آئین پاکستان یا شرعی قانون؟


کسی بھی ملک کے باشندے جب ذہنی ابہام اور شکوک و شبہات کا شکار رہیں، تو وہ نہ صرف ہر قدم پہ غلطی کے مرتکب ہوتے ہیں بلکہ وہ اپنی منزل مقصود کے تصور کو بھی کھو بیٹھتے ہیں۔ جب قوم اسی مخمصے کا شکار رہے کہ ان کے اہداف کیا ہیں، ترجیحات کیا ہیں، ہمارا نظریاتی اور فکری تشخص کیا ہے، ہم نے نسل نو کی اٹھان کن خطوط پہ استوار کرنی ہے، ہماری منزل مقصود کیا ہے اور اس کی صحیح سمت کیا ہے، تو وہ معاشرہ ہر آن شکست و ریخت کا شکار ہو کر قومی وحدت اور مضبوطی سے محروم ہوجاتا ہے۔

یہ بات کسی بھی شک و شبہ سے بالاتر ہے کہ ایک ملک کے اندر قومی وحدت کی سب سے نمایاں علامت اس کا آئین ہوتا ہے، مگر حالیہ دنوں میں ایک نئے فکری اور نظریاتی مباحثے نے پنپنا شروع کر دیا ہے جس میں اس بات کا برملا اظہار کیا جا رہا ہے کہ ہمارے لئے پاکستان کا منظور شدہ آئین نہیں بلکہ اسلامی آئین قابل قبول ہے، لہذا ہم اپنے آپ کو اسی کے آگے سر تسلیم خم کرتے ہیں۔ اب چونکہ ہم اس آئین کو تسلیم ہی نہیں کرتے تو اس کی پاسداری بھی ہم پہ چنداں فرض نہیں۔

اسلامی آئین سے وفاداری کا نعرہ بظاہر خوشنما اور مسحور کن محسوس تو ہوتا ہے، مگر اپنے اندر تخریب اور تفریق کا ایک مکمل ساماں لیے ہوئے ہے۔ جس کی بایں وجہ ملک میں اسلام کے نام پر موجود انگنت تفرقہ جات اور ان کی اپنی بصیرت کے مطابق تشریح ہے۔ اور ایسے عالم میں کون سی تشریح سب کے لئے قابل قبول ہوگی یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے۔ اور دوسرا اس وقت اس نئی بحث کا دروازہ کھولنے کا مقصد ایک طرف تو فکری انتشار میں اضافہ ہے، جبکہ دوسری طرف ہمارے باطنی منافقانہ طرز عمل کی سب سے اہم عکاسی ہے۔

کیونکہ اسلامی آئین کے اس نعرے کا بانی مبانی وہ گروہ ہے، جس کے قائد نے چند ایام قبل اپنے الوداعی دنوں میں پورے ملک کو اپنی جھوٹی اور کھوکھلی انا کے سبب ایک ایسے مقام پر لا کھڑا کر دیا تھا، جہاں پورا ملک جمود کا شکار ہو کر اپنی بقاء کے خطرے سے دوچار ہو گیا تھا۔ اس ایک شخص نے اپنی اقتدار ہوس کی تسکین کے لئے ایک جائز آئینی عمل سے پہلو تہی برتتے ہوئے پوری دنیا میں ملک کی جگ ہنسائی کی، مگر جبین مقدس پہ شرمساری ایک شکن نمودار نہ ہونے دی۔

یہ گروہ عاشقاں اور شخصیت پرستی کے بت کا پجاری، اس بات کا جواب دینے سے عاری نظر آتا ہے کہ آج سے قریب ساڑھے تین برس قبل جب ان کی پسندیدہ جماعت کو غیر مرئی بندوبست کے سہارے، اقتدار دلوایا جانا مقصود تھا اس وقت کسی بقراط عصر کو اسلامی آئین کا پرچار کرنا یاد نہیں تھا، اور اب یہ جماعت اپنے اعمال سیئات کی بدولت اقتدار کی غلام گردش سے اپنے پورے لاؤ لشکر سمیت ایک جائز آئینی عمل سے رخصت ہو چکی تو اب اسلام اور اسلامی آئین کے مروڑ پیٹ میں پڑنا شروع ہو گئے۔

ایں چہ بوالعجبی است؟ اسلامی آئین کے پرچارک اور اس کے ساتھ محبت کا دم بھرنے والے یہ بات طاق نسیاں میں کیوں ڈال دیتے ہیں کہ ان کی پسندیدہ جماعت اور اس کے قائد نے ماضی قریب میں اسی ”غیر اسلامی“ آئین کے تحت حلف لے کر اس کی اطاعت کو اپنے اوپر واجب کیا تھا، مگر کیا اس وقت یہ گروہ عاشقاں سو رہا تھا؟ اس وقت تو کسی کو اس قدغن کا خیال نہ آیا، اور آج اقتدار چھن جانے کے بعد ہمیں اس آئین کے سارے عیوب و نقائص نظر آنا شروع ہو گئے۔

کیا یہ گروہ عاشقاں دل سے اسلام کی حاکمیت کو تسلیم کرتا ہے، اس کا جواب ہرگز مشکل نہیں۔ ایک ایسا گروہ جس کے یہاں کذب بیانی تمغہ شعار ہو، اور جو معاشرے میں کل انسانیت کی فلاح و بہبود کی بجائے ایک مخصوص طبقے کے مفادات کا تحفظ کرے۔ جو تعلیم کے نام پر جہالت پھیلائے اور جو ملکی وقار میں اضافے کی بجائے اس کی ذلت اور رسوائی کا سبب بنے اور پھر اس پہ مستزاد اپنی اس خیالی جنت کو مدینہ کا نام دے، تو ایسے میں جب اس کے حواری اور معتقدین اسلامی آئین کا نعرہ بلند کریں تو انسان حیران ہو کر یہ سوچنے پہ مجبور ہوجاتا ہے کہ یہ گروہ عاشقاں آخر چاہتا کیا ہے؟

اس گروہ عاشقاں کو غالباً یہ معلوم نہیں ہو گا کہ اس ملک کا موجودہ آئین ایک متفقہ دستاویز ہے، جس نے اس کی اکائیوں اور افراد کو وحدت کی لڑی میں پرویا ہوا ہے۔ یہ دستاویز ہمارے قومی تشخص کی علامت اور نشان امتیاز ہے۔ مگر اب اس کے آگے گردن جھکانے کی بجائے، ایک نئی لایعنی بحث کا باب کھولنے کا مقصد اس ملک کی بنیادوں سے کھیلنا اور اس کی سلامتی کو خطرے میں ڈالنا مقصود ہے۔ کیا کسی اور بھی اسلامی ملک کا آئین مکمل اسلامی ہے؟

اگر نہیں تو پھر کیا وجہ ہے کہ ہمیں وہاں اس طرز کے تخریب کاری کی دعوت دیتے نعرے اور آئین شکنی والے عوامل نظر نہیں آتے۔ کیا ان ممالک کے مسلمانوں کا ایمان ہم سے زیادہ کمزور ہے، جس کے با وصف وہ ان نعروں کو لگانے سے قاصر ہیں؟ ہر گز نہیں، البتہ ان کا اجتماعی شعور انہیں اپنے آئین سے وفاداری اور اس کے آگے سر تسلیم خم رکھنے پہ مجبور رکھتا ہے۔

لہذا ان مباحث کا پرچار کرنا اس امر کی غمازی کرتا ہے کہ ہم اسلام کے پردے میں شخصی احیاء اور اپنی ذات کا پرچارک چاہتے ہیں۔ کیونکہ اگر اسلام کے احکامات پہ عمل داری مقصود ہوتی، تو معاشرے میں جھوٹ اور جہالت پھیلانے کی بجائے سچ اور علم کی بات کی جاتی۔ یہ سب کچھ تو نہ ہوسکا، البتہ ایک ایسی عشاق کی جماعت تشکیل دے دی گئی جو اماں تو چیز دیگرے نیست پہ مکمل ایمان رکھنے کے ساتھ ساتھ فریق مخالف کی جان، مال اور آبرو سب کو حلال سمجھتی ہے۔ اس گروہ عاشقاں سے اب ’عزت سادات‘ تک جب محفوظ نہیں، تو ہما شما کس قطار میں آتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments