بیانیے کی جنگ اور عوامی رابطہ مہم کا مستقبل


ملک میں اس وقت گھمسان کی بیانیہ جنگ لڑی جا رہی ہے، آج سے پہلے اس جنگ کا سالار ہمیشہ سے ایک قومی محکمہ ہوا کرتا تھا جو انتہائی مہارت سے منظم انداز میں بیانیے تخلیق کیا کرتا اور بڑی مستعدی سے ان کی تشہیر کرتا، لیکن پچھلے کچھ دنوں سے منظر نامہ بدلا ہے، ایک شخص جو بیانیے بنانے کا ماہر ہے اس نے طاقتور قومی اداروں اور موجودہ حکومت کے خلاف ایک زبردست بیانیہ نا صرف گھڑا بلکہ اسے بہت چالاکی سے راتوں رات پھیلا بھی دیا۔

بیانیہ خطرناک تھا، یہ تھا اینٹی ویسٹ یا اینٹی امریکا نیریٹو۔

اگر درجہ بندی کی جائے تو یہ بیانیہ اس ملک کا دوسرا سب سے مقبول ترین بیانیہ ہے لیکن کوئی تو وجہ ہے کہ کم سے کم پچھلے پچاس سال میں ملک کی کسی بڑی قومی جماعت یا لیڈر نے امریکا یا انڈیا کے خلاف بیانیہ بنانے کی کوشش نہیں کی حالانکہ یہ بالترتیب دوسرے اور تیسرے نمبر کے سب سے مقبول بیانیے مانے جاتے ہیں۔

ویسے تو اینٹی امریکا بیانیے کو کسی حد تک جماعت اسلامی لے کر چلی ہے اور بڑی تعداد میں جلسے جلوس نکال کر سٹریٹ پاور بھی شو کرتی رہی ہے، یہاں تک کہ مینار پاکستان کے علاوہ ملک بھر میں نکلنے والی امریکا مردہ باد نامی ریلیوں میں انسانوں کے سمندر ہم نے جماعت کے لیے نکلتے دیکھے ہیں، سیٹ مگر ان کی پورے ملک میں ایک ہے۔

وجہ صاف ظاہر ہے پبلک انڈیا یا امریکا کے خلاف نعرے تو شوق سے لگا لیتی ہے لیکن ووٹ زمینی حقائق اور اپنی ضرورتوں کو دیکھ کر دیتی ہے۔

ہم نے جمہوریت کے لمبے سفر میں دیکھا ہے کہ پاکستانی پبلک کبھی بھی ووٹ ہوائی بیانیے یا غیر مرئی نعروں پر نہیں دیتی، یہاں ووٹر اپنا ووٹ بہت سمجھداری سے استعمال کرتا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ اس کے ووٹ سے اس کے پانچ سال کے مسائل حل ہوں نا کہ بادلوں پر محل بنے یا ہوائی قلعے تعمیر ہوں۔

ہاں کچھ سیاسی نعرے البتہ ووٹ میں تبدیل ہوئے ہیں لیکن وہ زمینی حقائق کے مطابق تھے اس لیے، جیسے پیپلز پارٹی کا ”روٹی کپڑا اور مکان“ کا نعرہ، تحریک انصاف کا ”تبدیلی“ کا نعرہ یا مسلم لیگ نواز کا ”ووٹ کو عزت دو“ کا بیانیہ عوام میں نا صرف مقبول ہوئے بلکہ ووٹوں میں تبدیل ہوئے۔

لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس باشعور قوم نے کسی ملک یا مذہب کے خلاف کوئی بیانیہ کبھی بھی ووٹ میں تبدیل نہیں ہونے دیا۔

یہ تو تھا ماضی کا قصہ، آج دیکھیں اس بیانیے کو اٹھانے والے شخص نے ایک ہی ہفتے میں آئین اور اصول شکنی کے نئے ریکارڈ قائم کیے ہیں اور یہ اس کی سب سے بہت بڑی غلطی ثابت ہونے جا رہی ہے، صرف یہی نہیں اس پر مستزاد یہ کہ صرف سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے لیے راتوں رات مغرب مخالف بن جانا امریکا مردہ باد نامی ریلیوں اور جلسوں کی قیادت کرنا یہ سراسر سیاسی خودکشی تھی جو وہ کر چکا، ملک کی ایلیٹ اور انٹلیکچوئل کلاس سمیت دنیا بھر میں اس کا ایمیج ایک پروگریسو، لبرل اور پڑھے لکھے ویسٹرنائز شخص کا تھا جو اب چکنا چور ہو چکا ہے۔

حالیہ سٹریٹ پاور ان صاحب کو سیاست میں زندہ تو رکھ سکتی ہے لیکن انتہائی غیر پارلیمانی، غیر آئینی اور غیر اخلاقی ٹریک پر چل کر اب یہ پارلیمنٹ میں کوئی بڑا رول پلے کرتے نظر نہیں آتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments