہیں؟

اچھی نوکری کرنے کے لئے؟ شعور حاصل کرنے کے لیے؟ یہ تمام مقاصد ایک ساتھ حاصل کرنے کے لئے؟ آخر کیوں لاکھوں روپے کی مشکل ترین ضوابط کی ڈگریاں حاصل کرنے کے بعد ہم بے روزگار رہتے ہیں؟ کیا تعلیمی ادارے ان نصابوں کا اجراء کرتے ہوئے یہ نہیں جانچتے کے کثیر التعداد متوسط طبقہ اس تعلیم کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنی معیشت مستحکم کیسے کرے گا؟ انفرادی معیشت مستحکم ہوگی تو اجتماعی بھی ہوگی۔ مگر اجتماعی تو انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کی شرائط میں نرمی کی محکوم ہے۔

غرض یہ کہ ملک میں با مقصد صحافت کا فقدان ہے۔ شعبدے بازوں کو صحافی کہہ کر صحافت کی معروضیت کا قتل کرنے والے ہمیشہ میڈیا مالکان نہیں ہوتے۔ شاذ و نادر ہی کوئی میڈیا ہاؤس کا مالک ہونے کا دعوہ کرتا ہے۔ صحافت جب اخلاقی حدود اور انسانی حقوق کی پاسداری کرنا چھوڑ دے تو وہ صحافت نہیں رہتی۔ وہ محض معلومات کے تبادلے کا دھندا بن جاتا ہے۔ پاکستان میں اس کاروبار کے مضبوط ستون وہ میڈیا ہاؤسز ہیں جو نجی ٹی وی چینلز کی ان تقریباً بیس بائیس سالوں پر مبنی صحافتی تاریخ میں شہرت کے ذریعے اپنا اثر و رسوخ جما چکے ہیں۔

مگر ان کی ناکامی پر نگاہ دوڑائی جائے تو یہ معلوم ہوتا ہے کے ان کے نظر انداز کرنے کی وجہ سے پاکستان کی بطور ریاست ”کل عالم“ میں بدنامی ہوئی ہے۔ وہ چاہے سابق وزراء کے قتل کے مقدمات ہوں یا بطور قوم نا اہلی اور نظریاتی زبوں حالی کی حقیقی تصویر چھپانے کا معاملہ ہو۔ لسانیات کی بنیاد پر معاشرے کی تقسیم تو کبھی ذات پات کی سیاست کی بنیاد پر ناکامی کی داستان گوئی۔ کاروباری مسابقت کے لیے بہت کچھ ایسا کیا جا رہا ہے جو قومی اقدار سے متصادم ہے۔

تشویش ناک بات یہ ہے کے نیت بھانپنے والے آلے کی عدم دستیابی کے سبب تمام چینلز کو یکساں طور پر یہ فائدہ ہے کے وہ ذرائع ابلاغ کی طاقت اور زیادہ لوگوں تک رسائی کی قوت کے غلط اور غیر محتاط استعمال سے ہر طرح کی تباہی برپا کر سکتے ہیں۔ کسی با اثر ادارے کو غیر قانونی طریقے سے سہولت دہندگی یا کسی انفرادی فرد کو نظامی جھول کا فائدہ اٹھاتے ہوئے طاقت سے مغلوب کر لینا پاکستان میں ان ذرائع کا واحد مقصد معلوم ہوتا ہے۔

صحافت کی حساسیت کی آڑ میں بہت سی ناکامیاں چھپائی جاتی ہیں جو ان میڈیا مالکان کے منظر عام پرنہ آنے کا سب سے کامیاب بہانہ ہے۔ محض سیاست ہی صحافت کا دائرہ عمل نہیں۔ صحت، تعلیم، قانون، کھیل، تفریح اور بھی پہلو ہیں صحافت کے مگر ان مالکان کے زیرسایہ اشاعت کا پچانوے فیصد حصہ سیاست کی نظر ہو رہا ہے۔ رفاہ عامہ سے متعلق بھی اداروں کی کچھ ذمہ داریاں ہیں۔

خدارا بد تہذیب، بد دماغ، بد گمان، غیر تربیت یافتہ، اور انتشار پھیلانے والے تمام صحافیوں کی تقلید سے بہتر ہے آپ خود اپنی رہنمائی کریں۔ ان کو جانچنے کے لیے تحقیق سے کام لیں، بہتر کتابوں کے مطالعہ کی عادت اپنائیں۔ مساجد اور عبادت گاہوں میں دینی اور معاشرتی مسائل کے حوالے سے موضوعات پر مصدقہ ذرائع سے حاصل کردہ معلومات پر مبنی موضوعات کو زیر بحث لانے کی کوشش کریں۔ مسجد کا سپیکر محض انتقال کے اعلانات اور بچوں کی گمشدگی کے انتباہ کے لیے ہی نہ استعمال کریں۔

اس سے اور بھی مفید کام لیے جا سکتے ہیں۔ ایسے کام جو معاشرے سے کسی مخصوص اور قابل قبول نظریہ کے اخراج کے بجائے شمولیت کے رجحان کو فروغ دے سکے۔ اصلاحی نیت سے یہ مشورہ قارئین کو خلوص نیت سے دیا جا رہا ہے کہ خصوصاً پندرہ سال سے کم عمر بچوں کو نیوز روم میں بیٹھے غیر تربیت یافتہ پیشہ وروں کی تخلیق کردہ تباہ کاریوں سے محفوظ رکھیں۔ سیاسی طرف داریوں کے لیے کم فہم افراد کی رہنمائی کریں، بزرگ، ٹی وی پر بیٹھنے والے کم تربیت یافتہ اور نشریاتی سبقت کے لیے ہر حد سے گزر جانے والے کم ظرف صحافیوں کی جہالت کا نشانہ بننے کے امکانات میں سر فہرست ہیں اس لیے بزرگوں کو محفوظ رکھنے کی ہر ممکن کوشش کریں۔ بچوں سے شفقت، جانوروں سے صلہ رحمی، صبر و استقامت اور کفایت شعاری جیسے سنہری اصول اپنائیں یا کم سے کم کوشش تو کریں۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments