تربیت بچوں کا کھیل نہیں ہے


27 مارچ 2022 اتوار کی صبح لاہور کے ایک نجی مارکی میں ایجوکیشنل ریسورس ڈویلپمنٹ سنٹر (ERDC) کے زیر اہتمام ”Parenting Without Spoiling“ کے عنوان سے سیمینار میں شرکت کا موقع ملا۔ سیمینار سے کراچی کے معروف ایجوکیشنل سائیکالوجسٹ اور ای۔ آر۔ ڈی۔ سی کے بانی سلمان آصف صدیقی نے خطاب کیا۔ میرا اس سیمینار میں شرکت کا مقصد والدین کے تاثرات کا جائزہ لینا تھا۔ دوران گفتگو والدین کے چہروں کے بدلتے آثار اس بات کو ظاہر کرتے تھے کے شاید انہیں کبھی تربیت کے موضوع کو اس طرح دیکھنے کا موقع ہی نہیں ملا۔

سیمینار میں تین اہم سوالات پر بحث کی گئی۔ اول یہ کہ پیرنٹنگ کے بارے میں سیکھنے کی ضرورت کیوں ہے اور اگر اس حوالے سے سیکھا جائے تو کیا سیکھا جائے؟ دوم یہ کہ اگر پیرنٹنگ کے اس علم پہ توجہ نہ دی گئی تو اس کے نقصانات کیا ہوں گے؟ اور سوم یہ کہ ہمیں اس حوالے سے کیا کرنے کی ضرورت ہے؟

پہلا سوال اس حوالے سے بہت دلچسپ ہے کہ آخر بچوں کی تربیت کا علم سیکھنے کی کیا ضرورت ہے؟ اس سے قبل ہمارے باپ داد ابھی تو بچوں کی تربیت کرتے آئے ہیں۔

موجودہ دور آج سے چالیس سال قبل سے بہت مختلف ہے۔ دور قدیم میں بچوں کو بگاڑنے کے عناصر گھر کی چار دیواری اور محلے کی سرحد سے کہیں دور نظر آتے تھے۔ چچا کی بات کو بھی وہی مقام حاصل تھا جو باپ کی بات کو حاصل تھا۔ محلے کا بزرگ کسی نوجوان کو غلط سر گرمی میں مبتلا دیکھتا تو بلا جھجک اسے ڈانٹ دیا کرتا تھا۔

پھر وقت نے پلٹا کھایا۔ ہم ترقی کر گئے۔ اب بچوں کو بگاڑنے کے عناصر گھر کی چاردیواری عبور کر کے ہمارے کمروں تک پہنچ گئے ہیں۔ خونی رشتوں کو بھی اب بچوں کو سمجھانے کا اختیار نہیں رہا۔ یہی وجہ ہے کہ دور جدید میں پیرنٹنگ کی موضوع پہ سیر حاصل گفتگو اور اس علم کو سیکھنا ضروری ہو گیا ہے۔

ہم حکمت کے دور سے گر کر انفارمیشن کے دور میں داخل ہو چکے ہیں۔ بچے اب بزرگوں کی محفل میں بیٹھنے کو ترجیح نہیں دیتے کیوں کہ ان کا خیال ہے کہ ان بزرگوں سے جو فیض حاصل ہو سکتا ہے اس سے کئی زیادہ فیض ہم گوگل سے پا سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ رشتوں کا تقدس ختم ہو رہا ہے۔ ہر گھر میں چھوٹے چھوٹے اولڈ ایج ہوم کھلے ہیں جہاں بزرگ نوجوانوں کی راہ تکتے تکتے اپنی زندگی کے دن پورے کر رہے ہیں۔ اجنبیت بڑھ رہی ہے او ر تربیت مشکل ہوتی جار ہی ہے۔

اس علم پہ توجہ نہ ہونے کی وجہ سے تعلق کا جو بحران پیدا ہوا ہے وہ سنگین تر ہوتا جا رہا ہے۔ انفرادیت اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ ایک انسان اپنے گھر والوں سے کھانے کی میز پر ملاقات ہوئے عرصہ گزر چکا ہے لیکن وہ اس بات پہ خوش ہے کہ باہر کی دنیا اسے سوشل انسان کا لقب دیتی ہے۔ والدین وقت نہ ہونے کے باعث بچوں کو ڈے کیئر کے سپرد کر رہے ہیں اور نوجوان مصروفیات کے باعث بزرگوں کو اولڈ ایج ہوم چھوڑ رہے ہیں۔

قومیں افراد سے بنتی ہیں اور اگر افراد ہی تربیت کی عمل سے گزرے بغیر عملی میدان میں قدم رکھ دیں تو اخلاقیات کا تو شیرازہ بکھر جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں اخلاقیات کا بحران دن بدن بڑھتا جا رہا ہے۔ گھر کے افراد قدرتی طور پر ایک دوسرے کے نفسیاتی الجھنوں کا حل ہوا کرتے ہیں۔ لیکن ترقی کے اس دور میں مصروفیات کے عوض خود کو گروی رکھنے کے سبب نفسیاتی مسائل کی فہرست اور ماہر نفسیات کے کلینک کے باہر مریضوں کی لائن دن بدن لمبی ہوتی جا رہی ہے۔

اس بھاگتی ہوئی دنیا میں پل بھر کو رکیں۔ اپنی نفسیاتی صحت کا جائزہ لیں، غور و فکر کریں۔ رشتوں کی ترتیب درست کریں، خوشی کے لمحات بنائیں۔ گھر کے افراد آپس میں مل بیٹھیں تو غیبت، شکایت اور چیزوں کی قیمتوں سے نکل کر موضوعات پر گفتگو کریں۔ اگر ان باریکیوں کو نظرانداز کیا جاتا رہا تو سلمان آصف صدیقی صاحب کے بقول: جو گھر آج تربیت گاہ نہیں بن پا رہا وہ کل راحت کدہ بھی نہیں بن پائے گا۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments