عمران خان کا فیاض چوہان پر کتا چھوڑنے کا قصہ


عمران خان ایک نہایت ہی شاطر سیاستدان ثابت ہوئے ہیں۔ یہ لفظ ’میں‘ عمران خان کا پسندیدہ ترین لفظ ہے۔ یورپ، امریکہ، برطانیہ، انڈیا وغیرہ وغیرہ کو سب سے زیادہ جاننے کے دعوے کے ساتھ عمران جب میں سے شروع ہونے والا جملہ مکمل کرتا ہے تو اس کے پرستار کھل اٹھتے ہیں۔ میں عرض کر رہا تھا کہ عمران خان نہایت چالاک اور زیرک سیاستدان ثابت ہوا ہے۔ سالہا سال تک عمران کے بارے میں پڑھ اور سن کر ویسے میرا ذاتی خیال ہے کہ انہیں زیادہ کچھ سمجھ نہیں، وہ فوری ردعمل کے طور پر فیصلے کرتا ہے جو کہ سیاست میں خود کو اپنے ہاتھوں تباہ کرنے والی بات ہے۔ لیکن عمران کی حالیہ چالیں دیکھ کر لگتا ہے کہ یا تو وہ واقعی روایتی سیاست میں اپنے حریفوں سے دو قدم آگے نکل چکا ہے اور یا پھر پس پردہ کوئی ہے جو اس خطے کے لوگوں کی نفسیات، سماج اور تاریخ کو مدنظر رکھ کر جدید سائنسی بنیادوں پر کپتان کو کمال مہارت سے آگے بڑھنے کے مشورے دے رہا ہے۔

دو ہزار تیرہ کا الیکشن ہارنے کے بعد عمران نے ہسپتال کے بیڈ سے پیغام جاری کیا تھا۔ انتہائی معقول باتیں کی تھیں۔ مجھے یاد نہیں پڑتا کہ میاں نواز شریف کو مبارکباد دی تھی کہ نہیں لیکن عمران نے الیکشن نتائج تسلیم کیے تھے۔ یاد رہے کہ عمران پولنگ ڈے سے چار دن قبل سٹیج سے نیچے آ گرا تھا۔ عمران کے گرنے اور ہسپتال داخل ہونے کی خبر سن کر میاں نواز شریف نے اگلے دن اپنی الیکشن مہم ملتوی کر دی اور عمران خان کی جلد صحتیابی کے لئے دعا کی۔

نئی حکومت بنی تو عمران کا رویہ ایک سلجھے ہوئے سیاستدان کا تھا۔ اسمبلی میں تقریریں کرتے کوئی غیر پارلیمانی لفظ استعمال نہیں کیا۔ چار حلقے کھولنے کا مطالبہ کیا جس کے متعلق حکومت نے روایتی ٹال مٹول سے کام لیا لیکن عمران اور حکومت کے اختلافات معتدل رہے۔ مارچ 2014 میں وزیر داخلہ چوہدری نثار، میاں نواز شریف کو لے کر بنی گالا پہنچے۔ عمران خان نے کھلے دل سے وزیراعظم کا استقبال کیا۔ شاید پہلا موقع تھا جب عمران نے بنی گالا میں کسی کو چائے پلائی، اس کی وصولی البتہ یوں کی کہ میاں صاحب سے بنی گالا اپنے گھر کے لئے سڑک مانگ لی جس کی میاں صاحب نے اسی وقت منظوری دے دی۔ دل میں میاں صاحب کے البتہ ضرور آیا ہو گا کہ ایک کپ چائے کافی مہنگی پڑی ہے۔

اس کے بعد عمران خان کو کسی نے نہ جانے کیا گھول کر پلایا کہ تہذیب، رواداری، ذاتی وقار، اخلاق، شائستگی، خوش ذوقی وغیرہ وغیرہ وغیرہ۔ سب مستقل چھٹی پر بھیج دیے۔ طاہر القادری کے کزن بنے اور اسلام آباد پر یلغار کر دی۔ وہ وہ تقریریں کیں جو گلی محلے کا کونسلرز بھی کرتے ہوئے شرمائیں۔ بھرے جلسے میں میاں صاحب کی شلوار تک پہنچے اور بھول گئے کہ شریف لوگ خلوت میں بھی ایسی باتوں سے اجتناب کرتے ہیں کجا کہ قوم کے بیٹوں اور بیٹیوں کو دس قدم کے فاصلے پر بٹھا کر پوری دنیا کے کیمروں کے سامنے ایسی باتیں منہ سے نکالی جائیں۔

دھرنا ختم ہوا لیکن عمران خان نے اپنے حامیوں کو طوفان بد تمیزی برپا کرنے پر لگا دیا۔ ان لوگوں نے اپنے مخالف کسی سیاستدان، صحافی حتیٰ کے مخالف کارکنوں اور عام ووٹرز تک کو نہیں بخشا۔ وہ وہ گالیاں دیں کہ خدا کی پناہ۔ عمران خان نے انہیں کبھی باز رکھنے کی کوشش نہیں کی بلکہ اس کے لئے سوشل میڈیا ٹیمز بنائیں کہ تن کر رکھو۔

میرا خیال تھا کہ حکومت میں آنے کے بعد عمران سدھر جائے گا اور سیاسی اختلافات میں باہمی احترام کی حوصلہ افزائی کرے گا لیکن ہوا اس کے بر عکس۔ حکومت میں آنے کے بعد طوفان بدتمیزی کی شدت میں اضافہ ہوتا گیا۔ گالیاں دینے والے وزیروں کو شاباشیں ملیں۔ کارکنوں کی سطح تک اس کی حوصلہ افزائی کی گئی۔ جو جتنا بدتمیز، اس کے لئے اتنا پڑا عہدہ۔ بدتمیزی کے اونچے معیار پر پورا اترنے میں ناکام ہونے والوں کو سزا کے طور پر سائڈ لائن کیا گیا۔

کیا یہ سب کچھ ایسے ہی ہوا؟ میرا خیال تھا کہ یہ سب کچھ کپتان غصے میں کرتا رہا ہے لیکن اب مجھے یقین ہونے لگا ہے کہ یہ سب کچھ ایک سوچی سمجھی سکیم ایک نہایت باریک بینی سے انجام دیے گئے منصوبے کے مطابق ہو رہا تھا۔ پاکستان کی لگ بھگ بائیس کروڑ آبادی میں تیرہ کروڑ لوگ تیس سال سے کم عمر ہیں۔ ان تیرہ کروڑ لوگوں کو دانستہ طور پر گالیوں پر لگایا گیا اور اب اسی بدتمیزی کے ہتھیار سے دیگر سیاسی جماعتوں اور اس ملک کے اداروں کو پیچھے دھکیلنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ بدتمیزی کے اس فصل کو جس کا جوبن پھٹا پڑتا ہے، عمران خان اپنے فاشسٹ سوچ کی تکمیل کے لئے بروئے کار لا رہا ہے۔

عمران خان سول نافرمانی کی کال دے چکا ہے، جس کا آغاز اس نے اسمبلیوں سے کر دیا ہے۔ کوئی دن جاتا ہے کہ عمران خان کسی جلسے میں عوام کو بھی سول نافرمانی کی کال دے دے۔ طوفان بدتمیزی سے اپنے سارے مخالفین کو اڑا کر رکھ دینا عمران خان کا منصوبہ ہے۔ آپ عمران کے مزاج کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ نبیل گبول کے کامران شاہد کے پروگرام میں کیے گئے انکشاف کے مطابق بنی گالا میں عمران خان نے نبیل گبول کی موجودگی میں فیاض الحسن چوہان پر اپنا کتا چھوڑ دیا تھا۔ نبیل گبول کا یہ دعویٰ پرانا ہے جس کی تردید میری نظر سے نہیں گزری، جس کے مطابق فیاض الحسن چوہان کے کسی بیان پر ناراض ہو کر عمران خان اسے مارنے کے لئے لپکا تو عمران کا کتا بھی فیاض الحسن چوہان پر حملہ آور ہو گیا۔

اس واقعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ عمران خان کس قسم کی سوچ کا حامل بندہ ہے۔ بڑی محنت اور باریک بینی سے تیار کی گئی فسطائیت کی اس آگ کے شعلے پورے ملک میں پھیلنے لگے ہیں۔ آج پنجاب اسمبلی میں جو کچھ ہوا اسے دیکھ کر لگتا ہے کہ اب عوام کی ایک دوسرے پر چڑھائی کی باری ہے۔ آئندہ چند دنوں میں یہ آگ مزید بھڑکے گی۔ تب کوئی آ کر اقتدار پر قبضہ کر لے تو بڑی حد تک حق بجانب ہو گا۔ کئی دفعہ عرض کیا ہے کہ بائی ڈیفالٹ عمران خان ایک ڈکٹیٹر ہے، اس کا بس چلے تو سب پر کتے چھوڑ دے

۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments