اس تیری گلی میں اے دلبر! ہر اک کاسہ قربان ہوا ”: سچل سرمستؒ کا عرس


یہ حقیقت بلاشبہ روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ حضرت سچل سرمست جیسے بسیار گو اور ہمہ جہت شاعر پر ان کی فکری بلندی کے مقابلے میں تحقیقی کام بالکل تھوڑا ہوا ہے۔ ان کی ذات، زندگی اور پیغام کے اب بھی انگنت پہلو ایسے ہیں، جنہیں ابھی آشکار ہونا ہے۔ ان پہلوؤں کو افشا ہونے میں کتنا وقت لگے گا، یہ کہنا بہت مشکل ہے۔

بیسویں صدی، حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی کے پیغام کی اشاعت، نشر و تشہیر کے حوالے سے تو اہم صدی رہی، مگر یہی صدی سچل سائیں کے پیغام کی ترویج کے حوالے سے بھی بہت اہم صدی ثابت ہوئی۔ عثمان علی انصاری سے لے کر پروفیسر ڈاکٹر عطا محمد حامی تک، قاضی علی اکبر درازی سے لے کر ڈاکٹر تنویر عباسی تک، سچل کے بیشتر محققین اور سچل شناس شارحین، بیسویں صدی کے اہل قلم ہیں۔ اب تک سچل سرمست کے اظہار کی چاروں زبانوں میں سے ان کے سندھی کلام پر ہی سب سے زیادہ تحقیقی کام انجام دیا جا چکا ہے۔ (جو کہ جتنا ہونا چاہیے تھا، اتنا پھر بھی نہیں ہے۔ ) اور دوسرے نمبر پر ان کی سرائیکی شاعری پر تحقیقی قلم اٹھایا گیا ہے، جبکہ ان کے ریختہ (اردو) اور فارسی کلام پر بہت کم کام ہوا ہے، جس پر اردو اور فارسی کے محققین کو کام کرنے کے لئے سرکاری سطح پر مدعو کیا جانا چاہیے، تاکہ ’آشکار‘ ہم پر کلی طور پر آشکار ہو سکے۔

دنیا میں ’تصوف‘ کی کئی ایک تعریفیں بیان کی گئی ہیں۔ میری نظر میں تصوف، محبت کے عالمگیر جذبے کو کائنات کے ہر فرد، بلکہ ہر مخلوق کے ساتھ وابستہ کرنے کا نام ہے، جس کا اطلاق بلا تفریق رنگ، نسل، لسان و فرقہ سب پر ہونا چاہیے۔ اگر اس کسوٹی کے مطابق سچل سائیں کو ’صوفی‘ کہا جائے، تو وہ بجا طور پر تصوف کے اعلیٰ مظہر اور ایک سچے صوفی ہیں۔

1982 ء میں سچل سائیں کے سالانہ عرس مبارک کے موقع پر منعقدہ ادبی کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے پروفیسر ڈاکٹر عطا محمد ”حامی“ نے فرمایا:

”سچے سائیں کو یہاں صوفی بتا کر ان کو اسلامی ارکان پر عمل سے دور بتایا گیا کہ وہ صوم وصلواۃ سے دور تھے۔ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ میری تحقیق کے مطابق سچے سائیں نے اپنی زندگی میں کوئی نماز نہیں چھوڑی۔ وہ اپنی خانقاہ کے خلیفہ تھے اور دیگر خانقاہوں سے رابطے سمیت درگاہ کے تمام بیرونی کام اور دنیاوی سرگرمیاں ان کے ذمے تھیں، مگر اس کے باوجود سچے سائیں نے اپنی زندگی میں کوئی نماز یا روزہ نہیں چھوڑا۔ استغراق کی کیفیت ان پر رہی ہے، مگر ایسا ہرگز نہیں رہا کہ وہ صوم و صلواۃ کو بھول جائیں۔ مجھے معلوم نہیں کہ تصوف کسے کہا جاتا ہے۔ یہ صاحبان صوف ہی بتا سکتے ہیں، مگر جہاں تک میں نے پڑھا اور سمجھا ہے، تصوف دل کی صفائی کا نام ہے اور دل کی صفائی یہ نہیں کہتی کہ آپ نماز نہ پڑھیں، روزہ نہ رکھیں یا متقی نہ ہوں۔“

لہاذا سچل سرمست، پروردگار کی محبت میں سرشار وہ صوفی تھے، جنہوں نے اپنے رب کو حبل الورید اور رگ و پے سے بھی قریب سمجھتے ہوئے، کائنات کے ذرے ذرے میں اس ذات ذی الجلال کے موجود ہونے کا اقرار کیا۔

فرماتے ہیں :
کبھی صورت میں ہے آدم تو مظہر میں خدا ہو گا
کبھی کرار حیدر ہے، کبھی شہ مصطفیٰ ہو گا
”سچل“ سچ صاف کہتا ہے اسی دلدار کی باتیں
وہی اندر، وہی باہر، وہی ارض و سما ہو گا
”ھوالاول، ہوالآخر، ہوالظاہر، ہوالباطن“
یہاں بھی وہ، وہاں بھی وہ ’سچل‘ پھر تو کجا ہو گا
یا پھر اسی اسلوب اور بحر میں ایک اور اظہار ملاحظہ کیجیے :
اگر صورت میں ہے آدم سراسر خود خدا ہو گا
کبھی یونس، کبھی یوسف، کبھی وہ مصطفیٰ ہو گا
کبھی موجیں، کبھی لہریں، کبھی اٹھنا، کبھی گرنا،
کبھی دریا، کبھی کشتی، ’سچل‘ وہ ناخدا ہو گا

ایمان کا درجۂ اول اور بنیادی معیار، پروردگار کی وحدت کا اقرار اور اس کی عظمت و قدرت کا ماننا ہے۔ جس کا برملا اظہار سچل سائیں نے اپنی فارسی مثنویات میں کیا ہے۔ ان کی مثنوی ’راز نامہ‘ سے چند مثالیں (ترجمے کی صورت) ملاحظہ فرمائیں، جن میں اللہ کی توحید کا اقرار، انداز یکتا میں ملتا ہے :

دیکھے کوئی اہل دل میری کتاب
جو پئے توحید کی خاصی شراب
راز رحمانی یہاں ظاہر کرے
یہ ’سچو‘ خود کو خدائی نام دے
واہ! قدرت سے خدا واحد کریم
حی اور قیوم، رحمان و رحیم
خود ہی مولیٰ ہے وہ قادر کارساز
شاہ مالک، ملک اور وہ بے نیاز
نام لے سب سے اول اللہ کا،
پھر تو کلمہ پڑھ رسول اللہ کا

مندرجہ بالا مثنوی کا منظوم ترجمہ فارسی تا اردو مقصود گل نے کیا ہے۔ ان سطور میں نہ صرف ایمان کے درجۂ اول یعنی اللہ کی توحید کا اقرار ہے، بلکہ ایمان کے دوسرے زینے خاتم المرسلینﷺ کی رسالت کا اقرار بھی بہ بانگ دہل کیا گیا ہے۔

ایک اور جگہ فرماتے ہیں۔
درحیققت پاک مرسلﷺ اور خدا
تو اگر جانے، نہیں دونوں جدا
کچھ تفاوت احد، احمدﷺ میں نہیں
عین مستی عشق میں ہے بالیقیں
جو بنے ہیں یہ زمین و آسماں
یا جو ان میں چاند سورج ہیں عیاں
پرتوے حق ہے عیاں سب میں ضرور
ظاہر و باطن اسی کا نور نور

تصوف کا ایک اور اہم تقاضا اپنی خودی کو زیر کر کے، بلکہ اپنی ذات کے ہونے کو مکمل طور پر فنا کر کے صرف اور صرف اپنے پروردگار کی عظمت کا اقرار ہے، جو اس کائنات کے آغاز سے لے کر انجام تک بحیثیت یکتا موجود ہے، جس کی قدرت و طاقت میں کوئی حصہ دار نہیں ہے۔ اس حقیقت کا اقرار و اظہار بھی سچل سرمست نے بار بار کیا ہے۔ ’راز نامہ‘ ہی میں فرمایا:

اول و آخر وہی موجود ہے
باطن و ظاہر وہی موجود ہے
خود کو کر توحید میں بالکل فنا
اپنی ہستی توڑ اور ’میں میں‘ گنوا
تیری ’میں میں‘ ہے یہ ابلیسی عمل
ہے نہ ابلیسی عمل میں نیک پھل
کافروں کا جان یہ دوئی عمل
ہے یہی شیطان کے شر کا عمل
راہ مسکینی سے ہی وحدت ملے
ہاں شہنشاہی عطا کرتی چلے
راہ غربت سے خدا کی راہ لے
خود کو روشن کر اسی خورشید سے
خود کہے مسکین خود کو مصطفیٰﷺ
سن صداقت سے دلائل بے بہا
پاک مرسلﷺ خود کو بولے ہے غریب
اور فقیروں کو ہدایت دے عجیب

سچل سرمست نے اسلام کے نام نہاد ٹھیکیداروں ملاؤں، قاضیوں، مفتیوں، حاجیوں، دستار بندوں، نمائشی متقیوں کی علانیہ مخالفت کی ہے۔ سچل، مذہبی فرسودگی اور انتہا پسندی کو رد کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک وہ مومن ہی نہیں ہے، جو بظاہر بھاری بھرکم دستار پہن کر مسجد میں امامت کرے اور دوسری طرف لوگوں سے نفرت اور بغض کا جذبہ دل میں پالے، بلکہ وہ دین میں پہلے انسانوں کے حقوق کو پورا کرنے پرزور دیتے ہیں (جو ہمارا مذہب بھی کہتا ہے۔ ) اس کے بعد صوم و صلواۃ سمیت اللہ تبارک و تعالیٰ کو خوش کرنے کے دیگر ذرائع کی طرف متوجہ ہونے کا درس دیتے ہیں۔

سچل سرمست، شہید ’انالحق‘ ابوالمغیث حسین بن منصور حلاج جیسی عظیم شخصیت، پیغام و فکر سے بے حد متاثر تھے۔ اس لئے انہیں ’منصور ثانی‘ بھی کہا جاتا ہے۔ جس طرح حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی، مولانا جلال الدین رومی کی فکر سے بہت متاثر نظر آتے ہیں، اسی طرح سچل سرمست، منصور حلاج کے راستے کے راہی نظر آتے ہیں۔ لوگ حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی کی دیگچی کا ڈھکنا سچل کے ہاتھوں اتروانے والی روایت کا اظہار چاہے لاکھ کریں، مگر ہر نظر شناس، شاہ لطیف اور سچل سرمست کی آوازوں کو الگ الگ نوع کی آوازیں ہی تسلیم کرتا ہے۔

گوکہ دونوں کا راستہ الگ بھی نہیں ہے، مگر اس کے باوجود ایک بھی نہیں ہے۔ حضرت حسین بن منصور حلاج سچل کے لئے روشنیٔ راہ ہیں۔ ابوالمغیث، شہید حسین بن منصور حلاج کی ولادت 244 ہجری بمطابق 857 ء میں ہوئی۔ جبکہ شہادت 24 ذی القعد 309 ہجری بمطابق 922 ء میں ہوئی۔ جبکہ سچل، 1152 ہجری بمطابق 1739 ء میں پیدا ہوئے اور 14 رمضان المبارک 1442 ہجری بمطابق 1827 ء میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ دیکھا جائے تو سچل، حسین بن منصور حلاج کی شہادت کے ٹھیک 905 برس بعد پیدا ہوئے ہیں، مگر بن حلاج کی فکر و فلسفے نے سچل کو 900 برس بعد بھی اس قدر متاثر کیا، کہ انہوں نے اپنے دور کے ظلم اور بربریت کے خلاف اپنے خون کی گردش کو اپنی رگوں میں شدت سے محسوس کیا اور منصور کے فلسفے کے دائی بن گئے۔ فارسی کا ایک خوبصورت شعر ہے۔

عمر یست کہ آواز منصور کہن شد
من از سر نو جلوہ دہم دار و رسن را

(ترجمہ: بہت زمانہ بیت چکا ہے، جیسے منصور کی آواز کو زنگ لگ چکا ہے۔ ایک بار پھر مقتل گاہ کو سجا کر آباد کرنا چاہیے۔ )

منصور کی آواز اس کے رب کی آواز ہے، جو اس کے وجود سے ’میں حق ہوں‘ کی نوا بن کر گونج رہی تھی اور اس لافانی آواز کو کبھی زنگ نہیں لگ سکتا۔ یہ آوازیں تو علامات بن جاتی ہیں، جو ہر دور میں بھیس بدل کر، نت نئے روپ میں نظر آتی اور سنائی دیتی ہیں۔ جیسے ’حسینیت‘ اب ایک مکتب فکر کا نام ہے، جو ہر دور میں رہتی ہے، جس کی کاٹ میں ’یزیدیت‘ ہمیشہ سرگرداں رہتی ہے۔ یہ حقیقت ’رحمانیت‘ اور ’شیطانیت‘ کے برابر اور ہر دور میں وجود کی ایک مثال ہے۔

سچل سرمست نے جب دین کے روایتی ٹھیکیداروں ملاؤں، قاضیوں، مفتیوں وغیرہ کے خلاف سر عام اپنے کلام کے ذریعے ڈنکے کی چوٹ پر مخالفت کی، تو ان کے خلاف ناپسندیدہ اور ناساز فضا کا پیدا ہو جانا فطری تھا۔ فرقہ واریت کے زور کے لحاظ سے سچل کا دور بھی کچھ کم برا نہ تھا، اس وجہ سے سچل سائیں کو بے شمار تکالیف کا سامنا بھی رہا۔ ’انا الحق‘ کے منصوری احساس کو نہ صرف سچل نے اپنی ذاتی زندگی میں محسوس کیا، بلکہ منصور کے اسی فکر کی پیروی کا اظہار انہوں نے بے تحاشا جگہوں پر کیا۔ اور ساتھ ساتھ منصور کی جھوٹ کے خلاف لڑائی اور اسلام کے نام نہاد پاسبانوں کی راز افشائی کے منشور کی بھرپور تقلید کرتے ہوئے نظر آئے :

مرا تو کام تھا اس ہادی و رہبر کی صورت سے
اسی صورت کا میں نے ہر جگہ اظہار دیکھا تھا
کہا اس بار اس نے بالیقین کلمہ ’انالحق‘ کا،
رہ اسرار میں منصور کو بردار دیکھا تھا
یا پھر
بتایا مجھ کو مرشد نے نہیں تم غیر حق ہرگز
”ولا موجود الا ہو“ ، یہ نقارہ بجاؤں گا
مجھے جب حکم ہوتا ہے، بجا نوبت ’انا الحق‘ کی
اسی عالم میں ہر شے کا تماشا اب دکھاؤں گا
”ھوالظاہر ہوالباطن“ ، وہ حق موجود دو جگ میں
کہا سولی پہ جو منصور نے میں وہ دکھاؤں گا
یا پھر،
حیران ہوا حیران ہوا، اس حسن پہ میں حیران ہوا
منصور ہو یا سرمد ہو صنم، یا شمس الحق تبریزی ہو
اس تیری گلی میں اے دلبر! ہر اک کاسہ قربان ہوا

یا،
اگر منصور بن کر دہر میں مطلب کیا حاصل،
”انا الحق“ کہنے سے بیشک ہمہ دیدار تو ہو گا۔
جو ہے حلاج سولی پر ہوا فارغ وہ ہستی سے،
نڈر بن کر ’انا احمد‘ کہا، اظہار تو ہو گا

منصور کی تعریف میں اپنی مثنوی ’گداز نامہ‘ میں فرماتے ہیں :
پھاڑ کر جامہ جسم کا دور کر
آپ اپنے آپ کو منصور کر
عاشقوں کا شاہ وہ منصور تھا
عارفوں کو بھی وہی منظور تھا
عشق کی سولی پہ عاشق چڑھ گیا
عاشقوں کی صف سے آگے بڑھ گیا۔
یا پھر ’راز نامہ‘ میں رقم طراز ہوئے :
بے خودی منصور کی عظمت بنی
دو جہاں میں عشق سے عزت بنی
دینداری میں برابر شاہ تھا
قرب تھا، منصور پر اللہ کا

اور ایسی بے تحاشا مثالیں۔ کیونکہ سچے سائیں کا اردو، فارسی، سندھی خواہ سرائیکی کلام منصور حلاج کی فکری تقلید اور ان کی جواں مردی کی تعریف سے بھرپور ہے۔ جس سے سچل سرمست نے یقینی طور پر اپنے آپ کو راہ منصوری کا مسلسل مسافر ثابت کیا ہے۔

سچل کی شاعری درازہ (در راز) کے رازداں کی صدا ہے۔ مگر وہ صدا، مجمع عام میں ہونے کے باوجود ”راز“ سے بھرپور ہے، اور اس صدائے راز کو کوئی درد والا ہی سمجھ سکتا ہے۔ سچل سرمست ایک سچے صوفی، دین حق کے قدردان و پاسبان، قادر مطلق کی توحید اور رحمت اللعٰلمین ﷺ کے مقام کو صدق دل سے تسلیم کرنے والے، جادۂ منصوری کے وہ مسافر صادق اور سالک و عاشق ہیں، جو اپنے رب کی تلاش اور خود شناسی کی منزل کے حصول کے لئے سرگرداں رہے اور بالآخر قرب خدائی کو اس کے بندوں میں تلاش کرنے میں کامیاب رہے۔ اسی لئے سچل کل بھی سچ تھے اور آج 201 برس گزر جانے کے باوجود بھی سچ ہیں۔ جس طرح منصوری فکر کو کبھی زنگ نہیں لگ سکتا، اسی طرح سچل سرمست کے پیغام کی خوشبو بھی ماند نہیں پڑ سکتی۔ یہ ہماری ہی بدقسمتی ہے کہ ہم ابھی اس خوشبو کو مکمل طور پر محسوس نہیں کر پائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments