شہر سنسان ہو گیا اپنا


شادی کی رسم اور تقریبات ختم ہونے کے بعد دولہا دلہن کو ہنی مون کی بجائے اپنی ڈسپنسری جانا پڑا کیونکہ وہاں پر ایک غریب بارہ سال کی بچی کو سر پر چوٹ لگنے سے خون کی بوتلیں لگانی تھیں۔

یہ نیا شادی شدہ جوڑا کوئی اور نہیں بلکہ عبدالستار ایدھی اور بلقیس ایدھی تھے۔ بلقیس ایدھی صرف 19 برس کی تھیں جب ان کی شادی ایدھی صاحب سے ہوئی۔ ایدھی صاحب اس وقت 38 برس کے تھے۔

جب بلقیس ایدھی سے پوچھا گیا کہ آپ دونوں کو شادی کے فوراً بعد ڈسپنسری جانا پڑا تو انہوں نے جواب دیا کہ اس لڑکی کی زندگی بچ گئی، یہی ہمارا ہنی مون تھا۔ اب وہ لڑکی ماشاءاللہ شادی شدہ ہے اور ایک خوشگوار زندگی گزار رہی ہے۔

بلقیس ایدھی بھی اس دنیائے فانی سے کوچ کر گئی۔ بلقیس ایدھی جھولا پراجیکٹ کی انچارج تھیں جس نے تقریباً 42 ہزار بچوں کو ایک نئی زندگی دی اور ان کی پرورش کی۔ اقبال نے ایدھی اور بلقیس ایدھی جیسے لوگوں کے لئے ہی کہا تھا،

آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے

ایک وقت تھا کہ ہمارے معاشرے میں لوگ اپنے بچوں کو کچرا کنڈی اور اسپتال اور دیگر جگہوں پر خاموشی سے چھوڑ کر آ جاتے تھے۔ ان بچوں میں سے 90 فیصد لڑکیاں ہوتیں تھیں۔ ایدھی صاحب نے ان بچوں کے لئے ایدھی جھولا گھر کا آغاز کیا تھا۔

ایدھی صاحب کہتے تھے ”پیدا ہونے والے بچے کو ناجائز مت کہو۔ جو بچہ پیدا ہوا ہے وہ آپ کا جائز بچہ ہے۔ مولوی مجھے بے دین کہتے ہیں، کہنے دو“ ۔

ایدھی صاحب اور بلقیس ایدھی ان بچوں کے ماں اور باپ تھے۔ باپ کے خانے میں ایدھی اور ماں کے خانے میں بلقیس کا نام لکھواتے۔

بلقیس ایدھی نے پوری زندگی ایدھی صاحب اور ان کی خیراتی تنظیم کے لئے وقف کر دی۔ کس عورت کا دل نہیں کرتا کہ وہ مہنگے اور اچھے کپڑے پہنے، سفر کرے اور ایک آرام دہ زندگی گزارے لیکن بلقیس ایدھی کی زندگی کا مقصد صرف دکھی انسانیت کی خدمت تھا۔

وہ خود بھی ایک نرس تھیں اور ایدھی صاحب نے بلقیس ایدھی کی انسانیت کے لئے کچھ کر گزرنے کے جذبے کو دیکھتے ہوئے ہی، ان سے شادی کی تھی۔ آخری دم تک وہ ایک دو کمرے کے اپارٹمنٹ میں مقیم تھیں جو ان کی خیراتی تنظیم کے احاطے ہی میں تھا۔

بلقیس ایدھی ایک ٹی وی انٹرویو میں ایک دلچسپ واقعہ بتاتی ہیں کہ ایک مرتبہ وہ اور ایدھی صاحب کسی شادی میں شرکت کے لئے اندرون سندھ کا سفر کر رہے تھے۔ رات کا وقت تھا کہ اچانک کچھ ڈاکوؤں نے ان کی گاڑی کو روک لیا۔

ڈاکو ان کی گاڑی کو کچے کی طرف لے آئے جہاں پہلے سے کئی اور گاڑیاں کھڑی ہوئی تھیں اور ڈاکوؤں کے ساتھی ان سے لوٹ مار میں مصروف تھے۔ کچھ ڈاکو ان کی طرف آئے اور ڈرائیور اور ان کے بٹوے اور پرس خالی کروا لئے۔

اچانک ایک ڈاکو کی نظر ایدھی صاحب پر پڑی اور غور سے انہیں دیکھنے کے بعد ایک جیپ کی طرف گیا۔ جیپ میں بیٹھے شخص کو اس نے کچھ بتایا۔ جیپ میں بیٹھا شخص نیچے اترا اور ایدھی صاحب کی طرف آیا اور چہرے پر ٹارچ کی روشنی ڈالی اور پوچھا کیا آپ عبدالستار ایدھی ہیں؟ جواب ہاں میں ملا تو ڈاکوؤں کا سردار ایک دم پریشان ہو گیا۔

ڈاکوؤں کے سردار نے حکم دیا کہ تمام گاڑیوں سے لوٹا ہوا مال واپس کر دو اور سب کو جانے دو۔ اس کے بعد اس ڈاکو نے ایدھی صاحب کے ہاتھ چومے اور معافی مانگی۔

مزید حیرانی کی بات یہ ہے کہ اس ڈاکو نے ہمیں رخصت کرتے وقت بیس لاکھ کی رقم بطور چندہ ایدھی صاحب کے حوالے کی۔ ایدھی صاحب کے انکار پر بولا ”سر جب میرے جیسے گنہگار پولیس مقابلے میں مارے جاتے ہیں تو ہمارا کوئی رشتہ دار لاش تک قبول نہیں کرتا اور آپ ہی ہماری لاشوں کو غسل، کفن اور دفناتے ہیں، انکار مت کیجئے گا“ ۔

جب انسان کو زندگی میں اتنی عزت مل جائے تو پھر دولت، شہرت اور عہدوں کی کیا اوقات۔ یہ وہ لوگ تھے جو اپنے ہاتھوں سے ان لاشوں کو غسل دیتے جن کو لوگ تعفن کی وجہ سے کئی گز دور سے کھڑے ہو کر دیکھتے۔ جنہوں نے ہزاروں بچوں، بیواؤں اور یتیموں کی پرورش کی اور ان کو چھت فراہم کی۔

ایدھی صاحب اور بلقیس ایدھی کو متعدد ایوارڈز سے نوازا گیا۔ ایشیا کی سب سے بڑی ایمبولینس سروس کا اعزاز بھی ایدھی ایمبولینس سروس کے پاس ہے۔

ایدھی صاحب کہتے تھے کہ بہت لوگ مجھے طعنہ دیتے تھے کہ آپ اپنی ایمبولینس میں عیسائیوں اور ہندوؤں کو کیوں لاتے ہیں؟ میں ان سے کہہ دیتا کہ میری ایمبولینس تم سے زیادہ مسلمان ہے ”۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments