سو جوتے مارنے کی کہانی


یہ قصہ آج سے کم از کم پچیس سال پہلے کا ہے۔ جو گھر کا سر پرست اور ان بچوں کا باپ اکثر سنایا کرتا تھا۔ اس وقت لوڈ شیڈنگ اکثر ہوتی تھی اور دیہاتوں کے لئے بجلی صحیح معنوں میں ایک عیاشی سمجھی جاتی تھی۔ اور جن شہری علاقوں کے فیڈرز دیہی آبادیوں کے ساتھ ہوتے، تو ان کو بھی زیادہ تر بجلی کی گمشدگی کا سامنا کر کے اس پر فاتحہ پڑھنی پڑتی۔ ڈھلتی شامیں تو بیشتر تاریکی میں ڈوبی ملتیں۔ لالٹینیں، دیے اور موم بتیاں گاؤں کے علاوہ شہری زندگی کا بھی ضروری حصہ تھے۔

بات کو مختصر کرتے ہیں۔ ادھر سورج ڈھلا، ادھر گھپ اندھیرا۔ یہ کم و بیش روز کا معمول تھا اور ہر گھر میں موجود روشنی کے ذرائع جل اٹھتے۔ اس گھر میں زیادہ تر لالٹین جلتی تھی جس کو مینٹین کرنے کی ذمہ داری کسی نہ کسی بچے کی ہوتی تھی۔ اور جب لالٹین کا کوئی مسئلہ ہوتا تو موم بتی کی باری آتی تھی۔ اگر سردی ہو تو سارے افراد گھر کے بڑے کمرے میں بیٹھ جاتے تھے۔ ورنہ گرمی میں صحن یا چھت زندہ باد۔ تب ان وقتوں میں والد صاحب بچوں کو کسی صحت مندانہ سرگرمی کروانے کے لئے یا تو کسوٹی کسوٹی کھیلتے (یاد رہے تب پی ٹی وی پر عبید اللہ بیگ، غازی صلاح الدین اور قریش پور کا کسوٹی پروگرام چلا کرتا تھا) یا شعر و شاعری ہوتی یا پھر کہانی گوئی۔

پتہ نہیں کہانی دلچسپ تھی یا کہانی گو کا انداز یا شاید اتنی دفعہ سنائی اور سنی گئی کہ آج تک اس کے نقش یادداشت میں ہیں۔ اگر کچھ لمحے آپ کو میسر ہوں تو آئیں میں اس کہانی کو دوبارہ لکھتی ہوں جس کا مرکزی کردار ایک بادشاہ اور اس کے وزیر مشیر تھے۔

پرانے وقتوں کی بات ہے ایک بادشاہ اپنی رعایا پر بڑا مہربان تھا۔ لوگوں کو راشن پانی کی تقسیم مفت ہوتی تھی۔ جس کے لئے کچھ نمائندے مقرر تھے۔ جن کا کام سارا دن عوام کو ضروریات کی مسلسل فراہمی تھی۔ لوگ سارا دن قطاروں میں کھڑے اپنے لئے مال و اسباب اکٹھے کرتے رہتے۔ اپنی باری کے انتظار میں صبح سے شام ہو جاتی۔

ان ساری خوبیوں کے ساتھ بادشاہ کی ایک خرابی تھی کہ کرم تو کرتا لیکن ساتھ منتظم کی ذمہ داری ہوتی کہ ہر سوالی کی حاجت تو پوری ہو لیکن اس کے سر پر دس جوتے مارے جائیں۔ جوتے مارنے کی گنتی ایک سے شروع ہوئی تھی۔ جو بڑھتے بڑھتے دس تک پہنچی تھی۔ سلسلہ چلتا رہا۔ مہربانیوں کے در ذلت کی آمیزش کے ساتھ کھلے رہے۔ کھانے کو روٹی، رہنے کو ٹھکانہ، پہننے کو کپڑے ملتے تھے تو لمبی لائنوں میں پورا دن لگے رہنا، دو چار جوتے کھا لینے میں کیا مضائقہ تھا۔

اتنا تو دینے والے کا حق تھا اور لینے والے کے نخرے کچھ نا مناسب۔ ایک دن یوں ہوا کہ عالی جاہ کو جلال آ گیا اور جوتوں کی تعداد یک بہ یک دس سے سو کرنے کا اعلان ہو گیا۔ لیکن مارنے والے وہی گنتی کے دو تین۔ مار مار کے تھک جاتے لیکن مار کھانے والے خوشی خوشی، بے چوں چرا خود کو پٹواتے رہتے۔ منتظمین میں سے روز کوئی نہ کوئی بادشاہ کے خوش گوار لمحوں میں جوتوں کی گنتی کم کرنے کو کہتا تاکہ ان کی جان خلاصی روزانہ جلدی ہو جایا کرے لیکن جب حضور کو یہ پتہ چلتا کہ عوام کی طرف سے کوئی شکوہ شکایت نہیں تو وہ ان کی درخواست بھی گھوری کروا کے مسترد کر دیتا۔

غرض کئی دن یہ سلسلہ چلتا رہا۔ لیکن کوئی احتجاج سامنے نہ آیا۔ مقرر وزیروں کی بس ہونے لگی تو ایک دن اتنے بڑے ہجوم میں سے کچھ لوگ مل کے وزیر کے پاس آئے کہ ایک منت کرنے آئے ہیں۔ دل ہی دل میں وزیر بے حد خوش ہوا کہ چلو ان پتھروں میں بھی کوئی سوراخ ہوا۔ اب ہماری سختی بھی کم ہو جائے گی ورنہ ہر دن کا اختتام ہڈیوں میں درد اور اعصاب کے کھنچاؤ پر ہوتا۔ وزیر کی رضامندی پا کے ان میں سے ایک بولا۔

جناب! عرض یہ تھی کہ۔
وزیر: کیا سامان کی مقدار کم ہے؟
جواب آیا نہیں۔
وزیر: تو پھر کوئی ناروا سلوک ہوتا ہے؟
بالکل نہیں مائی باپ۔
وزیر: تو پھر؟
جناب! ہماری درخواست ہے کہ آپ بادشاہ سلامت سے کہہ کر جوتے مارنے والوں کی تعداد بڑھا دیں۔
وزیر: جو کچھ اور سننے کا متمنی تھا۔ حیرانی سے پوچھتا ہے۔ کیوں؟

محترم! دراصل ہمیں جوتے کھانے سے مسئلہ نہیں۔ لیکن چوں کہ مارنے والوں کی تعداد بہت کم ہے تو باری بڑی دیر بعد آتی ہے۔ اگر زیادہ لوگ ہوں گے تو ہم بھی جلدی فارغ ہو جائیں گے۔

وزیر: حق دق منہ دیکھتا رہ جاتا۔

کہانی کہنے والے یعنی والد صاحب یہاں تک پہنچ کر ہمیشہ خاموش ہو جاتے تھے۔ چند گھڑیوں کے توقف کے بعد وہ بچوں سے سوال کیا کرتے کہ تمہیں کہانی سے کیا سبق ملا؟

اگر آپ کسی کے سب سے محترم حصے (یعنی سر) کو نشانہ بنا لو تو وہ پھر مشکل سے ہی دوبارہ اٹھتا ہے۔ پہلی آواز آتی۔

عزت نفس اور خودداری جیسی اخلاقی اجناس کی قیمت روز کے آٹے چاول کی ضروریات سے اوپر ہے۔ دوسری آواز کی رائے۔

پیٹ کے غلام کبھی بھی سوچ کی آزادی اور تخیل کے پرواز کی مشقت نہیں کرتے۔ تیسری آواز کا تجزیہ۔

بڑی اڑان کو روکنے کے لئے چھوٹی اور مادی اشیاء کی لذت اور فائدے میں عوام کو الجھا دو۔ ہجوم کبھی بھی قوم نہیں بن سکے گا۔ چوتھی آواز کی سنجیدہ رائے۔

بندر کے تماشے میں ڈگڈگی بجانے والے اور لوگوں کی زندگی میں جوتے مارنے والے بدلتے رہتے ہیں لیکن اصل مداری اور حاکم کوئی اور ہوتا ہے۔ پانچویں ذہین آواز۔

ظالم کا ظلم و جبر تب تک نہیں بدلے گا جب تک مظلوم اپنا سر نہ اٹھائے یا اپنی آواز نہ بلند کرے۔ چھٹی گہری آواز۔

اتنے سالوں میں کہانی گو بدل جاتا ہے۔ جوانی سے بڑھاپے کی دہلیز پر آ کھڑا ہوتا ہے۔ کہانی سننے والے بدل جاتے ہیں۔ لیکن اگر کہانی نہ بدلے تو بڑی تکلیف کی بات ہے۔ کیونکہ ہر دور میں جوتے مارنے اور کھانے والے موجود ہوتے ہیں۔ ان کی شکلیں بدلتی ہیں۔ طریقہ کار بدلتے ہیں۔ لیکن مداری اور لگامیں گھمانے والے نہیں بدلتے۔ اسی لئے کہانی کو بدلنے کے لئے جوتے کھانے والے کو بدلنا ہو گا۔ ہاتھ کو روکنے کا فن سیکھنا ہو گا۔ آواز کو بلند کرنے کا ہنر آزمانا ہو گا۔ اور سب سے بڑی بات جوتے مارنے والوں کی رنگی برنگی صورتوں کو پہچاننا ہو گا ورنہ منہ پر لگنے والے جوتوں کی تعداد بڑھتی رہے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments