عمران خان کا دور حکومت، آزادی اظہار رائے کے حوالے سے کیسا رہا؟


حکومت میں آنے سے قبل عمران خان صاحب اکثر فرمایا کرتے تھے کہ ”سلجھی ہوئی ریاستوں میں اظہار رائے پر کوئی قدغن یا پابندی نہیں لگائی جاتی۔ اس ضمن میں اکثر وہ ہمیں مغربی ممالک کی مثالیں بھی دیا کرتے تھے کہ وہاں پر کیسے آزادی اظہار رائے پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا جاتا؟ اس کے ساتھ وہ یہ دعویٰ بھی کیا کرتے تھے کہ جب وہ اقتدار میں آئیں گے تو سرکاری ٹیلی ویژن چینل پی ٹی وی کی ہیئت بدل کر برطانوی نشریاتی ادارے“ بی بی سی ”کی طرز پر کر دیں گے۔ جس پر حکومت کا کوئی کنٹرول نہیں ہو گا۔

مگر جب 2018 میں عمران خان صاحب وزیراعظم بنے تو اپنے بہت سے باقی دعووں کی طرح آزادی اظہار رائے اور میڈیا کے حوالے سے کیے گئے ان کے دعوے بھی محض دعوے ہی رہ گئے۔ کیونکہ ان کے دور حکومت میں آزادی اظہار رائے پر قدغنوں کے حوالے سے جو رویہ ہمیں دیکھنے کو ملا، اس کی مثال پاکستان کی جمہوری حکومتوں میں تو اس سے پہلے شاید نظر نہیں آتی۔ اس امر کا اندازہ یوں لگایا جاسکتا ہے کہ جب 2018 میں عمران خان صاحب نے اقتدار سنبھالا تو ”ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس“ پر پاکستان دنیا کے 180 ممالک میں 139 ویں نمبر پر موجود تھا۔

” رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز“ کی اس عالمی رینکنگ کے مطابق 2019 میں پاکستان کا نمبر تین درجے تنزلی سے 142 ہو گیا۔ جبکہ سال 2020 میں یہ مزید تین درجے نیچے گرا اور 145 پر پہنچ گیا تھا۔ جو کہ 2021 میں بھی اسی پوزیشن پر رہا۔ یہی نہیں بلکہ ”رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز“ کی طرف سے عمران خان صاحب کو 2021 میں میڈیا سنسرشپ اور آزادی اظہار رائے پر پابندیوں کی وجہ سے ”پریڈیٹر“ بھی قرار دیا گیا تھا۔

اس سب کی وجوہات میں میڈیا گروپس کے اشتہارات کا بند ہونا ( جن میں ”جنگ گروپ“ اور ”ڈان گروپ“ شامل تھے ) ، صحافیوں پر حملے ہونا اور ان کا اغواء ہونا ( جن میں ابصار عالم، مطیع اللہ جان، اسد طور شامل تھے ) ، کئی معروف اینکرز کا مین سٹریم الیکٹرانک میڈیا کے چینلز سے نکل جانا یا آف ائر ہوجانا ( جن میں نجم سیٹھی، حامد میر، طلعت حسین اور دیگر شامل تھے ) ، اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے سیاسی رہنماؤں کے ان ائر آنے پر پابندی عائد ہونا اور مختلف ریگولیٹری اتھارٹیوں کے ذریعے مین سٹریم پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ساتھ ڈیجیٹل میڈیا اور سوشل میڈیا کو بھی کنٹرول کرنے کی کوششیں شامل تھیں۔

” رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز“ کے مطابق گو کہ یہ سب پاکستان کی مضبوط ملٹری اسٹبلشمنٹ کے کہنے پر ہی کیا جاتا رہا، لیکن اس سب کو پورا کرنے کے لئے عمران خان ایک سہولت کار کے طور پر استعمال ہوتے رہے۔

اسی طرح انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان نے فروری 2022 میں ”آئی اے رحمان گرانٹ سیریز“ کے تحت، ”سچ کی ایک قیمت ہوتی ہے“ کے نام سے پاکستان میں میڈیا سنسرشپ کے حوالے سے ایک رپورٹ شائع کی۔ جس میں عمران خان صاحب کے اقتدار میں آنے کے بعد پاکستان میں آزادی اظہار رائے کی صورتحال پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس رپورٹ میں مین سٹریم اور ڈیجیٹل میڈیا سے تعلق رکھنے والے صحافیوں، ایڈیٹروں، تجزیہ نگاروں، وکلاء اور سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے تیس افراد کے انٹرویوز شامل کیے گئے ہیں۔

ان انٹرویوز میں عمران خان صاحب کے دور حکومت میں میڈیا سنسرشپ اور آزادی صحافت کے حوالے سے سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے۔ رپورٹ کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلے حصہ میں کچھ کیس سٹڈیز کی مدد سے یہ بتایا گیا ہے کہ اس دور میں

اس دور میں کیسے صحافیوں کو ڈرایا اور دھمکایا جاتا رہا، کیسے ان کو اغواء کیا گیا، ان پر حملے کروائے گئے، ان کے خلاف سوشل میڈیا پر کمپین چلوائی گئیں جن میں ان کی کردار کشی کے ساتھ خواتین صحافیوں کو ہراساں کرنا بھی شامل تھا۔ رپورٹ کے دوسرے حصے میں یہ بتایا گیا ہے کہ ریاست اور حکومت کی طرف سے کیسے میڈیا مالکان اور ایڈیٹرز کو مخصوص ہدایات جاری کی جاتی رہیں اور ان ہدایات کو نہ ماننے کی صورت میں نتائج بھگتنے کا کہا جاتا رہا۔

جبکہ رپورٹ کے تیسرے اور آخری حصے میں خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں کام کرنے والے صحافیوں کو درپیش مسائل پر بات کی گئی ہے۔ اس رپورٹ میں بھی ”رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز“ کی رپورٹ کی طرح یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ جس طرح سے عمران خان اور ان کی حکومت نے ریاستی اداروں کو آزادی اظہار رائے پر قدغنیں لگانے اور میڈیا کو صرف اپنی مرضی اور منشاء کے مطابق چلانے کے لئے مدد فراہم کی ہے۔ اس کی مثال گزشتہ جمہوری حکومتوں میں دیکھنے کو تو نہیں ملتی۔

اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ غالباً عمران خان صاحب، خود بھی ایک آمرانہ ذہنیت رکھنے والے انسان ہیں۔ اس لیے شاید وہ اپنے اور اپنی حکومت کی پالیسیوں کے خلاف کوئی بھی بات سن ہی نہیں سکتے۔ تبھی انہوں نے جب بھی انٹرویوز دیے تو اپنے پسندیدہ ان ٹی وی اینکرز کو دیے جن کا انہیں پتا تھا کہ وہ ان سے سخت سوالات نہیں کریں گے۔ وہ اکثر اپنے انہی فیورٹ ٹی وی اینکروں اور یو ٹیوب وی لاگرز سے ملاقات کیا کرتے تھے اور ان کو مخصوص ہدایات جاری کیا کرتے تھے۔ تاکہ وہ سب ان ہدایات کی روشنی میں بطور ”اوپینین لیڈرز“ عمران خان صاحب کے حق میں بیانیہ ترتیب دے کر اس ضمن میں رائے عامہ ہموار کرتے رہیں۔

عمران خان صاحب کی آمرانہ سوچ کی عکاسی ان کے خلاف آنے والی تحریک عدم اعتماد کے بعد ان کی طرف سے اپنائے گئے رویے اور طرز عمل سے بھی ہوتی ہے۔ کہ محض اپنی کرسی بچانے کے لئے کیسے انہوں نے آئین پاکستان کو بھی بالائے طاق رکھ دیا۔ اس لیے اپنے اقتدار میں آنے سے پہلے وہ جو آزادی اظہار رائے کے حوالے سے گفتگو فرمایا کرتے تھے وہ محض لفاظی کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں تھا۔

اب جب تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں وہ اقتدار سے رخصت ہوچکے ہیں اور بظاہر ریاستی ادارے بھی ”نیوٹرل“ ہو چکے ہیں۔ تو امید کی جا سکتی ہے کہ اب آزادی اظہار رائے پر نہ تو ویسی قدغنیں لگائی جائیں گی جس کا عملی مظاہرہ عمران خان صاحب کے دور حکومت میں دیکھنے کو ملا اور نہ ہی میڈیا کو ویسی سنسرشپ کا سامنا کرنا پڑے گا جیسا گزشتہ ساڑھے تین سال میں میڈیا کو کرنا پڑا ہے۔ اور آنے والا یہ دور حکومت آزادی اظہار رائے کے حوالے سے کچھ بہتر ثابت ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments