خیبر پختونخوا اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد کی واپسی


خیبر پختونخوا اسمبلی میں اپوزیشن جماعتوں نے گزشتہ جمعۃ المبارک کے روز وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان کے خلاف جمع کرائی جانے والی تحریک عدم اعتماد پیر کو اچانک غیر متوقع طور پر واپس لے لی۔ پیر کو شروع ہونے والے اجلاس کے دوران کے پی اسمبلی کے اسپیکر مشتاق احمد غنی نے ایوان کو بتایا کہ مشترکہ اپوزیشن جماعتوں نے اے این پی کے پارلیمانی لیڈر سردار حسین بابک، خوشدل خان ایڈوکیٹ اور مسلم لیگ (ن) کی ممبر صوبائی اسمبلی ثوبیہ شاہد کی جانب سے سپیکر کو لکھے جانے والے ایک خط کے ذریعے وزیراعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد واپس لے لی ہے۔

واضح رہے کہ خیبرپختونخوا اسمبلی میں اپوزیشن جماعتوں نے وزیراعلیٰ محمود خان کے خلاف گزشتہ جمعۃ المبارک کو تحریک عدم اعتماد کا نوٹس جمع کرایا تھا جس کا مقصد بظاہر صوبائی اسمبلی کو تحلیل کرنے کی ممکنہ کوشش کو ناکام بنانا تھا۔ یاد رہے کہ خیبر پختونخوا اسمبلی میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) 145 رکنی ایوان میں 94 ارکان کے ساتھ واحد سب سے بڑی جماعت ہے جب کہ 51 ارکان اسمبلی کا تعلق اپوزیشن کی مختلف جماعتوں سے ہے جن میں جماعت اسلامی کے تین ممبران بھی شامل ہیں جو ایک واضح پالیسی کے تحت مرکز اور صوبے میں عدم اعتماد کی تحریک سے لاتعلق رہے ہیں۔ عدم اعتماد کا نوٹس اپوزیشن ارکان کے ایک گروپ نے اسمبلی کے سیکرٹری کفایت اللہ آفریدی کو ان کے دفتر میں جمع کرایا تھا۔

نوٹس جمع کرانے والوں میں عوامی نیشنل پارٹی کے سردار حسین بابک، خوش دل خان اور شگفتہ ملک، پاکستان پیپلز پارٹی کی ایم پی اے نگہت اورکزئی، متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے ) کے ایم پی اے میاں نثار گل اور بلوچستان عوامی پارٹی کے بلاول آفریدی شامل تھے۔ نوٹس پر مشترکہ اپوزیشن کے 36 قانون سازوں کے دستخط تھے جن میں ایم ایم اے کے 17، اے این پی کے 12، پیپلز پارٹی کے چھ ارکان کے دستخط شامل تھے۔

متحدہ اپوزیشن جس کی صوبائی اسمبلی میں عددی پوزیشن بظاہر بہت کمزور اور منتشر ہے کی جانب سے جب تحریک عدم اعتماد کی قرارداد جمع کرائی جا رہی تھی تو غیر جانبدار سیاسی مبصرین نے اس امر پر تعجب کا اظہار کیا تھا لیکن مرکز اور پنجاب میں چلنے والی تبدیلی کی ہواؤں اور اکثریت کی اقلیت میں تبدیل ہوتی ہوئے عملی مظاہرے کے نتیجے میں یوں لگ رہا تھا کہ اپوزیشن نے پی ٹی آئی کی واضح اکثریت کے خلاف کمزور بنیادوں کے باوجود عدم اعتماد کی تحریک کچھ دیکھ کر ہی پیش کی ہوگی خاص کر جیسے ایک موقع پر اپوزیشن کی جانب سے یہ اطلاعات سامنے آئیں کہ انہیں پی ٹی آئی کے سترہ منحرف ارکان اسمبلی کی حمایت حاصل ہو گئی ہے تو اس سے نہ صرف پی ٹی آئی کی صفوں میں ہلچل پیدا ہو گئی تھی بلکہ مبصرین بھی یہ نتائج اخذ کرنے پر مجبور ہو گئے تھے کہ شاید اپوزیشن خیبر پختون خوا اسمبلی میں بھی کوئی بڑا سرپرائز دینے میں کامیاب ہو جائے گی لیکن اب جب متحدہ اپوزیشن نے اپنے قرارداد خود ہی واپس لے لی ہے تو اس سے اگر ایک طرف صوبائی حکومت نے سکھ کا سانس لیا ہو گا تو دوسری جانب صوبے میں ممکنہ سیاسی افراتفری کا خدشہ بھی فی الحال ٹل گیا ہے۔

البتہ یہاں یہ سوال جواب طلب ہے کہ اگر اپوزیشن جماعتوں کے نمبر پورے نہیں تھے تو پھر انھوں نے یہ انتہائی قدم آخر کس امید اور یقین دہانی کی بنیاد پر اٹھایا تھا۔ ثانیاً یہ کہ آخر دو دن کے اندر اندر ایسا کیا کچھ رونما ہو گیا ہے کہ اپوزیشن کو اپنا تھوکا واپس چاٹنا پڑا ہے۔ اس حوالے سے بظاہر یہی نظر آتا ہے کہ درحقیقت اپوزیشن میں پی ٹی آئی کو صوبائی اسمبلی کی واضح اکثریت کی موجودگی میں سرے سے یہ دم خم موجود ہی نہیں ہے کہ وہ پی ٹی آئی کی اکثریت کو توڑ سکے کیونکہ پی ٹی آئی کم ازکم خیبر پختون خوا کی حد تک اب بھی نہ صرف متحد ہے بلکہ زیادہ جارحانہ انداز میں سامنے آئی ہے جس کی عملی اظہار پی ٹی آئی کی جانب سے تحریک عدم اعتماد کے کامیابی کے خلاف صوبے کے طول و عرض میں رمضان المبارک کے باوجود بھر پور احتجاج اور بروز بدھ 16 اپریل کو پشاور میں ایک بڑے جلسہ عام کا انعقاد، اس سے عمران خان کا جارحانہ خطاب اور نئی منتخب حکومت کے خلاف ملک گیر احتجاجی تحریک کا آغاز ہے۔

اسی طرح اپوزیشن کا اصل مشن چونکہ مرکز میں عدم اعتماد کی تحریک کو کامیاب بنانا تھا لہٰذا اس کی کامیابی کے بعد وہ پنجاب میں تو یقینا تبدیلی کی متمنی ہوگی لیکن کم از کم خیبر پختون خوا میں وہ اس حوالے سے زیادہ سنجیدہ نہیں آتی جس کی ایک وجہ جہاں اس کو درکار عددی ہندسے تک پہنچنے میں درپیش مشکلات ہیں وہاں وہ پی ٹی آئی کو تمام منتخب اداروں سے آؤٹ کر کے عوام کے پاس جانے کا واک اوور دینے کے بجائے کم ازکم خیبر پختون خوا کی حد تک اسے حکومت میں موجودگی کے ذریعے مصروف رکھنا چاہے گی کیونکہ بقول عمران خان کے حکومت سے غیر طبعی طور پر فراغت کے بعد پی ٹی آئی زیادہ خطرناک ثابت ہوگی لہٰذا اپوزیشن اس حوالے سے اپنے پاؤں پر چونکہ کلہاڑی نہیں مارنا چاہے گی شاید اسی لئے اسے اپنی پیش کی گئی عدم اعتماد کی تحریک غیر متوقع طور پر واپس لینا پڑی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments