غداری اور بیرونی سازش سے تعمیر قوم کا عمل ؟


کسی بھی ملک کی سیاست اور طرز حکومت کی بنیاد اس کے عام آدمی یا عوام ہوتے ہیں اور سیاست دان اور حکمران کے فرائض منصبی میں یہ بات شامل ہوتی ہے کہ وہ اپنے عوام کی ذہنی اور اخلاقی تربیت کرے انہیں آنے والے وقت کے لئے تیار کرے۔ عوام کی ذہن سازی ایسے کرے کہ وہ ایک مضبوط سے مضبوط قوم بنتے جائیں اپنے ملک کے لئے تن من دھن قربان کرنے والے بن جائیں جیسا کہ ایک فوجی جوان کی تربیت کی جاتی ہے۔ سب سے پہلے اپنے وطن کی ناموس ہو اور اجتماعی ترقی پر پختہ یقین ہو۔

زندہ قوموں کے لیڈر اپنے عوام کو عمدہ اخلاق اور ایک دوسرے کی عزت نفس کا خیال رکھنے کا درس دیتے ہیں۔ اسی لئے ان کے اقوال تک کو اقوال زریں کہا جاتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک اسی نظریے کی بنیاد پر آگے بڑھے اور بڑھتے جا رہے ہیں۔ انہوں نے عوام کو اپنی مقامی سیاست اور ریاستی امور کے حوالے سے کبھی منفی رجحانات کی طرف نہیں دھکیلا۔ وہ اپنی قوم کو متحد کرنے کی سعی میں ہی لگے رہتے ہیں اسی مثبت روئے کی بدولت مشرقی اور مغربی جرمنی کو ملا لیا گیا۔

ساری دنیا میں لوگ ووٹ مانگتے اور لیتے ہیں تمام ممالک میں انسانی کوتاہیوں کو موضوع بنا کر ہی مخالف کو کمزور کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ایسا کرتے وقت وہ لوگ سب سے پہلے اپنے مادر وطن کی یکجہتی اور استحکام کا سوچتے ہیں کہ کوئی ایسا قدم نہ اٹھایا جائے کہ قوم منتشر ہو جائے۔ کسی بھی طریقے سے وہ اپنی اکائیوں کی وحدت کو پامال نہیں ہونے دیتے۔ کبھی بھی ایسا جذبہ اپنی عوام کے اندر پنپنے نہیں دیتے جو بعد میں جا کر ان کی ملکی سالمیت کے لئے وبال جان بن جائے۔

کرپشن کے الزامات ساری دنیا میں لگائے جاتے ہیں خاص طور پر جو اپوزیشن ہوتی ہے وہ حکومت پر بدعنوانی کے الزامات داغتی رہتی ہے۔ سب کچھ کہتی ہے مگر اپنے ہی وطن کے سیاستدانوں کو غدار نہیں کہتی۔ دنیا میں طاقتور ممالک ایک دوسرے کے معاملات میں بالواسطہ مداخلت کرتے ہیں۔ چین امریکہ روس کے آپس کے تعلقات کا جائزہ لینے سے یہ بات کھل کر سامنے آ جاتی ہے۔ بڑی طاقتیں اپنے مفادات کا تحفظ کرنے کے لئے چھوٹے ممالک کے معاملات میں گہری دلچسپی رکھتی ہیں۔ ایسی دلچسپی کو سازش کہہ کر اپنے ہی ہم وطنوں کو سر عام غدار کہنا اور پھر اتنے بھرپور انداز سے اس کی تبلیغ کرنا کہ عوام میں ایک دوسرے کے لئے شدید نفرت پھیل جائے ایسا اور کہیں نہیں کیا جاتا۔

قانون کہتا ہے کہ الزام لگا دینے سے کوئی چور نہیں بن جاتا جب تک کہ چوری ثابت نہ ہو جائے مگر بلا کسی ایسی تحقیق اور اثبات کے چور سے تقریر شروع کرنا اور چور پر ہی ختم کرنا کہاں کی دانشمندی ہے۔ کسی بھی علاقے یا ملک کے عوام دو چیزوں سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے اگر وہ کسی اور طریقے سے متحرک نہ بھی ہوں تو ان دو چیزوں کو تو وہ نہ نظر انداز کر سکتے ہیں نہ فراموش۔ وہ دو چیزیں مذہب اور وطن ہیں۔ ہمارے وطن عزیز میں کچھ پارٹیوں نے پہلے مذہب کو استعمال کیا۔ کوئی نظام مصطفٰی کوئی نفاذ اسلام اور کوئی ریاست مدینہ کا نام لیتا رہا مگر عملی طور پر اس سے دور ہی دور بھاگتا رہا اور عوام کو بھی مذہب سے دوری ہی سکھائی۔ فرقہ پرستی کو ہوا دی۔ مذہب کی آڑ میں لا دینیت پھیلائی۔ ریاست مدینہ کے قیام کی کوششوں کے لئے جلسہ کرنے سے پہلے ناچ گانے کا اہتمام کیا۔

تاریخ پاکستان میں موجودہ حکومت فرشتوں کی ہوتی ہے اور ساری خرابی پچھلی حکومت نے ہی پیدا کی ہوتی ہے۔ ہر پارٹی کی تین چار سال حکومت کرنے کے بعد لوگوں کو جب یہ بات جھوٹ لگنے لگتی ہے اور سمجھ آنے لگتی ہے کہ اسے پھر استعمال کیا جا رہا ہے تو توپوں کا رخ تبدیل کیا جاتا ہے۔ اپنی کوتاہیاں چھپانے کے لئے دوسروں کو چور اور کرپٹ کہنے کے ساتھ ساتھ اپنی پارٹی کے سپورٹر کو دانشمند قرار دینا اور باقی سب کو جاہل اور غلام۔

جو ایسا کہتے ہیں انہوں نے کبھی اپنے ملک اور اپنی قوم کے بارے میں نہیں سوچا کہ میرے اس بیانئے سے لوگ ایک دوسرے سے کیا سلوک کریں گے۔ ایک ہی رنگ مذہب اور علاقے کے لوگ ایک دوسرے سے اتنی نفرت کر رہے ہیں کہ ہر طرف بگاڑ ہی بگاڑ ہے۔ پنجابی پنجابی کا دشمن بنا دیا پٹھان کو پٹھان کا اور بلوچ کو بلوچ کا ۔ یہاں تک کہ بھائی بھائی کی اب صرف سیاسی مخالفت نہیں رہی بلکہ جانی دشمنی بن کے رہ گئی ہے۔ ایسا کوئی بھی بیانیہ ہشت پا کی طرح ہمارے معاشرے اور انسانیت کو اپنے قابو میں کر تا جا رہا ہے ہم ایک ہی گلی میں رہتے ہوئے ایک دوسرے کے دشمن ہو چکے ہیں۔

ایک اچھا لیڈر ایسا کوئی قدم نہیں اٹھاتا جس سے ملک کی عوام ہی ایک دوسرے کی جان کی دشمن بن جائے۔ لیکن بد طینت لوگ ایسی کسی بات کی پرواہ نہیں کرتے۔ انہیں صرف اپنی کرسی سے غرض ہوتی ہے۔ ایسا بیانیہ بلیک میلنگ کا طریقہ ہے کہ ایسی بات شروع کی جائے جسے کوئی بھی رد نہ کر سکے اور سب اس کی رو میں بہہ جائیں۔ جیسا کہ کچھ عرصہ پہلے ایک مذہبی جماعت نے ملک جام کر کے کی تھی۔ یہ بیرونی سازش کی بات بھی اسی طرح کی ہے کہ اپنے ہی ملک کو ساری دنیا کے سامنے ننگا کر دیا کہ ہماری خود مختاری کا سودا ہو چکا ہے۔

اگر اللہ نہ کرے ایسا کچھ تھا بھی تو اسے بند کمرے میں ہی نبیڑ لینا چاہیے تھا۔ ذمہ داران کو بلا کر وہ دکھاتے اور جو اس میں مجرم ٹھہرتے انہیں اسی وقت قرار واقعی سزا دیتے۔ چور آیا چور آیا کا شور نہیں مچانا چاہیے تھا۔ یہ غداری اور بیرونی سازش اور بیرونی ہاتھ کا بیانیہ اللہ کرے ناکام ہو اگر یہ کامیاب ہو گیا تو اس سے ملک کی سالمیت تک داؤ پر لگ جائے گی۔ کسی پر بھی بیرونی سازش کا الزام لگا کر اسے کچھ بھی کہا اور کچھ بھی کیا جا سکتا ہے۔

آج ایک جماعت کے کارکن اتنے جرات مند ہو گئے ہیں کہ وہ چھوٹے بڑے کا فرق ہی بھول چکے ہیں۔ کوئی عالم دین ہے تو اس کے الٹے نام۔ کوئی کتنا ہی با وقار ہے اس کو گالی اور بات صرف یہاں تک نہیں بلکہ ماؤں بہنوں کے نام لے لے کر ان کی عزت اچھالتے ہیں۔ ہم سب مل کر سوچیں کہ اگر کوئی وزیر اعظم، مشیر یا وزیر ایسا کر رہا ہے تو اس کی جماعت کے کارکنوں کا اخلاقی معیار کیا ہو گا؟ اس لئے ہم سب کو چاہیے کہ ایسا ملکی سالمیت کا مخالف بیانیہ کسی بھی طرف سے آئے اسے یکسر مسترد کریں اور عقل کا استعمال کریں۔

اور سوچیں کہ یہ سیاست دان ہمیں کس سمت میں دھکیل رہے ہیں۔ ان سیاست دانوں کا ساتھ دیں جو عوام کی فلاح اور امن و آشتی کا پرچار کریں اور اس کا عملی مظاہرہ بھی کریں۔ جو لوگوں کی پگڑیاں سر راہ اچھالے ایسے نام نہاد لیڈر کو دور سے ہی سلام کیا جائے۔ وطن میں امن کی فضا قائم کرنے کی جتنی اس وقت ضرورت ہے پہلے کبھی نہیں تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments