صبا گل (خواجہ سرا) کے گھر ہماری افطار پارٹی


صبا گل کا نام ٹرانس جینڈر کمیونٹی کے معتبر ناموں میں سے ایک ہے۔ کمیونٹی صبا گل کو ماں کہ کر پکارتی ہے۔ انڈس ہومز، ٹرانس الائنز اور تڑپ کی بانی و صدر ہیں۔ دس اپریل کی صبح ہمیں صبا جی کی کال آتی ہے۔ کہتی ہیں ثاقب بھائی آج کا روزہ آپ نے ہمارے غریب خانے میں کھولنا ہے ناں نہیں چلے گی۔ میں نے درخواست کی کہ میں چل نہیں سکتا میرے لیے کہیں بھی آنا جانا عذاب سے کم نہیں ہوتا۔ صبا جی بولیں آپ نے آنا ہے باقی ہم سنبھال لیں گے۔

راولپنڈی کے علاقے ڈھوک حسو پہنچتے ہی ہم نے صبا جی کو کال کی۔ گلی میں پہنچا تو دیکھا کہ گلی میں کھڑی میرا انتظار کر رہی ہیں۔ چار لڑکوں کو بھیجا جو مجھے کرسی پر بٹھا کر ایک ہال میں لے گئے۔ ہال میں ڈیرہ سو کے لگ بھگ خواجہ سراء موجود تھے۔ مجھے جیسے ہی ہال میں بٹھایا گیا تو صبا جی میرے پاس آ گئیں اور کہنے لگیں کہ بڑی مہربانی کہ آپ نے ہمیں عزت بخشی۔ میں نے صبا جی سے پوچھا کہ اس وقت ہال میں کتنے خواجہ سراء ہیں۔

صبا جی بولیں یہ تو ایک ہال ہے ایسے تین ہال اور میرا گھر خواجہ سراؤں سے کھچا کھچ بھرا ہوا ہے۔ لگ بھگ دو ہزار سے زیادہ ہی ہوں گے ۔ یہ سب میرے بچے ہیں۔ میری ایک کال پر ملک کے مختلف علاقوں سے یہاں تشریف لائے ہیں۔ ہال کے ایک کونے میں دس بارہ لڑکے بیٹھے تھے میں نے پوچھا یہ لوگ کون ہیں تو صبا جی نے جواب دیا کہ یہ میڈیا کے نمائندے ہیں۔ صبا جی نے میڈیا کے نمائندوں سے میرا تعارف کرواتے ہوئے کہا کہ آپ نے مجھ سے جو سوال کرنے ہیں وہ آپ ثاقب صاحب سے بھی کر سکتے ہیں یہ ہمارے مسائل پر گہری نگاہ رکھتے ہیں۔

مغرب کی اذان سے چند منٹ قبل صبا جی نے دعا کروائی وہاں بیٹھے تمام لوگوں سے کہا کہ نماز کے فوری بعد کھانے کا اہتمام بھی ہے۔ اس لیے نماز پڑھ کر سب نے ہال میں واپس آنا ہے۔

کھانے کے بعد صبا جی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میری ایک کال پر دو ہزار سے زیادہ خواجہ سراء ملک کے مختلف شہروں سے تشریف لائے ہیں۔ میں ان سب کی شکر گزار ہوں۔ صبا جی کہا کہ افطار کی دعوت دیتے وقت انھوں نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ افطار میں صرف انہی لوگوں کو مدعو کیا جا رہا ہے جو روزے رکھ رہے ہیں۔ روزہ نہ رکھنے خواجہ سراء آنے کی زحمت نہ کریں۔

صبا جی نے میڈیا سے سوال کیا کہ آپ کو ہمارے روزے کی کون سی چیز عام لوگوں سے مختلف لگی۔ ہم بھی عام لوگوں کی طرح گوشت پوست کے انسان ہیں۔ مسلمان ہیں۔ عام لوگوں کی طرح سحر اور افطار کرتے ہیں۔

صبا گل نے کہا کہ خواجہ سراؤں کے حقوق کی تحریک کا ہم جنس پرستوں کی تحریک سے کوئی تعلق نہیں۔ خواجہ سراؤں کے حقوق کو ہم جنس پرستوں سے جوڑنا زیادتی ہے۔ خواجہ سراء اسلامی تعلیمات اور احکامات کے مطابق زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔

کھانے کے بعد میں اجازت چاہی تو صبا جی نے کہا کہ آپ ہمارے خاص مہمان ہیں ہم آپ کو اتنی آسانی سے نہیں جانیں دیں گے۔ پھر کچھ لڑکوں سے کہا کہ ثاقب صاحب کو میرے کمرے تک لے جاؤ۔ کمرہ دوسری منزل پر تھا۔ سیڑھیاں بہت اونچی اور تنگ تھیں۔ بڑی مشکل کے ساتھ مجھے اٹھا کر اوپر لے جایا گیا۔ پھر صبا جی نے میری ملاقات اپنے گرو سے کروائی جو خاص طور پر کراچی سے تشریف لائے تھے۔ کمرے میں کمیونٹی کے اہم رہنما، صبا جی کے ڈونرز اور میڈیا کے نمائندے بھی موجود تھے۔

صبا جی نے کہا کہ آپ کو زحمت دینے کا مقصد خواجہ سراء کمیونٹی کے اہم رہنماؤں سے آپ کی ملاقات کروانا اور آپ کے ساتھ میڈیا کو انٹرویو دینا تھا۔ پھر میں نے صبا جی کے ساتھ میڈیا کو انٹرویو دیا اور اجازت چاہی۔

صبا گل پوری محفل میں میری آگے پیچھے گھومتی رہیں۔ متعدد بار جوس کی بوتلیں کھول کر میرے سامنے رکھتی رہیں۔ گھر پہنچتے ہی موبائل فون چیک کیا تو صبا جی کا وائس میسج آیا ہوا تھا جس میں وہ کہ رہی تھیں کہ اپنے بھائی کو ٹائم اور توجہ نہ دینے کی وجہ سے وہ معذرت خواہ ہیں۔

میں گزشتہ ڈیرہ سال سے خواجہ سراؤں کے مسائل پر لکھ رہا ہوں۔ خواجہ سراؤں کے مسائل پر اب تک میری چودہ پندرہ تحریریں شائع ہو چکیں ہیں۔ ان سب کے باوجود آج تک میری کسی خواجہ سراء سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی۔ پہلی ہی ملاقات پاکستان کی سب سے معتبر خواجہ سراء سے ہوئی۔

ہمارے معاشرے نے خواجہ سراؤں کو گھروں سے نکال دیا ہے۔ رہائشی علاقوں میں کوئی انھیں گھر کرائے پر نہیں دیتا جس کی وجہ سے ہمارے اور ان کے درمیان وسیع فاصلہ پیدا ہو چکا ہے۔

رمضان کا مہینہ ابھی چل رہا ہے میری پڑھنے والوں سے گزارش ہے کہ خواجہ سراؤں کو اپنے گھروں میں افطار پر بلائیں یا پھر فیملی کے ساتھ ان کے گھروں میں ان کے ساتھ روزہ کھولیں۔ اس سے خواجہ سراؤں اور معاشرے کے درمیان فاصلہ کم ہو گا۔ دوسری طرف انسانی حقوق کی خدمت ہوگی۔ تیسرا سب سے بڑا فائدہ ہمارے ملک ہو گا وہ یہ کہ قومیں اسی وقت ترقی کرتی ہیں جب ان میں بسنے والے تمام افراد ترقی میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ ہماری تنزلی کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہماری خواتین، اقلیتیں، معذور افراد اور خواجہ سراء ملکی آبادی کا پچاس فیصد سے زائد ہیں لیکن ملکی ترقی میں ان کا کردار نہ ہونے کے برابر ہے۔ اگر ہم ترقی کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں سب کو ساتھ لے کر چلنا ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments