نادیدہ خواب کا عفریت


جلا دو
کتابیں جو کہتی ہیں دنیا میں حق جیتتا ہے
کہ ہم جانتے ہیں
کہ جھوٹ اور سچ میں ہمیشہ ہوئی جنگ
اور
جھوٹ جیتا ہے
کہ نفرت امر ہے
کہ سچ ہارتا ہے
کہ شیطان نیکی کے احمق خدا سے بڑا ہے
۔ فہمیدہ ریاض

خنک ہواؤں کا ایک ریلا اس کی شکن زدہ سلوٹوں کو چھو کر گزر رہا تھا۔ وہ ایک بوسیدہ لحاف کے اندر تھی اور اس کے جسم کے ہر حصے میں تیزاب کی لہر دوڑ رہی تھی۔ کہ سورج کی زردی، تنگ روشن دان سے اس کے کمرے میں داخل ہوئی اور اس کے داغ دار چہرے کو چھو کر گزر گئی۔ اسے احساس ہوا کہ صبح ہو چکی ہے، اور قریب کہ اس کا وجود اب منجمد ہونے والا ہے۔ اسے یاد تھا کہ گزشتہ کل اس کی سپید اور وحشت ناک آنکھوں کو دیکھ کر کسی نے کہا تھا کہ تم زمین پر ایک ناقابل برداشت بوجھ ہو۔

اس نے تصور کیا کہ آیا بوجھ وہی ہوتا ہے جسے مزدور اٹھائے پھرتے ہیں، یا وہ کہ جسے میں اٹھائی پھر رہی ہوں؟ حمال کے لیے بوجھ تو اس کے سر پہ اٹھائی گئی گٹھری ہوتی ہے، میرے لیے کیا؟ شاید کہ میری روح میرے جسم پر بوجھ ہے۔ کیوں نہ میں اس بوجھ کو اتار پھینکوں۔ پھر وہ ایک چٹیل میدان میں ایسے ایستادہ ہو گئی کہ فطرت کے کچھ بدصورت مناظر کو کافی قریب سے دیکھ رہی تھی، اور اس گدھ کو بھی جو بادلوں سے نیچے آ کر اس کے سر کے اوپر چکر لگا رہا تھا۔ اس نے تصور کیا کہ اس کی وحشت ناک آنکھوں میں کل کائنات اتر چکی ہے۔ اور اس نے زمین، آسمان، سیارے ان سب کو اپنی مٹھی میں بھینچ لیا ہے۔ اور کسی گہرائی میں اور بہت دور، پاتال سے بھی بہت زیادہ گہرائی میں اور بہت دور، جہاں چٹانیں کائنات سے بھی بڑی ہوتی ہیں، لے جاکر پٹخ دیا ہے۔

وہ خوش ہوئی اور رقص کرنے لگی۔ مگر اس کی یہ خوشی پائیدار نہ رہ سکی۔ بہت جلد اس نے محسوس کیا کہ کائنات جوں کا توں ہے۔ سیارے اب بھی رقصاں ہیں۔ ندیاں، نالے اور آبشار سب اپنی دھن میں مگن ہیں۔ اس کی آنکھوں میں ایک طوفان اور اترا۔ وہ بادلوں کے رتھ پہ سوار ہوئی اور آسمان سے اس کی پہنائیاں ہٹانے سے لگی۔

فرشتو، مجھے بتلاؤ تو سہی کہ کبھی تم نے محبت کیوں نہیں کی؟ کوئی جواب نہ آیا۔
ہاں، بے جسم مخلوق محبت نہیں کرتی۔ وہ ہنسی۔

سورج بادلوں کے درمیان چھپ کر کپڑے تبدیل کر رہا تھا۔ دھوپ میں گھنے کہرے کے ساتھ ایک چمکدار خنکی تھی۔ دھندلے افق کے درمیان کچھ خوبصورت شکلیں بنتی تھیں۔ اور خوفزدہ کردینے والا ایک نادیدہ عفریت ان سب پہ حاوی ہو جا رہا تھا۔

بڈھے نے بھی دیکھا کہ اس کی بیٹی گھر میں کہیں نہیں ہے، وہ گھبرایا اور واش روم کی طرف دوڑ پڑا۔ دروازہ کھلا ہوا تھا۔ شاور سے پانی بہہ رہا تھا۔ کچھ گیلے کپڑے ہینگر سے لٹکے ہوئے تھے۔ بوڑھا خوف زدہ ہو کر گھر سے باہر نکلا۔ دھوپ کا نور غائب ہو چکا تھا اور گرم خون کو بھی منجمد کردینے والی شدت کی سردی نے پورے شہر کو برف کی چادروں میں ڈھانپ لیا تھا۔ بوڑھا لاپروا تھا، وہ تیزی سے سڑک پر چلتا رہا۔ مسلسل چلنے کا عمل جاری رکھنے کی وجہ سے اس کا وجود اب برف ہو چلا تھا۔

مگر اس کے دل میں عشق کا الاؤ اب بھی روشن تھا۔ وہ غیر آباد جگہوں سے نکلا اور ایک ویران جگہ میں جہاں جانوروں کے قدم کی کچھ دھندلی چھاپیں زمین پر گڑی ہوئیں تھیں، پہنچا۔ اس نے وہاں ایک لاغر ہرنی کو جھاڑیوں میں چھپتے دیکھا اور ایک خرگوش کو بھاگتے ہوئے۔ پھر اس نے اپنے قرب و جوار کو پرفسوں نگاہوں سے دیکھا۔ چہار جانب کی فضاء خاموشی میں ڈوبی ہوئی تھی‌۔ بہت دور ایک برگد کا بوڑھا درخت تھا جہاں، کچھ بچیاں اپنی مویشیوں کے ساتھ وقت گزاری کے عمل سے لطف اندوز ہو رہی تھیں۔ اس نے ان سب کو نظر انداز کیا اور آگے بڑھ گیا۔ لیکن بہت جلد اس نے محسوس کیا کہ اس کے دونوں ہاتھ مفلوج ہو رہے ہیں۔ پاؤں چلنے سے اسے روک رہا ہے۔ زبان کسی مردار سانپ کی طرح تالو سے چپک رہی ہے۔ کان سے کچھ پرندے اپنی پھڑپھڑاہٹ کے ساتھ اڑتے جاتے ہیں۔ وہ پھر بھی برگد کی طرف رینگتے ہوئے لپکا‌۔

اس نے دیکھا کہ بادلوں کے رتھ پہ سوار ایک سانولی لڑکی آسمان سے اس کی پہنائیاں ہٹا رہی ہے اور کچھ غیر مرئی قوتیں اس کی رکھوالی کر رہی ہیں۔

فرشتو، ذرا بتلاؤ تو سہی، کبھی تم نے محبت کی ہے؟ جسم، رنگ، روپ اور بہار کی بدصورتی کی تم نے کبھی شناخت کی ہے؟ نہیں کرو گے۔ کبھی نہیں کرو گے۔ مگر لافانی روح کی کھردری کھالیں پہن کر محبت کی جھوٹی نغمہ سرائی ضرور کرو گے۔

میری بچی تمہارا جسم گندا ضرور ہوا ہے تمہاری روح اب بھی شیشے کی طرح شفاف ہے۔ بوڑھے نے ٹھیک اپنے ناک کی سیدھ اسے چمکتی ہوئی آنکھوں سے دیکھا‌۔

میرا جسم بھی گندا کیوں ہو؟ تباہی میرے ذمے ہی کیوں؟ اس کے لہجے میں غصے اور اعتماد کی بحالی تھی۔

اسی اثناء دھندلے افق کے درمیان عفریت نما ایک بے لباس اور خوف زدہ کر دینے والا سایہ بلند ہوا۔ بالکل انسانوں جیسا۔ اس نے فضاء کے سکوت کو توڑ دیا۔ اس کے جسم کے ہر جگہ پہ سیاہ بالوں کا گچھا تھا اور وہ تیز ہوا میں لہرا رہا تھا اور اس کی دونوں دیوہیکل ٹانگوں کے درمیان اور اندھیرے غار جیسے اس کے سیاہ ناف کے نیچے ہاتھی کا ایک بدصورت سونڈ جھول رہا تھا۔

دیکھو، اسے غور سے دیکھو۔
سایہ؟
سایہ نہیں سونڈ۔
ہاں
دیکھو تو سہی اس کی تو روح بھی کیچڑ سے آلودہ ہے۔
اور جسم؟
جسم نہ کہو، سونڈ۔ وہ بھی ایک وحشی ہاتھی کا اور اس کے وجود کی بقاء بھی اسی بدصورت سونڈ سے ہے۔

لڑکی کے جسم پر ایک بچھو رینگ رہا تھا اور وہ اسے اپنے ہاتھوں سے سہلا رہی تھی۔ اسے احساس تھا کہ وقت تھم چکا ہے۔ سر پہ چکر لگا رہے گدھ کی آنکھیں ٹھہر چکی ہیں اور ہاتھی کا سونڈ اس کی طرف تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ اس نے سیاہ بادلوں کو اکٹھا کیا اور پوری قوت سے آسمان کو اپنی مٹھی میں بھینچ لیا اور افق پہ دے مارا۔ وہ خوش ہوئی اور رقص کرنے لگی۔ مگر اس کی یہ خوشی دیر پا نہ رہ سکی۔ بہت جلد اس نے محسوس کیا کہ کائنات جوں کا توں ہے۔ ندیاں، نالے اور آبشار اپنی دھن میں مگن ہیں۔ اور ہاتھی کا سونڈ جھولتا ہوا اس کی طرف آ رہا ہے۔ ایک طوفان پھر سے آیا اور آسمان کی پہنائیاں اس کی آنکھوں میں اتر گئیں۔ اس نے اپنے خدا کو پکارا۔

خدا، مجھے بتاؤ تو سہی کہ سچ اور جھوٹ کی جنگ میں جیت ہمیشہ جھوٹ کی کیوں ہوتی ہے؟ نفرت امر کیوں ہے خدایا؟ کہیں یہ سچ تو نہیں ہے اے ہمارے خدا کہ شیطان تیرے نیکی کے احمق خدا سے بڑا ہو چکا ہے۔

خدا خاموش رہا۔ اس کی طرف سے کوئی جواب نہ آیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments