24 سالہ پاکستانی نوجوان احمد جمال وٹو نے ورلڈ بینک کی جاب کیسے حاصل کی؟


عمر کے جن موسموں میں ہمارے ہاں زیادہ تر نوجوان عشق و مستی اور غم جاناں کے دکھ پالتے ہیں، ایسے ہی موسموں میں ان چکروں میں پڑنے کی بجائے ایک نوجوان نے اپنے کیریئر اور اپنے مستقبل کو سنوارنے کے لیے دنیا کے اعلیٰ تعلیمی اداروں، برطانیہ اور امریکہ کا رخ کیا۔ پھر وہاں سے ہوتا ہوا پہلے اقوام متحدہ کی ملازمت میں گیا۔ مگر پھر وہاں پر رکے رہنے کی بجائے جواں عمری میں ہی بین الاقوامی مالیاتی عالمی ادارے ’ورلڈ بینک‘ کی اعلیٰ ملازمت تک جا پہنچا۔

یاد آ رہا ہے کہ طرح دار کالم نگار عرفان صدیقی صاحب نے کہیں لکھا تھا کہ ”جوانی کے شاداب موسموں میں ایک رت ایسی بھی آتی ہے، جب ہر نوجوان کے دل میں رومانویت کی کونپلیں پھوٹتی ہیں اور وہ عروض کی بندشوں سے بے نیاز شعر کہنے لگتا ہے“ ۔ اس نوجوان نے شعر تو نہیں کہے البتہ اپنی محنت اور لگن سے کامیابیاں حاصل کرتا ہوا نئی منزلوں کی سیڑھیاں چڑھ رہا ہے۔ آئیے آپ کو ایک ایسے ہی پاکستانی نوجوان سے ملواتے ہیں۔

24 سالہ ہونہار پاکستانی نوجوان احمد جمال وٹو ورلڈ بینک سے وابستہ ہو گئے ہیں۔ واشنگٹن ڈی سی میں قائم عالمی مالیاتی ادارے نے ان کی صلاحیتوں کی بنیاد پر انہیں اپنا فل ٹائم ’انویسٹمنٹ اینالسٹ‘ مقرر کیا ہے۔

احمد جمال وٹو نے ایک انٹرویو کے دوران مجھے بتایا کہ ”2021 ء میں کولمبیا یونیورسٹی نیویارک سے ’انٹرنیشنل فنانس اینڈ اکنامک پالیسی مینجمنٹ‘ میں ماسٹر ڈگری کے بعد میری شدید خواہش تھی کہ میں نے ورلڈ بینک میں کام کرنا ہے۔ جس میں بالآخر وہ کامیاب رہے۔“

احمد جمال وٹو کا کہنا تھا کہ ”ورلڈ بینک جوائن کرنے سے پہلے انہوں نے کوئی پانچ مہینے اقوام متحدہ ہیڈ کوارٹرز، نیویارک میں ’ڈیپارٹمنٹ آف پیس کیپکنگ آپریشنز‘ میں بھی کام کیا ہے۔ قبل ازیں وہ اسی ادارے میں بطور ’پولیٹکل انٹرن‘ دس ماہ کام کرتے رہے ہیں۔

اقوام متحدہ کی پرکشش ملازمت چھوڑ کر ورلڈ بینک جوائن کرنے کے سوال پر گفتگو کرتے ہوئے احمد جمال کا کہنا تھا کہ ”اقوام متحدہ کی جاب بھی اچھی تھی، تاہم انٹرنیشنل فنانس میں ان تعلیم کی وجہ سے انہیں کوئی فنانشل ادارہ، جیسے ورلڈ بینک، آئی ایم ایف یا آئی ایف سی زیادہ موزوں لگتا تھا۔ سو خوش قسمتی سے ان کے من پسند ادارے ورلڈ بینک سے انہیں جاب کی آفر ملی، جسے انہوں نے قبول کر لیا۔“

ورلڈ بینک میں کام کرنے کے ماحول کے متعلق ایک سوال کے جواب میں احمد جمال وٹو نے کہا کہ ”ان کے ڈیپارٹمنٹ ’مینوفیکچرنگ ایگری بزنس اینڈ سروسز‘ میں مسلمان ملازمین خصوصاً پاکستانی زیادہ نہیں ہیں، ان کے علاوہ ان کے سپروائزر ایک بنگلہ دیشی ہیں۔ جبکہ ورلڈ بینک کے دیگر ڈیپارٹمنٹس میں کئی اور پاکستانی کام کرتے ہیں اور پاکستان کے کنٹری آفس میں تو کافی زیادہ لوگ پاکستانی ہیں۔ ایسے اداروں میں ملٹی کلچرل اور ملٹی ریلیجن لوگوں سے آپ کا واسطہ پڑتا ہے۔ جس سے آپ کو سیکھنے کو بہت کچھ ملتا ہے۔

احمد جمال نے بتایا کہ ”انہوں نے ’ورلڈ بینک‘ کو گزشتہ سال ستمبر میں جوائن کیا تھا، اس وقت سے لے کر اب تک عالمی مالیاتی ادارے میں ان کے کام کرنے کا تجربہ کافی خوشگوار رہا ہے۔ ورلڈ بینک کی ملازمت میں آپ کو دوسرے ممالک کا سفر کافی کرنا پڑتا ہے۔ مگر آج کل کوڈ۔ 19 کی وجہ سے ٹریول کم کرنا پڑتا رہا ہے۔ اس لیے آج کل زیادہ تر آفس ورک ہی ہوتا ہے۔“

عالمی مالیاتی اداروں میں کام کرنے کے خواہشمند پاکستانی نوجوانوں کو پیغام دیتے ہوئے احمد جمال وٹو کا کہنا تھا کہ ”نوجوانوں کو چاہیے کہ ہار نہ مانیں۔ انہیں بین الاقوامی اداروں کی ملازمتوں کی جانب آنا چاہیے۔ آج کل انٹرنیٹ کا دور ہے۔ وہاں سے بہت کچھ سیکھنے کو مل جاتا ہے۔ ضروری نہیں کہ آپ کسی بڑی یونیورسٹی ہی سے پڑھے ہوں۔ ایسے اداروں میں جابز سکل بیسڈ ہوتی ہیں۔ آپ میری مثال لے لیں۔

محض 24 سال کی عمر میں مجھے اپنی ذاتی محنت کے بل بوتے پر ورلڈ بینک کی جاب ملی ہے۔ کوئی سفارش وغیرہ نہیں کروائی۔ اس جاب کے لیے ہوئے ملٹی پل انٹرویوز کے لیے میں نے بڑی محنت اور پریکٹس کی۔ آپ کو چاہیے کہ آپ اپنی سکلز بھی بھی بڑھائیں۔ زیادہ سے زیادہ جگہوں پر اپلائی کریں۔ کمپیوٹر لٹریسی، مائکروسافٹ ایپلی کیشنز، ڈیٹا انیلسز وغیرہ میں ضرور میں اپنی استعداد کو بڑھائیں۔ اچھے اداروں میں کام کرنے کا تجربہ ملازمت کے حصول میں بہت زیادہ کام آتا ہے۔ اگر مصمم ارادہ کر لیں کوئی بھی چیز مشکل نہیں ہوتی۔ ”

اسی ضمن میں احمد جمال نے مزید بتایا کہ ”پاکستانی نوجوان صلاحیتوں اور ذہانت کے اعتبار سے دینا میں کسی سے بھی کم نہیں ہیں۔ پاکستانی نوجوانوں کو ملازمت کے لئے ایسے بین الاقوامی اداروں میں ضرور اپلائی ضرور کرنا چاہیے۔ سفارش کی بجائے آپ کے اچھے ’ریزمے‘ یعنی سی وی اور سکلز کی بنیاد پر آپ کو ایسی ملازمتیں مل جاتی ہیں۔ اپنی طرف سے پوری محنت اور تیاری کریں، پھر باقی اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دیں۔ “

کیا مستقبل میں اب امریکہ میں ہی رہنے کا ارادہ ہے؟ کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ”وہ کچھ عرصہ یہاں امریکہ میں کام کریں گے، پھر پاکستان لوٹ جائیں گے۔ مستقل طور پر امریکہ میں رہنے کے بارے میں انہوں نے کبھی نہیں سوچا۔ اور نہ ہی ایسا کوئی ارادہ ہے۔“

پاکستان میں آئی حالیہ سیاسی تبدیلی کو کیسے دیکھتے ہیں؟ کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ ”بہت سارے پاکستانیوں کی طرح وہ بھی پاکستان کے موجودہ سیاسی حالات کو مسلسل مانیٹر کر رہے ہیں۔ غلطیاں دونوں جانب ہیں۔ مگر وہ اس موضوع پر کوئی زیادہ گفتگو نہیں کرنا چاہتے۔ ان کی اپنی فیملی کے بھی کئی لوگ سیاست میں کافی فعال ہیں۔“

پاکستان، برطانیہ اور امریکہ کے اعلیٰ تعلیمی اداروں کی تعلیم آپ کی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے، خصوصاً ورلڈ بینک کی ملازمت کے حصول میں کس حد تک ممد و معاون ثابت ہوئی؟ کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ”حقیقت میں اچھے اداروں میں پڑھنے کا فائدہ آپ کو ملتا تو ہے۔ جیسے میرے ساتھ جو لوگ کولمبیا یونیورسٹی میں پڑھ رہے تھے۔ ان میں سے کئی لوگ مجھ سے دو دو تین تین سال سینئر تھے۔ کسی نے ورلڈ بینک اور کسی نے آئی ایم ایف یا دیگر بڑے بڑے مالیاتی اداروں میں کام کیا ہوا تھا۔ میں ان سے گفتگو کے دوران ان کی گائیڈنس اور ایڈوائیس سے بڑی انسپیریشن لیتا تھا۔ ایسی چیزوں نے مجھے آگے بڑھنے اور اپنی کپیسٹی بلڈنگ میں بڑی مدد دی۔“

مجھے کولمبیا یونیورسٹی نیویارک میں پڑھنے کا یہ فائدہ ہوا کہ یہاں ایسے لوگوں سے دوستیاں اور کنکشنز بنے، جن کے ریفرنسز اور گائیڈنس سے مجھے زندگی کی نئی راہیں تلاش کرنے اور آگے بڑھنے میں بڑی مدد کی۔ ایسی چیزیں بہرحال آپ کو زندگی میں ’پے بیک‘ کرتی ہیں۔ مگر یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ تمام جگہوں پر ایسے اداروں کے پڑھے لکھے لوگ ہی پہنچتے ہیں۔ عام یونیورسٹیوں سے پڑھنے والے بھی اپنی صلاحیتوں کی بنیاد پر اچھی جگہوں پر پہنچ جاتے ہیں۔ آپ کی کمٹمنٹ اور محنت کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔ ”

پاکستانی تعلیمی اداروں، برطانیہ اور امریکہ کی تعلیمی نظام کے موازنے کے سوال کے جواب میں احمد جمال وٹو نے بتایا کہ ”پاکستان کی نسبت امریکہ کی درسگاہوں میں نیٹ ورکنگ پر بہت زیادہ فوکس کیا جاتا ہے۔ سافٹ سکلز بڑھانے پر توجہ دی جاتی ہے۔ جبکہ اس کے برعکس پاکستان کے تعلیمی اداروں میں بدقسمتی سے اب بھی زیادہ تر کام رٹا پر چلتا ہے۔“ رٹا لگاؤ، امتحان دو اور سو نمبر لو ”پر زیادہ فوکس کیا جاتا ہے۔

رٹا اپروچ امریکہ میں، میں نے نہیں دیکھی۔ یہاں گریڈز میں اتنا زیادہ فوکس نہیں ہوتا۔ جتنا سکلز بڑھانے پر زور دیا جاتا ہے۔ کیونکہ جب آپ عملی زندگی میں جاتے ہیں، تو دیکھتے ہیں کہ وہاں گریڈز زیادہ میٹر نہیں کرتے، آپ کی سافٹ سکلز کام آتی ہیں۔ آپ وہاں کس طرح بولتے ہیں۔ کس طرح پریزینٹیشن دیتے ہیں۔ ایسی چیزوں پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے۔ آپ کی پبلک بول چال، آپ کی لیڈرشپ سکلز آپ کو عملی زندگی میں آگے لے جانے میں بڑی مدد کرتی ہیں۔ ”

احمد جمال وٹو نے گزشتہ دنوں اپنی ایک خوشگوار ٹویٹ میں دو یادگار تصاویر شیئر کرتے ہوئے کہا کہ ”وہ 2019 ء میں اپنی یونیورسٹی کے طلباء کے ہمراہ ایک فیلڈ ٹرپ پر ورلڈ بینک کے دورے پر آئے تھے۔ اب 2022 ء میں وہ ورلڈ بینک کے ایک فل ٹائم ایمپلائی کے طور پر وہاں بلکہ اسی جگہ پر کھڑے ہیں۔“

ورلڈ بینک کی جاب کے علاوہ اپنے دیگر مشاغل کے بارے میں احمد جمال وٹو کا کہنا تھا کہ ”انہیں کتابیں پڑھنا اچھا لگتا ہے۔ اپنے مضمون کے علاوہ انہیں سیاست، بین الاقوامی سیاست، اور آٹو بائیوگرافیز کی کتابیں زیادہ پسند آتی ہیں۔ فارغ وقت میں دوستوں سے گپ شپ، جم، سپورٹس، سیاحت اور ٹریولنگ کرنا بھی ان کے من پسند مشاغل ہیں۔“

محض 24 سال کی عمر میں ’ورلڈ بینک‘ کی اعلیٰ ملازمت حاصل والے ذہین نوجوان احمد جمال وٹو، سابق وزیر اعلیٰ پنجاب میاں منظور احمد وٹو کے پوتے اور معظم جہانزیب وٹو کے صاحبزادے ہیں۔ وہ لاہور میں پیدا ہوئے۔ پہلی کلاس سے انٹرمیڈیٹ تک ایچی سن کالج میں زیر تعلیم رہے۔ بعد ازاں یونیورسٹی آف لندن سے گریجویشن کی۔ کولمبیا یونیورسٹی نیویارک سے انہوں نے انٹرنیشنل فنانس مینجمنٹ میں ماسٹرز ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments