دلیل اور تلوار


کنٹینر پر کھڑے ہینڈسم نے تقریر میں کہا کہ ملک تباہی کے دہانے پر آ چکا ہے، دنیا میں پاکستان کی حیثیت ایک فقیر کی سی ہو چکی ہے اور پچھلے چالیس سالوں میں میرے وطن کو دونوں ہاتھوں سے بڑی بے رحمی سے لوٹا گیا ہے اور اب ہمیں اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے لئے کئی گنا توانائی کی ضرورت ہے۔ معیشت، صحت اور سماجیات اپنی آخری سانسیں لے رہی ہیں۔ اگر آج ہم نے ملک کو نا بچایا تو ملک خدا ناخواستہ دیوالیہ ہو سکتا ہے۔ ایسی باتیں اور نعروں پر کون نا قربان جائے اس میں کوئی شک نہیں۔

ملک کو ایسی ہی لیڈر کی ضرورت تھی، اس وقت تک لگ یہ رہا تھا کہ یہ سب باتیں دماغ سے نہیں دل نکل رہی ہیں اور یقیناً ایک محب وطن اور قوم کا درد رکھنے والا ہی ایسے چیخ سکتا ہے۔ وہاں یہ بھی کہا گیا کے ہم اپنے ملک کو خوددار بنائیں گے یہ بھی کہ اپنے وطن کی اقلیتوں کو وی آئی پی سمجھتے ہیں اور ان سے ایسا سلوک کریں گے کہ دنیا رشک کرے گی یہ الگ بات ہے انہیں کبھی کسی فیصلہ سازی میں مدعو نہیں کیا گیا بلکہ مینارٹی ونگ کا ایک لولی پاپ سا دے کر کونے میں بٹھا دیا جاتا ہے۔

کنٹینر کے نیچے ایک ایسی کلاس جذبے سے سرشار خان صاحب کی تقریروں پر عش عش کر رہی تھی اور کبھی کبھی میوزک کے وقفے سے خان کے متعلق بنائے گے ترانوں پر جھوم بھی رہی تھی اپنے باپ سے بڑی عمر کے خان کو بچیاں زندگی کا آئیڈیل سمجھ کو جان نثار کر نے پر تیار نظر آ رہی تھی۔ نوجوان جوانی کے جوش سے لبریز خان کے ایک اشارے پر کچھ بھی کرنے کے لیے تیار دکھائی دے رہے تھے۔ یوتھ کے اس تین یا چار ماہ کے سیاسی کورس میں خان نے تقریباً اسی فیصد یوتھ کو ایک نیا وژن دے دیا تھا دھرنے کے پورے دور میں قوم کو سیاست کی زبان بخش دی گئی لیکن طاقت بغیر اخلاقی تربیت کے تباہی برپا کر دیتی ہے اور کبھی کبھی تو اگر جوش کے اس سیلاب پر ڈیم نہ تعمیر کیے جائیں تو یہ شہروں کے شہر بہا کر لے جاتے ہیں۔ خان صاحب کی ذہانت کو سات سلام جنہوں نے ملک میں ایک نیا بیانیہ قائم کر کے ثابت کر دیا ہے قوم کے بچوں کی اخلاقیات کیسے برباد کی جا سکتی ہے جس کا ثبوت یہ سوشل میڈیا پر ہونے والا ایک طوفان بد تمیزی ہے۔

وہ جو ایک کروڑ درخت لگا نا چاہتے تھے لگتا ہے وہ درخت بد اخلاقی کے کیکر لگا دیے گئے ہیں جس کی چھاؤں کے نیچے بیٹھا نہیں جا سکتا۔ کیونکہ وہاں پر کیٹر پلر ( (Caterpillar جس کو پنجابی میں پبھو کتے کہا جاتا ہے آپ کے کپڑوں میں گھس کر آپ کو پریشان کر دیتے ہیں۔ لیڈر قوموں کے باپ ہوتے ہیں اور جن کے والدین بدتمیز ہوں ان کے بچوں میں ہمیشہ اخلاقیات کا فقدان رہتا ہے۔ جن قوموں میں دلیل ختم ہو جائے وہاں علم ناپید ہوجاتا ہے۔

سیاست تو نام ہی نظریاتی اختلاف کا ہے اور مسائل کا حل حکمت عملی اور دلیل سے ہے لیکن آپ نے نفرت کے درخت لگا کر دلیل کا قتل ہی کر دیا ہے۔ پیارے ہینڈسم آداب گفتگو تربیت کا پتا دیتے ہیں دنیا حیران ہے کہ مہذب دنیا کا تعلیم یافتہ بدتہذیب کیسے ہو سکتا ہے اور اگر آپ یہ سب غصے سے کر رہے ہیں تو بدحواسی عقل کو نگل جاتی ہے۔

نئی نسل آپ کو اپنا راہنما اور ہیرو مانتی ہے اور آپ کے نقش قدم پر چلنا اپنے لیے اعزاز سمجھتی ہے۔ ملک میں شدت پسندی پہلے ہی اپنے عروج پر تھی اور لوگ دلیل کے بجائے تلوار کا سہارا لیتے تھے اتنے میں اگر ڈائیلاگ کے رواج کو فروغ نا دیا گیا تو یہ نفرت کی آگ خدا نخواستہ ملک کو کھا جائے گی۔ دنیا میں ہمارے پاسپورٹ کی عزت ہماری غربت کی وجہ سے نہیں ہماری ہٹ دھرمی اور امن کے فقدان کی وجہ سے ہے باقی آپ کو تو سارا علم ہے پس بہتر ہے کہ سیاست براستہ حکمت عملی اور دلیل سے کی جائے۔

ایک تعلیم یافتہ سیاست دان کے منہ سے غیر پارلیمانی الفاظ اس کی ذہنی بالیدگی پر سوالیہ نشان چھوڑ دیتے ہیں۔ قانون اور آئین میں رہ کر سیاست کریں جتنا چاہے سخت موقف اختیار کریں آپ کا یہ جمہوری اور سیاسی حق ہے آپ کو کس نے روکا ہے ملک کی خدمت کرنے کو ۔ یہ دنیا گلوبل ولیج ہے یہاں سب کے ایک دوسرے کے ساتھ انٹرسٹ جڑے ہوئے ہیں۔ خود کو تنہا کر کے سوائے بھوک ننگ کے کچھ نہیں ملے گا۔ قوم کو گمراہ نہ کریں اور درست سمت میں سیاست کریں۔ پاکستان کے اداروں کو اپنا کام کرنے دیں ہمیں یقین ہے ہمارے ملک کی عدلیہ اور فوج ملکی مفاد میں اپنا بہتر دینے کی کوشش کرے گی اور کر بھی رہے ہیں۔ انتہاپسندی مردہ باد اور پر امن پاکستان پائندہ باد


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments