حیدرآباد کا پکا قلعہ اور کچا قلعہ: ماضی سے حال تک


حیدرآباد شہر اپنی تاریخی حیثیت سے سندھ کا وہ مرکز رہا ہے، جس کو علم، ادب، تعلیم، ثقافت اور سیاست کی وجہ سے ہمیشہ اعلیٰ مقام ملا۔ اس شہر کی اپنی تاریخ ہے، جب وہ حیدرآباد کے بجائے نیرون کوٹ کے نام سے جانا جاتا تھا۔ سندھی میں کوٹ کے معنی قلعہ بنتی ہے اور نیرون یہاں کے حکمران کا نام تھا، جو بدھ دھرم سے تعلق رکھتا تھا۔ نیرون بادشاہ کا شہر کے وسط میں اونچے مقام پر واقع قلعہ تھا، جس میں اس کے پہریدار اور خاندان کے افراد رہتے تھے۔

نیرون بادشاہ کے بعد راجہ ڈاہر کے زمانے میں شمنی نامی حکمران کا یہاں راج تھا۔ اسی زمانے میں محمد بن قاسم نے سندھ پہ حملہ کیا تھا مگر نیرون کوٹ پہ عرب فوج نے چڑھائی نہیں کی کیونکہ شمنی نے، حجاج بن یوسف سے محمد بن قاسم کے حملے سے قبل ہی ان کی حمایت کر کے، ساتھ دینے کی ضمانت دی تھی، جس پہ حجاج بن یوسف سے شمنی نے امان کا پروانہ حاصل کر لیا تھا جو نیرون کوٹ پہچنے پر عرب فوج کو دکھا کر کارروائی رکوا دی۔ بعد میں یہاں عرب حکومت قائم ہو گئی پھر بھی اس شہر کا نام نیرون کوٹ ہی رہا۔

اس شہر کا نام نیرون کوٹ سے حیدرآباد 1769 ع میں عباسی گھرانے سے تعلق رکھنے والے حکمران میاں غلام شاہ کلہوڑو نے رکھا۔ اس دور میں حیدرآباد میں یادگار کام ہوا۔ شہر کو دارالحکومت کا درجہ ملا ہوا تھا اس لئے تمام تعمیراتی کام ہوئے۔ ہندستان میں مغلوں کی حکومت تھی۔ مغلیہ عمارت سازی کی تب روایت چل رہی تھی اس لئے سندھ میں بھی وہی طرز تعمیر نظر آتی ہیں۔

حیدرآباد کو روشن دانوں کا شہر بھی کہا جاتا تھا، یہاں کے ہر گھر کی چھت پر روشندان ہوتا تھا، جہاں سے چوبیس گھنٹے ہوا آتی رہتی تھی۔ روشندان کو سندھی زبان میں ”منگھہ“ کہتے ہیں اور یہ منگھہ عام روشندان کے مقابلے میں اس طریقے کا ہوتا تھا کہ یہاں سے دھوپ اور بارش کا پانی گھروں میں داخل نہیں ہوتا تھا۔ حیدرآباد کی قدیم تصاویر میں منگھہ آپ دیکھ سکتے ہیں۔ اونچائی پر آباد یہ شہر ہمیشہ سے ہوا دار رہا ہے۔ دن شدید گرم ہونے کے باوجود بھی حیدرآباد کی راتیں ٹھنڈی ہوتی ہیں، جس کی وجہ اس کے درمیان سے دریائے سندھ کی گزر ہے۔

آج کے جدید دور میں حیدرآباد ایک بڑی آبادی والا شہر بن چکا ہے، مگر دن بدن سکڑتا جا رہا ہے۔ گھر، دکانیں، بازار اور راستے سب کچھ بے ترتیب بنتے جا رہے ہیں۔ ایک صدی پہلے حیدرآباد کی آبادی تیس ہزار تھی اور آج اسی شہر کی آبادی اٹھارہ لاکھ سے زیادہ کی ہے۔

پکا قلعہ

حیدرآباد میں اس تاریخی پکا قلعہ کے چند ایک آثار آج بھی محفوظ ہیں، جو اپنے وقت کی یادگار ہیں۔ پکا قلعہ 1769 ع میں حاکم وقت غلام شاہ کلہوڑو نے تعمیر کروایا تھا۔ پکا قلعہ کے لیے مزدور قندھار سے منگوائے تھے۔ اس قلعے کے کاریگر ملتان سے آنے تھے۔ قلعے میں اندر جنگی سامان اور لوہے کے بھاری بھرکم دروازے نصب کروائے۔ شاہی دربار، سپاہیوں کی رہائش، حکمران خاندان کی رہائش، وزراء و امراء کی رہائش، باغات، میدان اور شاہی بازار قائم کروائے۔

پکا قلعہ کے سامنے شاہی بازار آج بھی موجود ہے جو اس زمانے میں پکے قلعے کی حدود میں واقع تھا۔ کلہوڑا حکمرانوں کے بعد میر یا تالپور حکومت قائم ہوئی۔ انہوں نے بھی حیدرآباد کو ہی دارالحکومت کا درجہ دیا اور ماضی کے حکمرانوں سے زیادہ حیدرآباد کی خدمت کی۔ انہوں نے پکا قلعہ کی مزید تعمیر کی۔ خصوصی طور پہ جنگی ساز و سامان کا اہتمام زیادہ کیا۔ میر صاحبان کی طاقتور حکومت تھی۔ ان کے فارس اور عربستان سے تعلقات بہت اچھے رہے۔

میر صاحبان میں مذہبی رجحان زیادہ نظر آیا۔ دربار میں شعر و سخن کی نشستیں معمول تھا۔ فارسی ان دنوں دفتری زبان کا درجہ رکھتی تھی۔ ان کی فوج پہ بھی خاص توجہ رہی جنگی ہتھیار بیرون ممالک سے خریدتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جب انگریزوں نے سندھ پر حملے کیے تب ہر حصے میں ان کو مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ اور آخرکار 1843 ع میں انہوں نے سندھ پر قبضہ کر ہی لیا۔ اسی تاریخی پکے قلعے پر پھر انہوں نے برطانوی جھنڈہ بھی نصب کر لیا۔

انگریزوں نے بھی حیدرآباد کو دارالحکومت کے طور پر استعمال کیا۔ چارلس نیپیئر نے پکا قلعہ میں اندر انگریز حکمرانوں کی فوج کا مرکز قائم کر دیا گیا۔ یہاں ان کی فوج کے تمام اعلیٰ عہدیدار بیٹھتے تھے اور سارے سندھ کا عسکری نظام چلایا کرتے تھے۔ ماضی کے حکمرانوں کی شاہی دربار اور رہائش اب انگریز فوجیوں کے دفتر بن چکے تھے۔ اس پورے دور میں پکا قلعہ کی تعمیرات کے حوالے سے کوئی کام نہیں ہوا۔ انگریزوں نے جاتے جاتے ماضی کے تمام حکمرانوں کا مال و دولت تو لیا مگر تاریخی جنگی ساز و سامان، فوجی لباس، قیمتی و نایاب اشیاء و تحائف، کتب سمیت سب کچھ سمیٹ کر برطانیہ لے گئے، ان میں سے کئی چیزیں برطانوی عجائب گھر میں محفوظ ہیں۔

قیام پاکستان کے بعد ہندوستان سے ہجرت کر کے آنے والے خاندانوں کو اس قلعے میں عارضی طور پہ رہائش پذیر کیا گیا مگر بعد میں انہوں نے یہاں مستقل قیام اختیار کر لیا۔ آج اس قلعے کی حالت زبوں حال ہوتی جا رہی ہے۔ کئی گھروں کو نقصان بھی اٹھانا پڑا ہے۔ چاروں اطراف سے ضعیف حالت میں ہونے کی وجہ سے رہنے والوں کو بھی خطرہ لاحق ہے۔ ڈھائی سو سال گزرنے کے بعد اب پکا قلعہ کی وہ مضبوطی ختم ہو چکی ہے۔ اس قدیم قلعے سے جو صدیوں پرانی عروج و زوال کی تاریخ وابستہ ہیں، اس کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس قلعے کی ضعیفی نے اس کو اتنا نقصان نہیں پہنچایا جتنا لوگوں نے اس کی مضبوط در دیوار کو ہاتھ سے نقصان پہنچایا ہے۔ 1983 میں گرو نگر سے ریلوے اسٹیشن جاتے ہوئے قلعہ کی دیوار کی بالکل چوٹی والے گھر کی دیوار ٹوٹ گئی تھی۔ اس دیوار پر گھر کے اندر کافی بوجھ تھا جس کی وجہ سے وہ گھر کے سامان سمیت نیچے آ گئی تھی۔ سال 2015 میں پکا قلعہ کی قدم گاہ مولا علی علیہ سلام کی جانب سڑک سے جو دیوار ہے اس کا بڑا حصہ دکانداروں نے رات کے اندھیرے میں، گودام بنانے کے لئے توڑا تھا۔

جب آدھی رات کو قلعہ کی دیوار جو پہاڑی بھاری بھرکم پتھروں سے بنی ہوئی تھی، بے تحاشا وزن دار ہونے کی وجہ سے آدھی رات کو نہیں اٹھائے جا سکے تو صبح کو یہ ماجرا معلوم ہوئی۔ سندھی اخبارات نے اس بات کو ایشو بنا کر اٹھایا تو تحقیقاتی کمیٹی بنا دی گئی مگر نتیجہ صفر آیا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ اس کام میں انتظامیہ کا بھی ہاتھ تھا۔ اس کے بعد جون 2021 میں پکے قلعے کا مرکزی دروازہ اکھاڑ کر توڑنے کی رپورٹ اخبارات میں نظر آئی۔

معلوم ہوا کہ قلعہ کی دیوار کو ایک مرمتی کام کے لئے ٹھیکے پر دیا گیا تھا جس نے تاریخی دروازہ توڑ دیا۔ اس کے ساتھ ساتھ تاریخی دیوار کو بھی گرا کر، ایک طرف اس کا ملبہ جمع کر دیا۔ بعد ازاں دروازے کے حوالے سے اخبارات میں رپورٹ آئی تو ذمہ دار کو تنبیہ کردی گئی اور دروازے کو بہتر طریقے سے نصب کر دیا گیا۔ مگر اس تاریخی دروازے کے توڑنے پر ادبی، صحافتی، تحقیقی، تاریخی و ثقافتی حلقوں سے شدید مذمت ہونی۔

کچا قلعہ

حیدرآباد میں ایک اور بھی تاریخی قلعہ ہے، جس کو کچا قلعہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس قلعے کی تعمیر بھی سندھ کے حکمران غلام شاہ کلہوڑو نے اپنے دور میں کروائی۔ شمس العلماء مرزا قلیچ بیگ نے کچا قلعہ کی تعمیر کا سال 1772 ع درج کیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی معلومات دی ہے کہ اس قلعے کی تعمیر میں بھی پکا قلعہ کے مزدور شامل تھے، جنہوں نے پکا قلعہ کی دو سال میں تعمیر مکمل کرنے کے بعد کچے قلعے کو تعمیر کیا۔ اس قلعہ کو ”کچا“ اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس قلعے کی لمبی لمبی دیواریں مٹی سے تعمیر کی ہوئی ہیں۔

قدیم زمانے کی اینٹوں کا حال موسم کی سختیوں کی وجہ سے ضعیف ہوتا جا رہا ہے۔ اس تاریخی قلعے کا نقشہ اوپر سے دیکھا جائے تو تکونا لگتا ہے۔ قلعے کی اونچی دیواروں کو، پکی اینٹوں کی بنیاد پر کھڑا کیا گیا ہے۔ ڈھائی صدیاں گزرنے کے بعد بھی کچا قلعہ اپنی خوبصورتی برقرار رکھے ہوئے ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ اس قلعے کی بیرونی دیواروں اور سیڑھی پر کئی دکانیں موجود ہیں جن کا کاٹھ کباڑ وہیں رکھا ہوا ہے۔ جس وجہ سے بھی قلعے کی دیواروں کی اصل ساخت کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ کچا قلعہ کے مرکزی دروازے کو مستقل بند کیا گیا ہے، وجہ سمجھہ سے بالاتر ہے۔ سندھ کے اس تاریخی قلعے کو محفوظ بنانے کے لئے متعلقہ محکموں کوشش لینی چاہیے تاکہ سندھ کا یہ تاریخی ورثہ مزید تباہی سے بچ سکے۔

اس قلعے کی دیوار سے متصل ایک چھوٹی باؤنڈری میں بزرگ سید محمد مکی کا مزار ہے۔ اس بزرگ کو مکی شاہ یا شاہ مکی اور جیئے شاہ کے ناموں سے بھی پکارا جاتا ہے۔ سندھ کے مورخین کے مطابق مذکورہ بزرگ مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے تھے اور اسلام کی تبلیغ میں نیرون کوٹ تک آ گئے اور پھر زندگی کے آخری ایام تک انہوں نے اسلام کی روشنی پھیلائی۔ کچا قلعہ کے حوالے سے ”لب تاریخ سندھ“ میں لکھا ہوا کہ کچا قلعہ کی بنیاد اصل میں بزرگ اولیاء شاہ محمد مکی نے ڈالی تھی مگر بعد میں اس کی تعمیر نو غلام شاہ کلہوڑو نے کروائی۔

سندھی لوک ادب میں بھی اس بزرگ کے حوالے سے ایک طویل قصہ ملتا ہے۔ سندھی ادبی بورڈ نے 1964 ع میں ”مشہور سندھی قصا“ کے نام سے ایک کتاب شائع ہوئی جس کو سندھ کے نامور محقق ڈاکٹر نبی بخش بلوچ نے مرتب کیا تھا۔ اس کتاب میں ”مل محمود ائیں مہر نگار“ کے عنوان سے قصہ ملتا ہے۔ ڈاکٹر بلوچ صاحب اس حوالے سے ابتدائی صفحات میں لکھا ہے : ”یہ قصہ سندھ میں قدیم وقت سے رائج ہے اور مشہور درویش شاہ محمد مکی عرف جیئے شاہ (مدفون کچا قلعہ، حیدرآباد، سندھ) سے منسوب ہے۔ اس قصے کی دو روایات ملتی ہیں، جو درج ذیل ہیں۔

بنیادی قصہ غالباً وہی ہے جو رفتہ رفتہ مکانی طور پہ تبدیل ہوا۔ شاہ محمد مکی کی سندھ میں آمد حضرت علی علیہ کے دور خلافت میں ہوئی۔ اس وقت ان کی حاکم وقت راجہ نیرون سے لڑائی اور حضرت علی علیہ کا سندھ میں آ کر ملک محمود کی مدد کرنا، ظاہراً فرضی کہانی ہے جو تاریخی اعتبار سے درست نہیں۔ ”

شاہ مکی کی قبر عام قبروں سے زیادہ لمبی ہے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بزرگ شاہ مکی دراز قد تھے۔ مزار کا گنبد سبز اور سفید رنگ کا ہے۔ اس بزرگ کے مزار کی تعمیر بھی غلام شاہ کلہوڑو نے کروائی تھی۔ سندھ کے اس حکمران نے اپنے عہد میں لاتعداد اولیائے کرام کے مزارات تعمیر کروائے تھے، ان میں سے ایک سید محمد مکی کا مزار بھی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments