شہباز شریف وزیرِ اعظم منتخب، سوشل میڈیا صارفین کی فرمائشیں، تنقید اور چیلنجز کی یاد دہانی
نوّے کی دہائی میں پیدا ہونے والے پاکستانی بچے سنہ 2017 تک خود بچوں والے ہو گئے لیکن اس دوران ایک چیز جو نہیں بدلی تھی وہ یہ کہ مرکز میں نواز، اور پنجاب میں شہباز۔
گویا بڑا بھائی بڑے عہدے کے لیے اور چھوٹا بھائی صوبے کے لیے۔
ایک طویل عرصے تک یہی ترتیب رہنے کے بعد اب بالآخر شہباز شریف پاکستان کے وزیرِ اعظم منتخب ہو چکے ہیں۔
ان کے وزارتِ عظمیٰ تک پہنچنے میں دیگر باتوں کے علاوہ ان کے بڑے بھائی نواز شریف کی تاحیات نااہلی اور پھر عمران خان کی عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعے اقتدار سے بے دخلی نے بھی کردار ادا کیا ہے۔
شہباز شریف کے وزیرِ اعظم بننے کے بعد سوشل میڈیا پر کوئی ان سے فرمائشیں کر رہا ہے تو کوئی عمران خان کو یاد کر رہا ہے۔
بانو نامی صارف نے لکھا کہ ’شہباز شریف، اب جبکہ آپ ہمارے نئے وزیرِ اعظم بن چکے ہیں تو یہ ضروری کام کریں: کراچی کا انفراسٹرکچر ٹھیک کریں، کراچی کو محفوظ بنائیں، اور پاکستان میں کام کے اوقات چھ گھنٹے کر کے صرف پیر سے جمعرات تک کر دیں۔‘
خوشحال خان نامی صارف نے لکھا کہ ’ایسا وزیرِ اعظم جسے معلوم ہے کہ جرمنی اور جاپان کی سرحدیں نہیں ملتیں۔‘
اُن کا اشارہ عمران خان کے اس بیان کی جانب تھا جو اُنھوں نے 2019 میں دورہ ایران کے دوران دیا تھا۔
اُنھوں نے کہا تھا کہ ‘جرمنی اور جاپان نے لاکھوں شہریوں کو ہلاک کیا۔ پھر دوسری جنگِ عظیم کے بعد انھوں نے فیصلہ کیا اور جاپان اور جرمنی کی سرحد پر مل کر صنعتیں لگائیں اور اس کے بعد سے ان کے درمیان خراب تعلقات کا کوئی سوال ہی نہیں کیونکہ ان کے اقتصادی مفادات ایک ہیں۔’
ماہ نور شیخ نے لکھا کہ ’وزیرِ اعظم کی تقریر میں چور، ڈاکو، این آر او، کرپشن، میں، مجھے، کرکٹ اور مغرب کے الفاظ نہ سن کر اتنا عجیب لگ رہا ہے۔‘
مزاح سے کچھ ہٹ کر بات کریں تو صحافی سلمان مسعود نے ان چیلنجز کا ذکر کیا جو شہباز شریف کے سامنے ہیں۔
اُنھوں نے لکھا کہ ’جشن مختصر ہی ہو گا۔ اُنھیں جمود کی شکار معیشت کو بحال کرنا ہے، انتخابی اصلاحات متعارف کروانی ہیں، گورننس بہتر بنانی ہے اور خراب سفارتی تعلقات کو ٹھیک کرنا ہوگا۔ اور وقت شروع ہوتا ہے اب۔‘
معیشت تو معیشت مگر کیا اس کا اثر کرکٹ پر بھی پڑے گا؟ سپورٹس صحافی فیضان لاکھانی تو ایسا ہی سمجھتے ہیں۔
اُنھوں نے لکھا کہ اس تبدیلی کا اثر بلاشبہ پاکستان کرکٹ بورڈ میں اقتدار کی راہداریوں پر بھی پڑے گا۔
اینکر پرسن جیسمین منظور نے لکھا کہ ’پاکستان میں ٹرینڈز سے ظاہر ہوتا ہے کہ سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی مقبولیت میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ نئی حکومت کے لیے لوگوں کو متحد کرنا بہت مشکل ہوگا اور اس کا واحد طریقہ کارکردگی دکھانا ہے۔ کیا اتحادی جماعتیں شہباز شریف کو ایسا کرنے دیں گی؟ نظریں ان پر ہیں، دوسروں پر نہیں۔‘
کئی ماہرینِ اقتصادیات کا یہ مؤقف رہا ہے کہ آئی ایم ایف پروگرام میں ہونے اور ملکی خزانے کی دگرگوں صورتحال کے باعث سابقہ حکومت کو جاتے جاتے پیٹرول اور بجلی کی قیمتیں کم نہیں کرنی چاہییں تھیں۔
علی خضر نے لکھا کہ ’شہباز شریف نے اپنی اننگز عوامیت پسندی سے شروع کی ہے جس میں اُنھوں نے سرکاری افسران کی تنخواہوں اور پینشنز اور کم سے کم اجرت میں اضافہ کیا، سستا بازار منعقد کرنے کا اعلان کیا۔ یہ سب کریں مگر خدارا پیٹرول کی قیمتیں بڑھائیں۔‘
- سمارٹ فون، جاسوسی کے سافٹ ویئر اور ’ایم کامل‘: اسرائیل کیسے لبنان میں گاڑیوں یا عمارت کے اندر موجود اپنے ہدف کی بھی نشاندہی کر لیتا ہے؟ - 29/03/2024
- اپنی تصویر، آواز اور نام دیں ’50 پاؤنڈ‘ لیں۔۔۔ چینی کمپنی کی انوکھی آفر سے بچنا ’مشکل‘ - 29/03/2024
- کینیڈا کا وہ جزیرہ جو دو ہزار زلزلوں کے باوجود محفوظ رہا - 29/03/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).