دانتوں کا علاج: خطرات اور احتیاطیں


یہ کافی عرصہ پہلے کی بات ہے جب ہم اپنے شو روم میں بیٹھے ہوئے تھے۔ ایک نیم حکیم (ڈینٹل ٹیکنیشن) اندر داخل ہوا، کچھ سامان خریدا اور ادھر ادھر دیکھنے کے بعد سر کھجاتے ہوئے بولا ”یار آپ سے ایک مشورہ کرنا تھا“

میں نے کہا ”جی حکم کیجیے، میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں“ وہ بولا ”میرا ایک مریض امپلانٹ کروانا چاہتا ہے اور مجھ سے ہی کروانا چاہتا ہے کیوں کہ اسے مجھ پر بہت اعتبار ہے۔ میں نے ہرچند اسے منع کیا کہ یہ ذرا پیچیدہ کام ہے، اس کے لیے مجھے کسی ڈینٹل سرجن سے بات کرنی ہوگی، مگر وہ اپنی بات پر اڑا ہوا ہے، اب آپ بتائیں میں کیا کروں؟ اب مجبوراً یہ امپلانٹ تو مجھے کرنا ہی پڑے گا نا۔ آپ مجھے بس تھوڑا طریقہ سمجھا دیں کہ اس کے لیے کیا کیا چیزیں درکار ہوں گی اور یہ امپلانٹ والا دانت فکس کیسے کرنا ہو گا؟“

میں نے کہا ”دیکھیے محترم! آپ کیوں چند ہزار روپوں کی خاطر کسی کی زندگی کو داوٴ پر لگانے پر تلے ہوئے ہیں۔ بہ ظاہر آسان نظر آنے والے امپلانٹ میں بہت سی پیچیدگیاں ہو سکتی ہیں اور ہوتی بھی ہیں، آپ مریض کو صاف انکار کر دیں یا اسے سرجن کے پاس لے جانے پر راضی کریں“

خیر میری طرف سے مایوس ہونے کے بعد اس نے ایک ڈینٹل سرجن سے بات کی اور اس مریض کو بھی اس بات پر راضی کر لیا، مگر اس نے اپنے تئیں ہوشیاری یہ دکھائی کہ سرجری کے دوران وہ اس تمام عمل کی مرحلہ وار ویڈیو بناتا رہا۔

اس کے خیال میں یہ ایک آسان کام تھا اور اب وہ اس قابل تھا کہ اگلے مریض کا علاج خود ہی کرسکے۔ اس نے ایسا ہی کیا۔ مریض آیا اور کرسی پر لٹایا گیا، کام شروع ہوا مگر سرجری کے دوران دانت اوپر سائنس میں گم ہو گیا۔

اب ”ڈاکٹر صاحب“ پریشان ہو گئے۔ ”اصلی“ والے ڈاکٹر صاحب کو فون کر کے کہا کہ ”سر تھوڑا مسئلہ ہو گیا ہے، آپ جتنی جلدی آسکتے ہیں، آجائیں۔ ٹیکسی کیا، میں جہاز کا کرایہ بھی دینے کو تیار ہوں“ ڈاکٹر صاحب بہت مشکل اور منتوں ترلوں سے راضی ہوئے اور آ کر مسئلہ حل کر دیا۔

یہ ایک چھوٹا سا واقعہ ہے جو میں نے بیان کیا، ورنہ روز ایسی ایسی باتیں ہم دیکھتے اور سنتے ہیں کہ الامان و الحفیظ۔

مجھے خود ایک ڈاکٹر صاحب بے بتایا کہ ”آپ کو مشکل سے دس فی صد ایسے ڈاکٹر ملیں گے جو پوری ایمان داری سے مریض کا خیال رکھتے ہوں، پروفیشنل ہوں اور اپنے پیشے سے مخلص ہوں“

دانتوں کی ڈاکٹری کی چار شاخیں ہیں۔ اینڈو، پیریو، پراستو اور آرتھو۔ حد یہ ہے کہ ایک کام میں ماہر ڈاکٹر باقی تین شعبوں سے متعلق مریضوں کو بھی ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔

مثلاً ٹیڑھے دانتوں کو سیدھا کرنا آرتھو ڈانٹسٹ کا کام ہے مگر ہر بی ڈی ایس ڈاکٹر آرتھو کے مریضوں کو بھی دیکھتا ہے، اور تو اور ڈینٹل ٹیکنیشن بھی اس دوڑ میں پیچھے نہیں ہیں۔ بریکٹ لو، وائر لو، بانڈنگ، ٹیوب اور لائگیچر لو اور لوگوں کے دانت سیدھے کرنا شروع کردو، یہ جانے بغیر کہ کس بریکٹ کو کہاں اور کس زاویے سے لگانا ہے، وائر کا کون سا نمبر کس مرحلے پر اور کب لگانا ہے، سٹیل اور فلیکسیبل وائر کس کس کو لگانا ہے کس دانت کو نکالنا ہے اور کس کو رہنے دینا ہے۔ دو دو سال تک بریکٹ لگے رہتے ہیں جب کہ دانت سیدھے نہیں ہوتے اور ہوں بھی تو کیسے ہوں؟

دانتوں کو سفید کرنا ایک خطرناک عمل ہے، خصوصاً جب وہ ایک سستے تیزاب نما محلول سے سفید کیے جاتے ہیں، حتیٰ کہ (انتہائی مجبوری کے علاوہ) مہنگی اور اچھی کمپنی کی بلیچنگ کٹ سے بھی دانتوں کو سفید کروانے سے پرہیز کرنا چاہیے۔

سکیلنگ جسے عرف عام میں دانتوں کی صفائی بھی کہا جاتا ہے، ایک ضروری عمل ہے جو سال میں ایک دفعہ کروانا ضروری ہے۔ اس کے لیے جو چھوٹی سی ٹپ چاہیے ہوتی ہے، اسے سٹیریلائز کرنا انتہائی اہم ہوتا ہے۔ اگر یرقان کے کسی مریض کی سکیلنگ اسی ٹپ سے ہوئی ہو جس سے اب آپ کی سکیلنگ ہو رہی ہے تو آپ ذہن میں بٹھا لیں کہ اب یرقان آپ کا بھی مقدر ہے۔

جب کوئی پڑھا لکھا اور آسودہ حال مریض دانت بھروانے کے لیے ڈاکٹر کے پاس جاتا ہے تو اس کی پھر بھی (دانتوں کی) بچت ہوجاتی ہے (کیوں کہ وہ اچھے ڈاکٹر کے انتخاب کو سمجھتا ہے ) اگرچہ واپسی پر وہ اپنی جیب ہلکی کر کے ہی آتا ہے۔ مگر مسئلہ ان لوگوں کا ہے جن کو ڈاکٹر کی پہچان نہیں ہوتی یا پھر مالی لحاظ سے کمزور ہونے کی وجہ سے کسی ”قصائی“ کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔

اکثر ٹیکنیشنوں کو معلوم نہیں ہوتا کہ جس مواد سے وہ مریض کے دانت بھر رہے ہیں، وہ دانت بھرنے کے لیے ہرگز موزوں نہیں ہوتا بلکہ مستقبل میں اس سے مریض کو کینسر ہونے کا بھی خطرہ ہو سکتا ہے، بھلا کارتوس سے کیل کا کام لیا جاسکتا ہے؟

دانتوں کے مختلف مسائل کے لیے مختلف قسم کے کیمیکل استعمال ہوتے ہیں، اچھا ڈاکٹر درست تشخیص کر کے اسی کے مطابق دانت میں کیمیکل لگاتا ہے۔ کتنے اتائی ایسے ہیں جو ”ھوالشافی“ کہہ کر ایک ہی کیمیکل ہر طرح کے مسئلے والے دانت میں گاڑ دیتے ہیں۔

اوزار کی جراثیم کشی کے لیے ایک مشین ہوتی ہے، جسے آٹوکلیو کہتے ہیں۔ اس کی مختلف اقسام ہوتی ہیں مگر جو زیادہ جدید اور بہتر ہے، وہ بی کلاس کہلاتی ہے۔ اس سے یرقان کے جراثیم بھی ختم ہو جاتے ہیں۔ گو بہتر یہی ہے کہ ہر مریض کا علاج سے پہلے یرقان یا دوسری متعدی بیماری کا ٹسٹ کرایا جائے اور ٹسٹ مثبت آنے پر اس کے لیے مکمل الگ اوزار استعمال ہوں مگر اول تو مریض خود اپنی بیماری چھپاتے ہیں اور دوسرا ڈاکٹر بھی ٹسٹ پر زیادہ زور نہیں دیتے، اوپر سے جب آٹو کلیو موجود ہی نہ ہو یا بی کلاس نہ ہو تو پھر اپنے چاند سے چہرے کا صدقہ بھی (خود ہی) اتارا کیجیے۔

دانت نکلوانے کے بجائے آر سی ٹی کروانا بہتر انتخاب ہے (اگرچہ یہ فارمولا ہر جگہ لاگو نہیں ہوتا) یہ ایک وقت طلب اور محنت والا کام ہے، اتنی محنت کے باوجود بھی آر سی ٹی کبھی کبھار کامیاب نہیں ہوتی۔ بعض ڈاکٹروں اور ٹیکنیشنوں نے اس کا آسان حل نکالا ہے یعنی دانت بھی نہ نکلے اور آر سی ٹی کی جھنجھٹ سے بھی جان چھوٹے۔ وہ دانت میں آرسینک نامی کیمیکل بھر دیتے ہیں، جس سے دانت کی تکلیف فوری طور پر ختم ہوجاتی ہے اور کئی سال تک درد کا احساس ہی نہیں ہوتا مگر اندر ہی اندر دھیرے دھیرے یہ کیمیکل نقصان کا سامان کر رہا ہوتا ہے۔

کئی ڈاکٹر تو میں نے ایسے دیکھے ہیں جنھوں نے اس ”دانت کشی“ کو آر سی ٹی کا نعمل البدل ہی بنالیا ہے جب کہ بعض ڈاکٹر مخصوص مواقع پر ایسا کرتے ہیں، مثلاً تب جب آٹھواں دانت یعنی عقل داڑھ تکلیف دے رہا ہو۔ عقل داڑھ اکثر ٹیڑھا نکلتا ہے اور ہاتھ کی پہنچ سے بھی دور ہوتا ہے، جس کی وجہ سے اسے نکالنا یا آر سی ٹی کرنا ایک مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔ ہر دو صورتوں میں آرسینک کا استعمال مضر ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments