صورتِ حال کو سنبھالنے کی ضرورت ہے


عمران خان کہ انتہائی پیچیدہ سیاسی، معاشرتی، سیکیورٹی حتی کہ سفارتی معاملات کو بھی بے حد سادہ بیانئے میں بدلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، ’مراسلے‘ کو ایک ’ایشو‘ بنانے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ چنانچہ کروڑوں پاکستانیوں کا خیال ہے کہ عمران خان کی حکومت کو ایک منظم سازش کے ذریعے گرایا گیا ہے۔ ٹویٹر پر ’امپورٹڈ حکومت نا منظور‘ کا ہیش ٹیگ مقبولیت کے اگلے پچھلے تمام ریکارڈ توڑ چکا ہے۔ اسے سازش کہا جائے یا مداخلت، یہ بات طے ہے کہ جو بائیڈن انتظامیہ عمران خان کے ساتھ کام کرنے سے انکار کر چکی تھی۔ مراسلے میں کچھ اور ہو نا ہو، بہر حال یہ دھمکی ضرور تھی کہ ’عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد ناکام ہوئی تو اس کے نتائج ہوں گے‘ ۔

جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ نپولین کے زمانے سے ہی فوجیں خالی پیٹ مارچ نہیں کرتیں۔ اب تو ٹینک، جیپیں اور جدید طیارے بھی پٹرول کے بغیر نہیں چلتے۔ پٹرول کے حصول کے لئے خالص ڈالرز کی ضرورت پڑتی ہے۔ جو لوگ عمران خان کی اسٹیبلشمنٹ کی حمایت سے محرومی کو مدت ملازمت میں توسیع کی خواہش سے جوڑتے ہیں، ان کی بے ذوقی پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔ یقیناً مقتدرہ کے سامنے مسائل کی نوعیت کہیں بڑھ کر پیچیدہ اور سنگین ہوگی۔ کہا جا سکتا ہے کہ کہیں نہ کہیں ضرور عمران خان کے قومی بوجھ بن جانے کا احساس جاگزیں ہوا ہو گا۔ ضرور یہ سوچا گیا ہو گا کہ ایک فرد ملک سے ہرگز زیادہ اہم نہیں۔ خیال اگرچہ درست ہے، مگر نتائج کے حساب کتاب میں کہیں چوک ہو گئی۔

بشمول بے نظیر بھٹو، کئی قومی شخصیات کی طرح عمران خان نے بھی مشرف کے مارشل لا ء کا استقبال کیا تھا۔ عمران خان نے ایک قدم آگے بڑھ کر ریفرنڈم میں بھی مشرف کا ساتھ دیا۔ تاہم فوجی آمر سے اس وقت بگڑے جب چار سو اس کا طوطی بولتا تھا۔ مقتدرہ کا ایک اہم افسر مشرف کا پیغام لے کر بنی گالا پہنچا تو لان میں ٹانگیں پسارے، ٹانگہ پارٹی کے سربراہ نے ہاتھ کے ایک اشارے سے کھڑے کھڑے لوٹا دیا۔ وہی شخص آج کروڑوں پاکستانیوں کے دلوں پر راج کرتا ہے۔ اندازہ یہی تھا کہ عمران خان اپنی مقبولیت کھو چکے ہیں۔ عمران خان یقیناً ملک سے بڑے نہیں ہیں۔ عدم اعتماد ہی ان کو حکومت سے باہر کرنے کا بہترین راستہ تھا۔ تاہم عدم اعتماد کی تحریک کے لئے بھان متی کا کنبہ راتوں رات جس طرح سندھ ہاؤس میں ہانکا گیا، کئی وسوسوں کو جنم دے گیا۔

صورت حال یہ ہے کہ حکومت گرنے کے بعد سے عمران خان کی عوامی مقبولیت بام عروج پر پہنچ چکی ہے۔ قائد اعظم سے تقابل تو ہر گز جائز نہیں۔ تاہم اس پیمانے پر اندھی عوامی تائید کے باب میں حالیہ دنوں کے عمران خان کا اگر کسی سے موازنہ کیا جا سکتا ہے تو وہ رہائی کے بعد لاہور ائر پورٹ پر اترنے والے ذوالفقار علی بھٹو ہیں۔ عشروں پہلے، اپنے والد صاحب کے پہلو میں متحیر کھڑے لاہور کی مال روڈ پر انسانوں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر دیکھا تھا، برسوں بعد اسی حیرت سے خلق خدا کو گزشتہ اتوار شہر شہر سڑکوں، چوراہوں پر نکلتے دیکھا۔

مین سٹریم میڈیا کے بائیکاٹ کے باوجود ان مظاہروں کی شدت اور ان سے پھوٹنے والی حدت کو قید نہ کیا جا سکا۔ دیکھتے ہی دیکھتے سوشل میڈیا ناقابل تصور ویڈیوز سے بھر گیا۔ ادھر پشاور کے جلسے کے عینی شاہد ین بتاتے ہیں کہ تا حد نظر پھیلے انسانوں کے سمندر میں شرکاء کے چہرے شدت جذبات سے دھمک رہے تھے۔ چالیس سال سے امریکی جنگ بھگتنے والوں سے زیادہ امریکہ کو کون جانتا ہے؟ اپنی تقریر میں عمران خان نے امریکہ کے علاوہ پہلی بار اعلیٰ عدلیہ سے بھی کچھ سوالات کیے ۔ پھر جیسے خود کو روک لیا ہو۔

صورت حال یہ ہے کہ مرکز اور پنجاب میں اکثریتی پارٹی کے ارکان اسمبلی کی مبینہ خرید و فروخت کے نتیجے میں ملک کے مقبول ترین سیاسی رہنماء کو اقتدار سے محروم کر دیا گیا ہے۔ اب جبکہ تحریک انصاف کے 123 ارکان قومی اسمبلی مستعفی ہو چکے ہیں تو عوامی نمائندوں کی خرید و فروخت کی پہچان رکھنے والے ’جادوگر‘ ان میں سے کم ازکم پچاس ارکان کی اسمبلی میں واپسی کا دعوی کر رہے ہیں۔ جب یہی ’جادوگر‘ جمہوریت پر بھاشن دیتے ہیں تو جمہوریت سے گھن آنے لگتی ہے۔

الیکشن کمیشن نے فارن فنڈنگ کیس ایک ماہ کے اندر نپٹانا ہے۔ سرکاری مواد کی چھان پھٹک زوروں پر ہے۔ ایک عجلت کا احساس ابھر رہا ہے۔ ٹی وی سکرینوں پر عمران کے مخالفین واپس لوٹ رہے ہیں، جبکہ ان کی حمایت میں بولنے والوں کو ہٹایا جا رہا ہے۔ اسلام آباد کے ایک ہوٹل میں ایک شہری پر تشدد کے نا پسندیدہ واقع کے بعد لیگی رہنماء کا ویڈیو پیغام کچھ اور نہیں حکمرانوں کے تکبر اور رعونت کو ظاہر کرتا ہے۔ لاہور میں ایک حاضر سروس آرمی افسر کو جس طرح ایک لیگی رہنماء کے گارڈز نے بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا، کہا جا سکتا ہے اس واقعے نے تنخواہوں اور پینشنوں میں اضافے کے ذریعے مڈل کلاس کا دل جیتنے کے خواہشمند نئے وزیر اعظم کی کاوشوں پر پانی ہی پھیرا ہے۔

اندریں حالات کیا ڈی جی آئی ایس پی آرکی پریس کانفرنس ایک مناسب اقدام تھا؟ ضرورت تو اس امر کی ہے کہ عمران خان کو فوری طور پر دیوار سے لگانے کی کسی بھی کوشش کی حمایت کے صحیح یا غلط تاثر کو زائل کیا جائے۔ احتساب کے نام پر انتقام کی خاطر قومی اداروں کا استعمال عوامی غم و غصہ میں اضافہ کا ہی سبب بنے گا۔ ہم جانتے ہیں کہ حکمران پارٹی میں ایک گروہ ہے جو عمران خان کو کم ازکم ایک بار جیل بھیجنے کے لئے بے قرار ہے۔

ایسے خواتین و حضرات کی تسکین طبع کے لئے عمران خان کی گرفتاری سے ہر ممکن احتراز برتا جائے۔ سوشل میڈیا پر جو بھی لکھا، کہا جا رہا ہے، اس سے قطع نظر جلسے جلوسوں اور پرامن مظاہروں میں کی جانے والی تقریروں اور رہنماؤں کے ٹویٹر پیغامات پر اب بھی اس حد کو عبور نہیں کیا جا رہا، کہ جو باپ بیٹی نے اکتوبر 2020 ء میں پھلانگی تھی۔

وطن عزیز کو در پیش بے یقینی سے نکالنے کے لئے موجودہ حکومت اور تمام قومی اداروں کی توجہ کا واحد مرکز فی الفور قومی انتخابات کے روڈ میپ کا اعلان اور ان کا منصفانہ انعقاد ہونا چاہیے۔ ضرورت ہے کہ عمران خان بھی سیاسی درجہ حرارت کو مناسب حد تک نیچے لاتے ہوئے اپنی توانائیاں خود احتسابی اور پارٹی کی تنظیم نو پر صرف کریں۔ ہماری تاریخ میں کوئی طبقہ اور کوئی ادارہ غلطیوں سے مبرا نہیں رہا۔ اللہ نے چاہا تو ہم بحیثیت قوم تمام سیاسی و معاشی امتحانات میں ایک بار پھر سرخرو ہو کر نکلیں گے۔ لازم ہے کہ تاریخ کے اس اہم موڑ پر کم از کم کوئی ایسی غلطی دوبارہ نہ دہرائی جائے کہ جس کا نتیجہ ہم ماضی میں بھگت چکے ہوں۔ عوام اور قومی اداروں کے درمیان ایک ایسی خلیج کہ جسے پاٹا نہ جا سکے، ہمارے دشمنوں کا بنیادی ہدف ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments