آئین: کاغذ کا ٹکڑا


ہم وہ بدقسمت قوم ہیں جو ہر اس شخص کو ہیرو مانتی ہے جو کسی نہ کسی شکل میں آئین اور قانون کی دھجیاں بکھیرے۔ آپ کو یہ مشاہدہ کرنے کے لیے نہ تو زیادہ دور جانے کی ضرورت ہے، نہ ہی کوئی بڑی تحقیق کی ضرورت ہے۔ آپ کسی بھی سگنل پر دیکھ لیں جو موٹر سائیکل سوار یا کار سوار سگنل توڑ کر نکل جائے باقی گاڑیوں والے آپ کو اس کی بہادری کے گن گاتے دکھائی دیں گے، جو خاموش بھی رہے گا وہ بھی دل ہی دل میں بھاگنے والے کو داد ضرور دے گا اور اپنی کم ہمتی کو کوسے گا بھی۔

کسی جگہ داخلے کی ممانعت ہو، ایسے میں ایک صاحب تشریف لائیں، دروازے پر کھڑے پولیس کانسٹیبل کے روکنے پر اس سے الجھ پڑیں۔

مجھے جانتے نہیں، میں کون ہوں کا ورد کریں، بعض اوقات گالم گلوچ بھی کریں تو یقین کریں سوائے چند پڑھے لکھے لوگوں کے ہر بندہ ہی اس شخص کو تحسین بھری نگاہوں سے دیکھ رہا ہو گا۔ پنجاب یا کے پی میں چلے جائیں تو ہیرو وہ ہوتا ہے جس نے چار پانچ بندے پھڑکائے ہوں۔ ایسا کیوں؟ ایسا اس لیے کہ نفسیاتی معاشروں میں اس قسم کے ایڈونچر کرنے والے ہیرو سمجھے جاتے ہیں۔

یہ رویہ انفرادی سے اجتماعی ہوتا جا رہا ہے اور اب قومی سطح پر بھی وہ ہی لیڈر ہیرو سمجھا جاتا ہے جو ڈنڈے کے زور پر کوئی غیر آئینی کام کرے۔ ابھی حال ہی میں قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی۔ عمران خان کی انتہائی بری کارکردگی اور ناکام پالیسیوں کے باوجود میں ذاتی طور پر اس تحریک کا مخالف تھا۔

میرا خیال تھا کہ عمران خان کو اپنی مدت پوری کرنے دی جائے تاکہ اسے اور اس کے چاہنے والوں کو کوئی ارمان نہ رہے۔ عمران خان جب اقتدار کی مدت پوری کرنے کے بعد عوام کے پاس آئے تو پبلک اسے مسترد کرے۔ اپنے اسی خیال کی وجہ سے میں نے تحریک عدم اعتماد کی مخالفت شروع کر دی مگر چونکہ ناپسندیدہ ہونے کے باوجود یہ ایک آئینی عمل تھا تو خواہش بھی یہ ہی تھی کہ یہ آئینی طور پر مسترد ہو جائے اور عمران خان اپنی اکثریت ثابت کر دے مگر بدقسمتی سے ایسا نہ ہوا اور عمران خان نے ایک غیر آئینی قدم اٹھا لیا۔ طوالت کے ڈر سے میں یہاں اس بحث میں نہیں پڑوں گا کہ ایک سفیر کے سائفر کو جس طرح امریکہ کی سازش ثابت کرنے کی کوشش کی گئی اس سے بین الاقوامی طور پر پاکستان کی کس قدر جگ ہنسائی ہوئی اور ہم نے سفارتی محاذ پر کتنا نقصان اٹھایا۔ کبھی وقت اور صفحات نے اجازت دی تو اس پر بھی ضرور لکھوں گا۔ یہاں بات کرتے ہیں عمران خان کے غیر آئینی قدم کی۔

پاکستان کا آئین کہتا ہے کہ تحریک عدم اعتماد کے پیش ہو جانے کے بعد بحث ہوگی اور بحث کے بعد ووٹنگ۔ اس کے علاوہ کوئی حل نہیں۔ یہاں آئین کہتا ہے کہ تحریک پیش ہو جانے کے بعد اسمبلی کے پہلے اجلاس میں تحریک پر بحث کے علاوہ کوئی دوسری چیز ایجنڈے میں شامل نہیں ہوگی۔ دوسری طرف آئین یہ بھی کہتا ہے کہ تحریک پیش ہو جانے کے بعد وزیراعظم اسمبلیاں توڑنے کا مشورہ صدر کو اس وقت تک نہیں دے سکتا جب تک کہ قرار داد پر ووٹنگ مکمل نہ ہو جائے اور وزیراعظم ایوان کا اعتماد حاصل نہ کر لیں مگر سابقہ وزیراعظم اور ان کے مشیروں نے ایک عجیب طریقہ اختیار کیا۔

پہلے اجلاس کو فوت ہو جانے والے رکن کے لیے فاتحہ کے بعد ملتوی کر دیا گیا۔ جب دوبارہ اجلاس بلایا گیا تو کئی دن بحث کرائی گئی او ر ووٹنگ کو ٹالا گیا۔ پھر ڈپٹی سپیکر نے ایک رولنگ کے ذریعے قرارداد کو مسترد کر دیا اور عین اسی وقت ٹی وی کی سکرین پر موجود وزیر اعظم نے اسمبلیاں توڑنے کا اعلان کر دیا اور صدر صاحب نے فوری طور پر اسمبلیاں توڑ بھی دیں۔

رولنگ کسی فوری مسئلے پر فوری دی جاتی ہے۔ یہاں عالم یہ تھا کہ اجلاس تو ڈپٹی سپیکر کی صدارت میں ہو رہا ہے مگر ڈپٹی سپیکر جو لکھی ہوئی رولنگ پڑھتا ہے اس میں سپیکر اسد قیصر کا نام پڑھ دیتا ہے۔ خیر یہ آئینی قدم عدالت میں چیلنج ہوا اور عدالت نے قومی اسمبلیاں بحال کر کے رولنگ کو کالعدم قرار دیا اور ووٹنگ کا حکم دیا۔ وزیر اعظم نے پھر ووٹنگ کو ٹالنے کی کوشش کی اور رات گئے یہ مسئلہ تب حل ہوا جب عدالت کھل گئی اور یہ ڈر پیدا ہو گیا کہ عدالت اب توہین عدالت کی کارروائی کرے گی اور اس جرم کی وجہ سے عمران خان کو نا اہل بھی کیا جا سکتا ہے۔

یہ ساری تفصیل بیان کرنے کا مقصد قارئین کو پس منظر سے آگاہ کرنا تھا۔ میرا مقصد اس سارے معاملے کے بعد کچھ پڑھے لکھے لوگوں کی طرف سے کیے جانے والے تبصرے ہیں۔ مثلاً کئی لوگوں نے یہ کہا کہ آئین کا کیا ہے۔ آئین کاغذ کا ایک ٹکڑا ہی تو ہے۔ ایسے تمام افراد کے لیے عرض ہے کہ اگر آئین کاغذ کا ایک ٹکڑا ہے تو پھر نہ آپ کی جان سلامت ہے، نہ عزت اور نہ ہی مال۔ پھر کوئی بھی طاقت رکھنے والا فرد کسی بھی وقت آپ سے مذکورہ بالا چیزوں میں سے کچھ بھی چھین لے جائے گا۔

اگر آئین کاغذ کا ایک ٹکڑا ہے تو پھر راہزنی، ڈکیتی، چوری، رشوت خوری، جھوٹی گواہی، بچوں کے ساتھ زیادتی، عورتوں کی عصمت دری سب جائز ہو جائے گا۔ آپ عمران خان سے ضرور محبت کریں یہ آپ کا حق ہے لیکن خدا کے لیے اس کی محبت میں آئین کو کاغذ کا ٹکڑا نہ سمجھیں، یہ آئین ہی آپ کی سلامتی کا ضامن ہے۔ خاص طور پر کمزور طبقات کی تو خواہش ہوتی ہے کہ ملک میں آئین کی بالادستی ہو تاکہ وہ آزادی سے اپنی معاشی ضروریات پوری کرسکیں۔ آئین کو کاغذ کا ٹکڑا سمجھنے والے یہ بھی سوچیں کہ وہ اسی آئین کی وجہ سے اس ملک کے شہری ہیں۔ دنیا کے کسی بھی مہذب ملک کا کوئی بھی پڑھا لکھا شخص اپنے ملک کے آئین کو کاغذ کا ٹکڑا نہیں سمجھتا۔ آپ سے بھی گزارش ہے اپنے تحفظ کے لیے اس ملک کے آئین کو کاغذ کا ٹکڑا نہ سمجھیں۔

آئین کی حکمرانی ملکی بقا اور سلامتی کے لیے ضروری ہے۔ ہر آمر، ہر آئین شکن کو عبرت کا نشانہ بنانا پڑے گا۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو ملکی سلامتی داؤ پر لگ جائے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments