اقتدار کا ہما


پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کے تین دفعہ وزارت اعلیٰ کے منصب پر براجمان ہونے والے، خادم اعلیٰ پنجاب کے لقب سے مشہور میاں محمد شہباز شریف اسلامی جمہوریہ پاکستان کے 23 ویں وزیراعظم منتخب ہو گئے۔

گو کہ جس دن وزیراعظم منتخب ہوئے اسی دن ان پر اور ان کے صاحبزادے وزیراعلیٰ پنجاب کے امیدوار حمزہ شہباز شریف پر منی لانڈرنگ کیس میں فرد جرم عائد ہونا تھی جس میں طویل رخصتی کی درخواست منظور کرلی گئی ہے۔ اب قوی امید ہے کہ پنجاب کی وزارت عظمیٰ ان کے صاحبزادے حمزہ شہباز شریف کو مل جائے۔

سابق وزیراعظم عمران خان نیازی جس مقبولیت کے ساتھ اقتدا رکی سیڑھیاں چڑھے تھے، کسی کو اس بات کا گمان بھی نہیں تھا کہ چند ماہ میں ان کی کایا اس طرح پلٹ جائے گی۔ وجہ بہت ساری ہیں، مگر اب اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ عمران خان ان غلطیوں سے سبق حاصل کرتے ہیں یا اپنی پرانی روش پر قائم رہتے ہوئے اپنے آپ کو فراموش کروا دیتے ہیں۔

جو آج صاحب مسند ہیں، کل نہیں ہوں گے
کرائے دار ہیں، ذاتی مکان تھوڑی ہے

نومنتخب وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف نے اپنی پہلی تقریر میں تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ کر دیا گو کہ یہ فیصلہ اگلے ماہ ہونے والے بجٹ میں ہونا تھا، مگر عوام کو خوش کرنے کے لیے ایک ماہ قبل ہی اعلان کر دیا گیا۔

سابق وزیراعظم میاں نواز شریف بھی بھائی کو اقتدار ملنے کے بعد مکمل صحت یاب ہو گئے ہیں اور جلد ہی پاکستان کی سرزمین پر قدم رکھ دیں گے۔ جس کی تیاریاں مکمل ہو چکی ہیں۔

اس بات سے قطع نظر کہ اب شریف خاندان پر چلنے والے کیسز کا کیا نتیجہ نکلتا ہے، حقائق سامنے لائے جائیں گے یا نہیں۔ مگر یہ بات تو واضح ہو گئی ہے کہ اقتدار کا ہما اسی کے سر پر قائم رہتا ہے جس کے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ خوشگوار تعلقات ہوں۔ اگر اس تعلق میں تھوڑی سی بھی رنجش پیدا ہو گئی تو خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگ جاتی ہیں اور پھر جمہوریت کا حسن کہہ کر اقتدار کسی دوسرے کو منتقل کر دیا جاتا ہے۔

پاکستان میں قانون کی بھی عجیب و غریب ہے۔ کبھی تو یہاں راتوں رات عدالتیں کھول کر فیصلہ دے دیتے ہیں اور کبھی سالوں ستو پی کر سوئے رہتے ہیں۔ ڈاکٹر عاصم حسین، شرجیل انعام، عذیر بلوچ، بانی متحدہ، مجید اچکزئی سمیت کئی ہائی پروفائل کیسز ردی کی ٹوکری میں پھینکے ہوئے ہیں۔ اگر ان کیسز کا فیصلہ انصاف کی بنیاد پر ہوجاتا تو آج منظرنامہ کچھ اور ہی ہوتا۔

عذیر بلوچ کی جے آئی ٹی کو تو شاید اب لوگ بھول ہی گئے ہیں۔ جہاں پر قانون دو طبقوں میں بٹا ہوا ہو وہاں پر عوامی نمائندوں کی نہیں بلکہ کسی اور کی حکمرانی چلتی ہے۔

میاں نواز شریف وطن واپس آ رہے ہیں اور بقول ان کے وہ عدالتوں کا سامنا بھی کریں گے۔ اس تناظر میں کراچی کی جنتا کا سوال یہ ہے کہ پھر بانی متحدہ جو معافی بھی مانگ چکا ہے اسے کلیئرنس کیوں نہیں دی جا رہی ہے۔

کہتے ہیں بانی متحدہ انڈیا کا ایجنٹ ہے، کبھی برطانیہ کا ایجنٹ اور کبھی امریکی ایجنٹ بتلایا جاتا ہے اور دوسرے ملکوں کے کہنے پر پاکستان میں دہشت گردی پھیلاتا ہے۔ بقول عمران خان کے ان کی حکومت امریکہ نے ختم کروائی تو جب تمام حکومتوں کو تبدیل کرنا امریکہ کا کام ہے تو کیا وجہ ہے کہ اب تک وہ اپنے ایجنٹ پر سے پابندی نہیں ہٹا سکی؟ ایم کیو ایم پاکستان کے دفاتر پر پابندیاں اب تک برقرار ہیں۔ ایم کیو ایم کے اسیر و گمشدہ کارکنان کیوں رہا اور بازیاب نہیں ہو سکے۔ جب امریکہ کی اتنی ہی چلتی ہے کہ جس کی حکومت کو چاہے گھر بھیج دے۔ تو الطاف حسین ان کا ایجنٹ ہے تو اسے انہوں نے پاکستان میں کیوں نہیں رکھا۔ اگر باہر بھی رکھا تو جو پانچ سال سے پابندیاں ہیں اس کو کیوں ختم نہیں کی گئی۔ بات ہے سمجھنے کی۔

میں کسی کی حمایت نہیں کر رہا۔ جب معاشی دہشت گردی پھیلانے والوں کو اقتدار کا ہما پہنایا جاسکتا ہے، قومی خزانے کو لوٹنے والوں، سرائے محل، ایون فیلڈ فلیٹس اور اربوں کھربوں کی جائیدادیں بنانے والوں کو، ٹیکس چوروں کو ایوانوں میں بھیجا جاسکتا ہے تو ایک اس شخص کو کیوں نہیں معاف کیا جاتا جو کراچی کے مظلوم عوام کی آواز بنا۔ اچھا برا وقت سب پر آتا ہے، غلط کام ہر کوئی کر جاتا ہے، مگر اس نے حقیقی طور پر گراس روٹ لیول کی لیڈرشپ پیدا کی۔

اس شخص نے موروثی سیاست کو دفن کیا۔ اس نے اپنے چاچا، بھتیجوں کو لیڈر نہیں بنایا، انہیں اسمبلیوں میں نہیں بھیجا۔ اس نے غریب کے بچوں کو ایوانوں میں بھیجا۔ اس نے اپنے بیٹی یا بھتیجے کو وزارت کے لئے کبھی نامزد نہیں کیا، نہ خود وزیراعظم کے لئے امیدوار بنا۔ نہ وہ سینیٹر بنا نہ وہ قومی اسمبلی کا رکن مگر اس نے جس پر ہاتھ رکھ دیا وہ کندن ہو گیا۔ سیاسی اور نظریاتی اختلافات اپنی جگہ مگر آج بھی بانی متحدہ کے علاوہ کوئی ایسا لیڈر نہیں جس نے اقربا پروری نہ کی ہو۔ اپنے رشتے داروں کو نہ نوازا ہو۔

آج کراچی کی جنتا عمران خان کے لئے باہر نکل گئی ہے مگر کب تک اس کے ساتھ کھڑی ہوگی۔ کیا عمران خان نے کراچی کو اپنا سمجھا؟ کیا عمران خان نے کراچی کے لئے کوئی کارنامہ انجام دیا۔ کیا کوٹہ سسٹم ختم ہو گیا؟ کیا سندھ کے شہری علاقوں کی عوام کو سرکاری نوکریاں مل گئیں؟ واٹر ٹینکر مافیا سے جان چھوٹ گئی۔ کے 4 منصوبہ کہاں تک پہنچا؟ کراچی میں پاکستان ہاؤسنگ اسکیم شروع ہو گئی؟ صحت کارڈ کا اجرا ہو گیا؟ ان سب سوالوں کا جواب یقیناً نفی میں ہی ہو گا۔ جس طرح میاں صاحب پنجاب کے وزیراعظم تھے عمران خان بھی پنجاب اور پختونخوا ہے ہی وزیراعظم بنے رہے۔ انہیں سندھ سے کوئی سروکار نہیں تھا جس نے انہیں اتنی بڑی کامیابی سمیٹ کر دی۔

سابق وزیراعظم عمران خان 26 جولائی 2018 کو کراچی کے حلقے این اے 243 جس میں گلشن اقبال اور گلستان جوہر کا بڑا علاقہ لگتا ہے سے 91,358 ووٹ لے کر منتخب ہوئے۔ خان صاحب اور ان کے کارکنان نے اس وقت جس نعرے کو استعمال کیا وہ تھا ”وزیراعظم کراچی سے۔“ 2018 کے انتخابات میں تحریک انصاف کو کراچی بھر سے 10 لاکھ سے زائد ووٹ پڑے۔

عمران خان، عارف علوی اور نجیب ہارون بالترتیب 91 ہزار، 90 ہزار اور 89 ہزار کے بڑے ووٹ بینک سے جیت کر اسمبلیوں میں پہنچے۔

14 اکتوبر کو این اے 243 پر ضمنی انتخاب میں عالمگیر خان جو ایک محسود قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں 37 ہزار سے زائد ووٹ لے کر دوبارہ منتخب ہوئے۔ اہل کراچی نے تعصب کی سیاست کو اسی وقت دفن کر دیا جب پہلے ایک نیازی اور پھر ایک محسودی کو کراچی کے اکثریتی مہاجر علاقے سے جتوایا گیا۔

کراچی سے تحریک انصاف کو قومی اسمبلی کی 21 میں سے کل 14 نشستیں حاصل ہوئیں جبکہ صوبائی کی بھی 30 نشستیں جیت لیں۔ 14 جولائی 2018 کے بعد سے خانصاحب نے کراچی کے بمشکل 10 وزٹس کیے ، کوئی بھی دورہ 2 دن سے زیادہ کا نہیں تھا۔

5 ستمبر 2020 کو جب پورے کراچی کے بعد بالآخر DHA بھی ڈوب گیا، تب خان صاحب وہاں کے ”مالکان“ کی ہدایت پر 2 گھنٹے کے لئے کراچی تشریف لائے اور 1100 ارب روپے کے ”کراچی ٹرانسفارمر پیکیج“ کا اعلان کر کے یہ جا وہ جا۔ پھر وہ پیکیج بھی کہیں دفن ہو گیا۔

اس دوران

1) خانصاحب نے کراچی کے لئے کوٹہ سسٹم کو غیر معینہ مدت تک کے لئے رکھنے کی منظوری محض اپنے ایک دستخط سے دے دی۔

2) کراچی کی ناجائز اور نا انصافی پر مبنی مردم شماری کو اپنے اتحادیوں سے مل کر جائز اور قانونی قرار دلوایا۔

3) کے الیکٹرک کی مافیا جس کا لائسنس وہ اپنے ایک دستخط کے ذریعے منسوخ کر سکتے تھے، تاحال ان کی وجہ سے کراچی پر مسلط ہے۔

4) کراچی سرکلر ریلوے کے سینکڑوں افتتاح اور کئی دعووں کے باوجود وہ آج بھی کچرے کے ڈھیر تلے دبی ہے۔

5) کراچی کا K 4 منصوبہ جس کے تحت کراچی کو 64 کروڑ گیلن پانی ملنا تھا اول تو اس کا افتتاح ہی 2022 میں کیا اور اس کی مقدار بھی 64 کروڑ سے 26 کروڑ گیلن کردی۔

6) دریائے سندھ سے صرف 1 فیصد کراچی کو پانی کی فراہمی وفاق نے کرنی تھی اس سے بھی معذرت کرلی گئی۔

7) کراچی نے صرف 2020 تا 2021 ریکارڈ ایک ہزار ارب روپے کا ریونیو جبکہ 71.50 فیصد ایکسپورٹ کر کے دی جو کہ پورے ملک کے ریونیو اور ایکسپورٹ سے کہیں زیادہ تھی۔

اس کے باوجود کراچی کی صنعتوں کو تو گیس کیا ملنی تھی گھریلو صارفین تک کی گیس روک دی گئی اور نہ ہی انڈسٹریز کو بجلی پر کوئی سبسڈی دی بلکہ فی یونٹ بجلی میں تاریخی اضافہ کر دیا گیا۔

8) کراچی گرین لائن منصوبہ بمشکل 3 سال بعد ادھورا چھوڑ دیا گیا اور نمائش پر لا کر اس کا افتتاح کر دیا گیا جو کہ ٹاور تک جانا تھا۔ اس پر 80 بسیں چلائی گئیں جبکہ 2003 میں کراچی میں اس وقت 300 گرین لائن بسز چلائی گئیں تھیں اور وہ بھی ناکافی تھیں۔

9) ان ساڑھے تین سالوں میں وفاق نے کراچی کے لئے کوئی میگا پروجیکٹ شروع نہیں کیا۔

10 ) ستمبر 2020 سے اپریل 2022 تک ان 1100 ارب روپے کا بھی نہ کوئی حساب دیا گیا اور نہ ہی کوئی پروجیکٹ شروع کیا گیا۔

11 ) پچھلے 2 مہینے سے جب خانصاحب کی کرسی لڑکھڑانا شروع ہوئی تو سوات سے سے لے کر دیر تک اور پھالیہ سے لے کر کمالیہ تک انھوں نے سب جگہ دورے کیے مگر کراچی تب بھی ان کو یاد نہ آ سکا۔ سوائے چند گھنٹوں کے لیے اپنی اتحادی جماعت ایم کیو ایم کو منانے کی غرض سے کراچی تشریف لائے تھے۔

ماشاءاللہ اب جب کے وہ اختیارات سے محروم کر دیے گئے ہیں تو انھیں پھر سے کراچی یاد آ گیا ہے وہ 16 اپریل کو کراچی آرہے ہیں، ہم انھیں خوش آمدید کہتے ہیں۔

لیکن پوچھنا چاہتے ہیں کہ:

جب آپ لوگوں کو تکلیف ہوتی ہے آپ تب ہی کراچی آتے ہیں یا کراچی والوں کی تکلیف بھی آپ کو کبھی کراچی لا سکتی ہے؟

میں یہ سوال بھی کراچی کی باشعور اور تعلیم یافتہ عوام پر چھوڑتا ہوں کہ آپ پھر کسی نئے ”قائد تحریک“ کی اندھی تقلید پر روانہ ہو کر مزید زندگی جھوٹے وعدوں اور سراب کے پیچھے بھاگ کر گزارنا چاہتے ہیں یا آپ کو واقعی آپ کی کوئی درد دل رکھنے والی قیادت شہر میں نہیں نظر آتی ہے؟

آخر میں پاکستانی عوام کے لیے راحت اندوری مرحوم کی نظم آخر میں ترمیم کر کے نذر کرتا ہوں :
اگر خلاف ہیں، ہونے دو، جان تھوڑی ہے
یہ سب دھواں ہے، کوئی آسمان تھوڑی ہے
لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں
یہاں پہ صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے
میں جانتا ہوں کہ دشمن بھی کم نہیں لیکن
ہماری طرح ہتھیلی پہ جان تھوڑی ہے
ہمارے منہ سے جو نکلے وہی صداقت ہے
ہمارے منہ میں تمہاری زبان تھوڑی ہے
جو آج صاحب مسند ہیں، کل نہیں ہوں گے
کرائے دار ہیں، ذاتی مکان تھوڑی ہے
سبھی کا خون ہے شامل یہاں کی مٹی میں
کسی کے باپ کا پاکستان تھوڑی ہے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments