چوہدری رشید کے سو روپے مجھے ٹکنے نہیں دیتے


سنہ 80 کے عشرے کے اوائل میں لیہ میں ہماری آمد کونجوں کی بے موسمی ہجرت کی طرح تھی، خاندان ابھی ڈجکوٹ میں تھا اور گندم کی کٹائی کے بعد مسافری کا منتظر تھا لیکن مجھے مارچ میں سکول داخلے کے لیے فتح پور کے اس نواحی میں بھیج دیا گیا کہ جہاں میرے چار ماموؤں میں سے ایک ماموں مقیم تھے اور جہاں سے سکول کا فاصلہ دس کلومیٹر تھا

ڈجکوٹ کے مقابلے میں، سکول جانے سے لے کر زندگی کے باقی معاملات تک، ہر چیز میں زمین آسمان کا فرق تھا، معاشرت، معیشت اور نفسیات ہر چیز تلپٹ ہو گئی تھی۔ جن مشکلات سے واسطہ پڑا وہ شریکے سے بیزار والد صاحب کے وہم و گمان میں بھی نہ تھیں۔ شاید وہ جس طرح کے دھند آلود خواب لے کر آئے تھے ان کا یہی انجام ہونا تھا۔

گاؤں 295 ٹی ڈی اے میں کوئی ایسا نہ تھا کہ میں جس سے اپنے وجود پر گزرتی رتوں کی کہانی کہ سکتا، یہ کہانی اب بھی ان کہی ہے، اسے لکھتے وقت شاید مجھے بہت سی ایسی کیفیات سے گزرنا پڑے جن کا سامنا دن بدن مشکل محسوس ہو رہا ہے

حاجی عبد الجمید کے ڈیرے پر مسجد اور مدرسہ واحد ایسی جگہ تھی جہاں میں تنہائی سے کچھ دیر کو چھٹکارا پا سکتا، مسجد میں نماز پڑھنے اور مدرسے کے طالب علموں سے ملنے اور بات چیت سے مجھے سکون ملتا۔ حاجی مجید میرے ننھیال کے دور کے رشتے دار تھے، میرے نانا کے ایک کزن کے گھر ان کی چچا زاد بہن تھیں، اس ناتے ہم انہیں نانا اور ان کے بیٹے رشید کو ماموں کہا کرتے تھے۔

رشید غلہ منڈی میں آڑھت کرتے تھے، موٹر سائکل پر آتے جاتے، 1983 کے الیکشن میں کونسلر منتخب ہوئے، جوان اور خوبرو تھے، اور ہر خاص و عام کے محبوب بھی، خاندانی تربیت کا اثر تھا کہ صاحب ثروت ہو کر بھی مزاج میں انکساری تھی، اگرچہ ہر شخص انہیں چوہدری صاحب کہ کر مخاطب کرتا تھا مگر جب خود کسی سے فون پر بات کرتے تو مخاطب کے کانوں میں ان کی انکسار بھری آواز گونجتی

”بھائی جی رشید عرض کر رہیاں“ اور اس عاجزی میں تصنع اور بناوٹ نام کو نہ ہوتے، آج کل کے چوہدریوں کی نسبت ان کا ظرف اور دستر خوان دونوں وسیع تھے۔

میٹرک کے امتحانات قریب آئے تو میں اور گاؤں کے دو اور نوجوان ان کی دکان کے چوبارے پر رہنے لگے، کرایہ کس نے لینا تھا، ان کو یہی خوشی بہت تھی کہ میرے گاؤں کے نوجوان میٹرک تک پہنچ چکے ہیں، سو کسی نہ کسی بہانے ہمارے لیے کچھ نہ کچھ لاتے رہتے

رزلٹ والا دن آیا تو مجھے پیغام بھیجا کہ رزلٹ کے بعد مجھے مل کر جانا، میرے پہنچنے سے پہلے ہی انہیں میرے میٹرک کے نمبر معلوم ہوچکے تھے، چہرے سے خوشی یوں ظاہر تھی جیسے خود کامیاب ہوئے ہوں، سو روپے والی گڈی نکالی اور کہا ”یہ لو اپنا انعام، میرے لیے رقم تو بڑی تھی ہی مگر یہ احساس بہت قیمتی تھا کہ کوئی میری کامیابی پر اتنا خوش ہے۔ وہ سو روپے مجھے کبھی نہیں بھولے، وہ ہمیشہ میرے ساتھ ساتھ رہے اور ان کے ساتھ وابستہ احساس کو میں نے ہمیشہ آگے تقسیم کرنے کی کوشش کی، گاؤں کے سکول سے لے کر یونیورسٹی اور پھر کالج، جہاں جہاں میں استاد رہا، اداس اور بچھڑے ہوئے طلباء کے چہروں پر خوشی لانے کی جدوجہد کرتا رہا۔ مجھے ہمیشہ یہ لگا کہ وہ سو روپے اور ان سے وابستہ احساس ایک ایسا نیوندرا (نیوتا) ہے جسے میں نے ہمیشہ آگے کی طرف بڑھانا ہے، اس قرض کو وادھے کے ساتھ (بڑھا کر) اتارنا ہے۔

اس احساس کو بڑھاوا اپنے بچوں کی کامیابیوں نے بھی دیا ہے، بڑی بیٹی میڈیکل کالج کی سٹوڈنٹ ہے، چھوٹے بھی کالج اور سکول میں احسن انداز سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ ہمیشہ اپنے گاؤں، دوستوں اور ملنے والے احباب کے بچوں کے لیے اپنے بچوں سے بڑھ کر کامیابیوں کی خواہش رکھی ہے کہ لائق اور باصلاحیت بچے ہمارے معاشرے کا مشترکہ سرمایہ ہیں، ہمیشہ یہ بھی دعا رہی ہے کہ میرے زیر تعلیم رہے بچوں کے سلسلے میں مجھ سے جو کوتاہیاں ہوئیں رب سچا ان کے لیے مجھے معاف فرمائے۔

بات چلی تھی چوہدری رشید صاحب کے ان سو روپوں کی کہ جو میری ساری زندگی میرے لیے ترغیب اور تحریک کا باعث رہے، وہ نیوندرا جو مجھ پر ہمیشہ واجب الادا رہا، دعا اور کوشش ہے کہ رب سچا مجھے کسی منظم انداز سے اس نیوندرے کو آگے بڑھانے کی توفیق دے کہ اس نیوندرے (نیوتے ) کے سو روپے مجھے ٹکنے نہیں دیتے، وہ مجھ سے ”وادھے کے ساتھ“ (بڑھا کر) نیوندرا (نیوتا) دینے کے متقاضی ہیں۔ اور اس طرح کے تمام نیوندرے ہم سب کے پاس اپنی آنے والے نسلوں کی امانت ہیں۔

طارق گجر

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

طارق گجر

طارق گجر بنیادی طور پر پنجابی شاعر اور افسانہ نگار ہیں، تقسیم پنجاب ان کی تخلیقی شخصیت کا ہمیشہ سے محرک رہا ہے۔ وہ ان پنجابی لکھاریوں میں شمار ہوتے ہیں جنہوں نے 1947 کے بعد پنجابیوں کو درپیش شناختی بحران کے حوالے سے قابل قدر تخلیقی کام کیا ہے۔ اس حوالے سے ان کی شاعری کی کتاب ”رت رلے پانی“ قابل ذکر ہے۔ پچھلے چند سالوں سے انہوں نے پنجاب کی تقسیم کے عینی شاہدین کے انٹرویوز کے ذریعے تقسیم پنجاب کے سلیبسی نقطہ نظر کے متوازی پنجاب کے عوام کا نقطہ نطر سامنے لانے کے سلسلے میں بھی کام کیا ہے۔ طارق گجر جمہوریت، مکالمے، صنفی برابری اور آزادیٔ رائے پر کامل یقین رکھتے ہیں اور پاکستانی میں بسنے والی اقوام کے درمیان مکالمے کے لیے کوشاں رہتے ہیں

tariq-mahmood-gujjar has 10 posts and counting.See all posts by tariq-mahmood-gujjar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments