پی ٹی آئی کا بیانیہ اور فوج مخالف ٹرینڈز: مبینہ دھمکی آمیز مراسلے سے بات فوج مخالف ٹرینڈز تک کیسے پہنچی؟

فرحت جاوید - بی بی سی اردو، اسلام آباد


عمران خان، تحریک انصاف
’ہمیں باجوہ فار پاکستان نہیں چاہیے‘، ’(جنرل) باجوہ کو سبکدوش ہو جانا چاہیے کیونکہ انھوں نے فوج کا امیج خراب کیا ہے‘، 'آج پاکستان میں ان ریسٹ کے ذمہ دار (جنرل) باجوہ ہیں۔' وغیرہ وغیرہ۔

پاکستان میں یہ بلاشبہ ’ٹوئٹر وار‘ کا ہفتہ تھا، اور یہ جنگ اب بھی جاری ہے۔ امپورٹڈ حکومت نامنظور سے شروع ہونے والا سوشل میڈیا ٹرینڈ جلد ہی ‘سرینڈر باجوہ’ اور ‘باجوہ ٹریٹر’ جیسی ‘خطرناک’ حدود میں داخل ہوا تو کئی اداروں اور ان سے جڑی شخصیات کا ماتھا ٹھنکا۔

جب ڈی جی آئی ایس پی آر یعنی فوجی ترجمان کے آفیشل اکاونٹ سے میزائل کے تجربے کا ٹویٹ کیا گیا تو چند منٹ میں ہی فوج مخالف کمنٹس اور پیغامات کا انبار لگ گیا۔ یہ سب خود فوجی قیادت کے لیے بھی غیر متوقع تھا۔

مگر فوج مخالف یہ ٹرینڈز رکے، نہ ان سے جڑے سوالات۔ یہاں تک کہ عمران خان کی اپیل پر سڑکوں پر آنے والے بڑے عوامی اجتماعات میں کہیں ‘اتنی ویگو کہاں سے لاؤ گے؟’ کے بینرز نظر آئے تو کہیں فوجی ہیڈکوارٹرز کے شہر راولپنڈی میں ‘چوکیدار چور ہے’ کے نعرے گونجے۔

لیکن بات یہاں تک پہنچی کیسے؟

اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان کی حکومت کا خاتمہ تو پارلیمان میں ایک مکمل طور پر آئینی طریقے سے ہوا۔

خود عمران خان اور ان کی پارٹی کی قیادت اپنی حکومت کے خاتمے کا ذمہ دار فوجی قیادت کو نہیں، بلکہ مبینہ امریکی سازش اور اپوزیشن کے گٹھ جوڑ کو قرار دیتے ہیں۔

تو پھر اس سب میں فوج یا آرمی چیف کا ذکر کیوں آیا ہے؟ اس سوال کا جواب ڈھونڈنے سے پہلے یہ بتا دیں کہ فوجی قیادت کے خلاف اس مہم کے آغاز کے بعد سے اب تک کیا کارروائی ہوئی ہے۔

فوجی قیادت کی جانب سے سوشل میڈیا پر چلنے والی اس شدید تنقید اور ‘پراپیگینڈہ مہم’ کا نوٹس لیا گیا اور گرفتاریوں کا آغاز ہوا۔

فوج کی فارمیشن کمانڈرز کانفرنس کے بعد جاری ہونے والے اعلامیے میں کہا گیا کہ ایسے ٹرینڈز کا نوٹس لیا گیا ہے، انھیں فوج کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کی مہم اور پراپیگنڈہ قرار دیا اور یہ بھی کہا کہ یہ مہم عوام اور فوج کے درمیان تقسیم پیدا کرنے کی کوشش ہے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے پریس کانفرنس میں کہا کہ تعمیری تنقید تو برداشت کی جائے گی مگر ‘بے بنیاد کردارکشی قابل قبول نہیں ہے۔ یہ غیر قانونی، غیر اخلاقی اور ملکی مفاد کے خلاف ہے۔’

انھوں نے یہ بھی کہا کہ عمران خان اور آرمی چیف کے درمیان ایک اچھا ذاتی تعلق ہے اور ان کے درمیان کوئی مسائل نہیں ہیں۔

دوسری جانب ایف آئی اے کے ایک اہلکار نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ اب تک سولہ ایف آئی آرز درج ہو چکی ہیں جبکہ سولہ افراد کو ہی گرفتار کیا گیا ہے جو جوڈیشل ریمانڈ پر پولیس کی تحویل میں ہیں۔

ان کے مطابق یہ تمام افراد تحریک عدم اعتماد کے دوران پاکستانی فوج اور عدلیہ کے خلاف پراپگینڈہ میں ملوث پائے گئے ہیں۔ ان میں پنجاب اور اسلام آباد سے چھ، چھ افراد، خیبرپختونخوا سے تین جبکہ کراچی سے ایک شخص گرفتار کیا گیا ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں اسی حوالے سے کیس کی سماعت ہوئی اور عدالت نے ایف آئی اے کو حکم دیا کہ وہ پی ٹی آئی کے ایکٹویسٹس کو ہراساں نہ کرے۔

تحریک انصاف کے عہدیداران کا کہنا ہے کہ ان کی جماعت کے عہدیدار یا حمایتی کسی فوج مخالف، منظم مہم کا حصہ ہیں نہ ہی اس کی حمایت کرتے ہیں۔

اگرچہ پی ٹی آئی کے لیڈران نے خود کو اس مہم سے دور رکھا مگر پی ٹی آئی ہی کے آفیشل ہینڈل سے کہا گیا کہ وہ پی ٹی آئی ایکٹویسٹ جو سمجھتے ہیں کہ انھیں سیاسی نظریات کی بنیاد پر نشانہ بنایا جا رہا ہے یا دھمکیاں مل رہی ہیں وہ انھیں مطلع کریں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ پی ٹی آئی کی لیڈرشپ نے ایسے ٹرینڈز سے روکا بھی نہیں۔

لیکن ہم یہ سوال کر رہے ہیں کہ یہ فوج مخالف بیانیہ کیوں چل رہا ہے؟ پی ٹی آئی کے سپورٹرز کیوں فوجی قیادت کا نام لے رہے ہیں جبکہ عمران خان اور دیگر پی ٹی آئی رہنماؤں نے کسی بھی موقع پر فوج کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا؟

یہ وہی سوال ہے جو سوشل میڈیا پر بہت سے لوگ پوچھ رہے ہیں اور بار بار تاکید کر رہے ہیں کہ اداروں کا اس تمام معاملے سے کوئی تعلق نہیں لہٰذا انھیں اس مہم کا حصہ نہ بنایا جائے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے دوٹوک انداز میں کہا کہ نیوٹرل کی بجائے ‘غیرسیاسی’ وہ لفظ ہے جو فوج کو بیان کر سکتا ہے۔

تاہم ان سب باتوں کا جواب ان کے پاس موجود ہیں جو ان ٹرینڈز کا حصہ ہیں یا وہ جو ٹرینڈز کا حصہ تو نہیں مگر پی ٹی آئی سپورٹرز کی طرح فوجی قیادت کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔

واضح رہے کہ یہ ان کی رائے تو ہو سکتی ہے مگر اس تمام معاملے میں خود فوجی قیادت کے ملوث ہونے کے ثبوت موجود نہیں ہیں۔

بی بی سی نے اس بارے میں صحافی وقاص احمد سے بات کی جن کی ٹائم لائن پر مسلسل فوجی قیادت پر سوال اٹھائے گئے ہیں۔

’رات کے بارہ بجے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا گیا اور وہ کھل گیا‘

پاکستان

وقاص احمد کہتے ہیں کہ وہ پی ٹی آئی کے حمایتی نہیں ہیں نہ ہی ان کا پی ٹی آئی کی لیڈرشپ سے تعلق یا رابطہ ہے مگر وہ سمجھتے ہیں کہ تحریک انصاف کے نظریات دیگر جماعتوں سے بہتر ہیں لہٰذا وہ اس کے حامی ہیں۔

ہم نے ان سے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ فوجی قیادت کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، تو انھوں نے اس خط کا حوالہ دیا جس کو سابق وزیراعظم عمران خان بیرونی سازش کے ثبوت کے طور پر پیش کرتے ہیں۔

وقاص کہتے ہیں ‘وزیراعظم نے نیشنل سیکورٹی کمیٹی کے سامنے خط رکھا۔ یہاں تینوں مسلح افواج کے سربراہان موجود تھے۔ انھوں نے تسلیم کیا کہ خط کے مندرجات پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کے زمرے میں آتے ہیں۔ میں نہیں جانتا کہ اس خط میں کیا ہے مگر جب تینوں سربراہاں مان گئے اور اس کے بعد تحریک عدم اعتماد آتی ہے اور پھر بھی آپ ووٹ ہونے دے رہے ہیں تو یہ باتیں ایک دوسرے سے متصادم ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ‘آپ اس (ووٹ) کو کیسے آگے بڑھنے دیتے ہیں؟ اگر واقعی مداخلت ہوئی ہے تو تحریک عدم اعتماد کا نتیجہ کیسے مانا جا سکتا ہے۔ لوگوں کو اسی بات کا غصہ ہے۔ لوگ مہنگائی برداشت کر لیتے ہیں مگر اپنی خودمختاری پر سمجھوتہ نہیں۔ یہ ایٹمی دھماکوں کے بعد معیشت پر پابندیاں برداشت کرنے والی قوم ہے کیونکہ ہم نے خود مختاری پر سمجھوتہ نہیں کرنا۔’

یہ بھی پڑھیے

کیا فوج نے خود کو عمران خان کے بیانیے سے دور کر لیا ہے؟

قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے اعلامیے میں سازش کا لفظ استعمال نہیں ہوا: ڈی جی آئی ایس پی آر

عمران خان کے خلاف ’غیر ملکی سازش‘ یا الیکشن کی تیاری؟

’ہماری امریکہ سے بہترین سٹریٹجک تعلقات کی طویل تاریخ ہے‘: جنرل قمر باجوہ

وہ کہتے ہیں کہ ‘جب وزیراعظم کہہ رہا ہے کہ سازش ہو رہی ہے تو اس کی تحقیقیات تو کریں۔ پھر اگر وزیراعظم جھوٹ بول رہا ہے تو اس کو سزا دی جائے۔ لیکن یہاں تک نوبت ہی نہیں آئی۔ اس طرح ہمیں کچھ شواہد ملتے ہیں آرمی چیف کی مداخلت تھی۔ جہاں تک پارلیمانی طریقے سے حکومت ہٹانے کی بات ہے تو اس میں بھی غیرقانونیت آئے گی تو نتیجہ درست نہیں مانا جا سکتا۔‘

انھوں نے کہا کہ ‘مثلاً آپ صرف یہی ثابت کردیں کہ ووٹ کے لیے کچھ جماعتوں کو پیسے دیے گئے، تو وہیں یہ پورا عمل فارغ ہو جائے گا۔ ہارس ٹریڈنگ جیسے معاملات ایجنسیاں نوٹ کر رہی ہوتی ہیں تو عمران خان کو کیوں نہیں بتایا گیا؟ جو معلومات عمران خان کو آبپارہ (آئی ایس آئی) سے ملنی تھیں وہ انھیں سفیر سے ملیں۔’

وہ یہ دلیل بھی دیتے ہیں کہ فوجی قیادت پر سوال اٹھانے والے لوگ عمران خان کی بات نہیں سن رہے۔ ‘عمران خان یا تحریک انصاف کی لیڈرشپ نے تو فوج کے خلاف کوئی بات نہیں کی۔ یہ لوگوں کا اپنا تجزیہ ہے۔ جو آپ کی خبروں کو پڑھ کر نتیجے پر پہنچتے ہیں۔ خود بی بی سی کی خبر ہے کہ سنیچر کی رات کیا ہوا اور اگر وہ سچ ہے کہ آرمی چیف نے وزیراعظم کی حکم عدولی کی ہے۔ پھر رات کے بارہ بجے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا گیا اور وہ کھل گیا۔’

خیال رہے کہ ان تمام ٹرینڈز اور عوامی اجتماعات میں صرف فوجی قیادت کو ہی نہیں بلکہ سپریم کورٹ کے ججز کو بھی نشانہ بنایا گیا اور خاص طور پر چیف جسٹس کی تصاویر شیئر کی جاتی رہیں۔

وقاص احمد سمجھتے ہیں کہ ‘ہائی کورٹ کا دروازہ آرمی چیف کو عہدے سے ہٹانے کے خلاف پٹیشن پر کھلا۔ آرمی چیف نے اپنی نوکری بچانے کے لیے رات کے بارہ بجے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔ یہ سازش نہیں ہے، یہ دستاویزی ثبوت کے ساتھ موجود ہے۔’

وقاص احمد کے علاوہ ہم نے پی ٹی آئی کے چند سپورٹرز اور ان کے سوشل میڈیا ٹیم کے ممبران سے بھی رابطے کیے۔ مگر ان کی جانب سے یہ کہہ کر معذرت کر لی گئی کہ انھیں شدید دباؤ اور دھمکیوں کا سامنا ہے اس لیے وہ آف دی ریکارڈ بھی بات کرنے کو تیار نہیں ہیں۔

لیکن سوشل میڈیا سے شروع ہونے والا یہ بیانیہ کیا عوامی سطح پر تحریک انصاف کو کامیاب کرے گا؟ اور کیا پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ایک عوامی بیانیہ پیدا کرنا دراصل واپسی کی کشتیاں جلانے کے مترادف ہے؟

ان سوالوں کا جواب جاننے کے لیے بی بی سی نے صحافی اور اینکرپرسن فریحہ ادریس سے بات کی۔

‘عمران خان نے آف دی ریکارڈ بھی نہیں کہا کہ انھیں نکالنے والوں میں اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ ہے’

وہ کہتی ہیں کہ عمران خان کی ایک کال پر لوگ پاکستان کے مختلف شہروں اور دیگر ممالک میں بھی جہاں کہیں پاکستانی آباد ہیں، سب باہر نکلے۔

‘یہ تمام عمل نہایت آرگینک تھا۔ لیکن پاکستان تحریک انصاف کا ماضی میں اور آج بھی جو بیانیہ ہے، وہ کبھی بھی اسٹیبلشمنٹ کو نشانہ نہیں بناتا۔ وہ (عمران خان) ایک ملک کی طرف سے بیرونی سازش کا ذکر کرتے ہیں۔ انھوں نے کھل کر کبھی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف کوئی موقف لیا ہے اور نہ ہی لیں گے۔‘

’ان سے ہونے والی ملاقاتوں میں صحافیوں نے بار بار پوچھا مگر عمران خان نے آف دی ریکارڈ بھی نہیں کہا کہ انھیں نکالنے والوں میں اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ ہے۔ لیکن لوگ نکتے ملاتے ہیں تو وہاں تک پہنچتے ضرور ہیں۔’

فریحہ ادریس کہتی ہیں کہ ’پاکستان کی سیاست میں پیپلزپارٹی کے علاوہ مسلم لیگ نواز اور تحریک انصاف کبھی بھی اسٹیبلشمنٹ مخالف نہیں رہے اور موجودہ سیاست میں کوئی بھی سیاسی جماعت یہاں اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ لے کر عوام کے پاس نہیں جائے گی: ‘ہاں یہاں بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ کی بات ضرور ہو رہی ہے۔ دوسرا ابھی ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس سے یہ جو بیانیہ چل رہا ہے اس کو ایک دھچکا ضرور لگا ہے۔ ‘

وہ کہتی ہیں کہ پی ٹی آئی تیسری قوت اور ایک بھرپور نیشنلسٹ اپروچ کے ساتھ منظرعام پر آنے والی سیاسی جماعت ہے اور یہی وجہ تھی کہ اس کو اسٹیبلشمنٹ سے مکمل حمایت ملی،

‘اگر آپ کے نظریات ملک کے نظریات سے جڑے ہیں تو جب آپ ان سے اچانک علیحدہ ہونے کی کوشش کریں گے تو پارٹی کے اندر سے بھی بہت سخت ردعمل ہو گا اور یہ بات تحریک انصاف کی لیڈرشپ سمجھتی ہے۔‘

‘آج جو بیانیہ ہے یہ دباؤ ڈالنے کے ایک طریقہ تو ہو سکتا ہے۔ مگر یہ اہم ہے کہ تحریک عدم اعتماد میں شکست کے بعد تحریک انصاف کا دوسرا ہدف الیکشن جلدی کرانا ہے۔ اس لیے میرا نہیں خیال کہ ان حالات میں وہ کھل کر اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیے کی جانب جائیں گے اور اگر ایسا کرتے ہیں تو وہ اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہو گا۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32296 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments