متشدد، جنونی زومبیز اور عمران خان کا بیانیہ


سحری کے وقت ایک خبر گردش کرتی دیکھی جس میں ایک شخص اس سیاسی انتہا پسندی کے عہد میں دوران مباحثہ ہونے والے جھگڑے میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھا، خبر سننے کے بعد میں سو گئی۔ میں نے عجیب سا خواب دیکھا کہ میں جیسے تقسیم ہند جیسے کسی عہد میں ہوں، ہر طرف ابتری ہے، ہر نگاہ میں شک و سوال ہیں، ہر جان خطرے میں ہے، ہر طرف لاشیں بکھری ہیں، پہیہ جام ہے، ٹرینیں رک گئی ہیں، قتل و غارت کا بازار گرم ہے، فریقین معرکہ حق و باطل سجائے بیٹھے ہیں۔

جب سے خواب سے جاگی ہوں، دل کو کسی پل چین نہیں ہے۔ میں ماضی پہ نگاہ ڈالتی ہوں تو 2013 ء یاد آتا ہے جب الیکشنز ہونے جا رہے تھے، نواز شریف کے جیتنے کے امکان بہت واضح تھے مگر عمران خان بھی طاقت پکڑ رہے تھے، ان کا پیش کیا تبدیلی کا خواب بہت دلنشیں تھا، دونوں جماعتوں کے باری باری اقتدار میں آنے اور آمریت سے اکتائے لوگ اس طرف جا رہے تھے۔ میں نے بھی ووٹ عمران خان کو ڈالا۔ وہ خیبر پختون خواہ میں جیت گیا مگر ہمارے حلقے سے ہار گیا۔ میرے بچوں نے پوچھا ماں جب آپ کو پتہ تھا کہ یہ ہار جائے گا تو آپ نے اسے ووٹ کیوں دیا، میں نے انہیں سمجھایا کہ ملک میں ایک تیسری قوت توازن اور ان جماعتوں کو لگام ڈالنے کے لیے ضروری ہے، میں مطمئن ہوں کہ ایک تیسری قوت تخلیق ہو گئی ہے۔

اور پھر دھرنا آ گیا، عمران خان جس طرح اسٹیبلشمنٹ کی گود میں بیٹھا کہ دھرنے میں پیسے تقسیم اور پانی پلاتے فوجی کس کو بھولے ہوں گے یہ وقت تھا کہ میں اس سے بدظن ہوتی چلی گئی اور پھر مجھے سمجھ آنا شروع ہوا کہ دراصل یہ کنٹرول ٹاور کا استعمال شدہ کارتوس ہے جسے مخصوص مقاصد کے لیے لانچ کیا گیا ہے اور اس میں مزید ناگواری کا اضافہ اس وقت ہونا شروع ہوا جب میں نے اسے گالی گلوچ کرتے، بدزبانی کرتے، انتہائی غرور اور رعونت بھرے لہجے میں احمقانہ تقریریں کرتے دیکھا۔ وہ اتنی فرسٹریشن میں تھا کہ خالی میدان میں کھڑا ہو کر کنٹینر پہ تقریر کرنے لگتا۔ اس نے نفرت آمیز انتہائی متشدد بیانیہ تخلیق دیا۔ مجھ جیسے شخص کے لیے جسے گالی اور بدزبانی سے نفرت گھٹی میں ملی ہے، یہ غیر متوازن بیانیہ ناقابل برداشت تھا اور پھر وہ دستانے پہنے پوشیدہ ہاتھوں کی مدد سے ملک کا وزیر اعظم بن گیا۔

اور اب اس کی باری تھی، قوم اس کے دکھائے گئے خوابوں کے چورن کے پیچھے دیوانی ہو چکی تھی مگر اس کے باوجود اسے اتنی اکثریت نہیں ملی کہ وہ اکثریت سے حکومت بناتا۔ پرانے بانی ساتھیوں کو وہ چھوڑ چکا تھا اس کے گرد دوسری جماعتوں کے کھائے تھوکے لوگ شامل تھے۔ وہ اسٹیبلشمنٹ کے کندھوں پہ سوار ہو کر حکومت میں آ گیا۔ حکومت میں آنے کے باوجود اس کی زبان صرف زہر اگلتی رہی۔ حماقت، رعونت، غرور و تکبر سے بھری تقریریں، لعنت بھیجتی، بے غیرتی کے طعنے دیتی باتوں ؛کے علاوہ اس کے پاس کچھ نہ تھا۔

مہنگائی کے جن نے لوگوں کی چیخیں نکلوا دیں۔ یہ وہ وقت تھا کہ بہت سے لوگ اس سے تائب و بدظن ہونا شروع ہو گئے۔ حکومت کے انتظام و انصرام کی صورت حال بدترین تھی اور اپنی تمام تر نا اہلی کے باوجود وہ اسٹیبلشمنٹ کے جہاز سے ٹکرا بیٹھا۔ یہ جانے بغیر کہ چھتری اٹھتے ہی وہ دھوپ میں کھڑا ہو گا جہاں بہت سے لوگ اسے چھوڑ جائیں گے مگر اس کے باوجود وہ دست فیض پہ بیعت ہونا چاہتا تھا کہ اگلے الیکشن کو جتوانے کی گارنٹی بہت بڑی تھی۔

یہاں اس کے اور اسٹیبلشمنٹ کے رستے جدا ہو گئے اور ایک پیج پھٹ گیا۔ اس موقعے کا دیگر سیاسی جماعتوں نے فائدہ اٹھایا اور اس کے خلاف عدم اعتماد آ گئی۔ عدم اعتماد پہ اس کی ڈھٹائی اور بار بار آئین شکنی اب کچھ ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ عدلیہ کے واضح فیصلے کے باوجود وہ سیٹ سے چپکا رہا اور اپوزیشن کے ووٹنگ کے مطالبے کو مسترد کرتا چلا گیا۔ برطرفی کا اپنا آئینی حق استعمال کرنے والے سے کون پوچھے کہ اپوزیشن کے حق کا کیا ہوا؟ کون پوچھے کہ وہ آئین کو مسترد کردے تو کون سی قوت آئین کے تحفظ کے لیے اٹھے گی۔ وہ وقت جب مارشل لا کے واضح خطرات منڈلا رہے تھے تو لانے والے ہی اسے جہاز میں بٹھا کر اپنے ساتھ لے گئے۔

اور اب وہ ہذیان اور بدزبانی کی انتہا پہ ہے، وہ غداری کے سرٹیفکیٹ عوام کو ہی نہیں اداروں کو بھی بانٹ رہا ہے اور میرے لیے مقام دکھ یہ ہے کہ اس کا متشدد، جنونی ورکر ہر مخالف رائے رکھنے والے کو غدار وطن سمجھ رہا ہے۔ وہ مذہب کارڈ، غداری کارڈ، سازش کارڈ، اداروں پہ شک سے لے کر ہر چورن بیچ رہا ہے اور ہماری ترسی ہوئی نوجوان نسل اور آئین اور قانون نے نابلد ایک خاص کلاس، اسے بیانیے کو فٹا فٹ خرید رہی ہے۔

اب فوج کے سیاسی کردار پہ بحث کیجیے، سوال اٹھائیے، بصد شوق مگر قومی سلامتی کا یہ ادارہ ناگزیر ہے اسے مانے بنا چارہ نہیں ہے مگر عمران اپنی حماقت سے پولرائیزیشن اور معاشرے میں تفریق کو اس انتہا پہ پہنچا چکا ہے کہ فسادات کے پھوٹ پڑنے کا خدشہ ہے یہ خبر بھی موجود ہے کہ کراچی میں پی ٹی آئی کے دفتر جلائے گئے ہیں۔

اس نے زومبیز کی ایک نسل کھڑی کی ہے :متشدد، جنونی گروہ جو ہر اخلاقی رویے سے عاری ہے اور عمران کو اوتار سمجھتا ہے اور حیرت ہے کہ اس کی تمام تر نالائقی، نا اہلی اور بہت سے سکینڈلز جن میں توشہ خانہ، چینی، آٹے اور ہاروں کے سکینڈل ہیں ؛ کے باوجود اسے ایمانداری کے منصب پہ بٹھاتے ہیں اور باقی سب کو غدار اور چور سمجھتے ہیں۔ انہیں کون بتائے کہ وہ بھی بس عام سیاستدانوں جیسا ایک سیاستدان ہے۔ اسے ماننے والے شوق سے اسے ووٹ دیں مگر یہ حق مخالف فریق کو بھی دیں۔

کیا ان زومبیز کو کوئی سمجھا سکتا ہے کہ ملک کی دیگر پارٹیوں سے وابستہ کروڑوں لوگ ان کی طرح محب وطن ہیں اور ان کو حق حاصل ہے کہ وہ جسے مناسب سمجھیں وہ چنیں اور جو عمران کو لیڈر نہیں مانتا وہ غدار نہیں ہے۔

اب جبکہ فوجی قیادت نے سازش اور ایبسلوٹلی ناٹ کے غبارے سے ہوا نکال دی ہے اور اپنی مکمل غیر جانبداری اور مارشل لا کبھی نہ لگنے کی یقین دہانی کروائی ہے تو کیا یہ وقت نہیں کہ عمران خان اپنے نفرت بھرے بیانیے پہ غور کرے؟

وہ اپنی حماقت اور جنونی کیفیت سے عوام کو بند گلی میں لے آیا ہے جہاں ٹکراؤ کا خطرہ شدید ہے۔ اس کے ماننے والے سامنے کی مثال پہ بھی غور نہیں کرتے کہ جنرل عمر کا ایک بیٹا اسد عمر پی ٹی آئی میں ہے اور دوسرا نون لیگ میں ہے اور وہ دونوں غدار نہیں ہیں۔

ان کو یہ کون بتائے و سکھلائے گا کہ ان کی جماعت ایک فسطائی جماعت بن چکی ہے اور انہیں تہذیب و تربیت کی ضرورت ہے۔ اداروں کے خلاف اس کھلی جنگ میں شکست اس کا مقدر ہوگی اور میں اس سے آخری سوال کرنا چاہوں گی کہ ہم جیسے لوگ جنھوں نے بہت امیدوں سے اسے تیسری قوت بنایا تھا۔ وہ طاقت اب معاشرے کو انتشار کی طرف دھکیل رہی ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ طاقت معاشرے کو منتشر کرے گی یا خود منتشر ہوگی؟

کیا یہ مخلوط حکومت اس کے لیے ایک اچھا موقع نہیں تھا کہ وہ ڈٹ کر اپوزیشن کرتا؟

مگر اس نے پارلیمنٹ کو ربڑ سٹیمپ اور آئین کو کاغذ کا ٹکڑا سمجھا۔ وہ کنٹینر کا سوار ہے یہ سواری اسے خوب آتی ہے اور اب وہ اس آتش میں سب کچھ جھونک کر دوبارہ کنٹینر پر آ کھڑا ہوا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments