سماج کی رگوں میں آتش گیر مادہ


میں اپنے ایک بے تکلف دوست کے ڈرائنگ روم میں داخل ہوا تو قالین پر بے شمار چیزیں بکھری ہوئی تھیں۔ ٹافیاں، جُوس کے ڈبے اور طرح طرح کے کھلونے ۔ دوست کی سترہ سالہ بیٹی کا چہرہ، نو عمری کے جوش سے تمتما رہا تھا۔ ’’ سوری انکل ! میں یتیم بچوں کے لیے تحفوں کے پیکٹ تیار کر رہی ہوں۔ کل کلاس فیلوز کے ساتھ orphanage(یتیم خانہ) جانے کا پروگرام ہے۔‘‘ میرے دوست نے فخر سے بیٹی کو کہا ،’’انکل کو اُن یونیورسٹیوں کے بروشر دکھائو، جہاں تم نے ایڈمشن کے لیے اپلائی کیا ہے۔‘‘ نوجوان لڑکی کی آنکھیں چمکنے لگیں۔ وہ مجھے مختلف برطانوی اور امریکی یونیورسٹیوں کے معلوماتی کتابچے دکھانے لگی۔ عمدہ کاغذ پر یونیورسٹیوں کی خوبصورت تصویریں تھیں۔ اِس پس منظر میں ، لڑکے اور لڑکیاں ہاتھوں میں کتابیں تھامے ، بے تکلف انداز میں، مسکراتے چہروں کے ساتھ، محو گفتگو تھے۔ لڑکی کی آنکھیں، مستقبل کے سپنوں سے روشن ہو گئیں۔ اس نے کہا انکل !’’ہم یتیم خانے بھی اسی لیے جا رہے ہیں۔‘‘ میری آنکھوں میں سوال دیکھ کر، اُس نے وضاحت کی ۔ ’’ہمارے اسکول کے foreign admission (بیرونِ ملک یونیورسٹیوں میں داخلے) کے انچارج بہت intelligent (سمجھ دار) ہیں۔ اُنہوں نے ہمیں guide (رہنمائی) کیا کہ بیرون ملک کی یونیورسٹیاں ، داخلہ دیتے وقت candidate (اُمیدوار ) کے social work(فلاحی کام)کو بہت اہمیت دیتی ہیں۔ ہماری application (داخلے کی درخواست) میں یتیم بچوں کے ساتھ وقت گزارنے اور تحفے دینے کا سرٹیفکیٹ ملنے سے ایڈمشن کا چانس بہتر ہو جائے گا۔ لڑکی کے والدنے بات آگے بڑھائی، ’’کل یہ beach (ساحلِ سمندر)بھی گئی تھی۔‘‘ لڑکی نے کہا ’’انکل ! میں آپ کو تصویریں دکھاتی ہوں۔‘‘ نوجوان لڑکے لڑکیاں ہاتھوں پر دستانے چڑھائے ساحلِ سمندر سے پلاسٹک بیگ، کاغذ کے کپ اور خالی ڈبے ٹوکریوں میں ڈالتے نظر آئے۔’’ سوشل ورک کے سرٹیفکیٹ ملنے سے داخلے کا امکان بڑھ جائے گا۔‘‘لڑکی نے وضاحت کی۔ میں کچھ کہنا چاہتا تھا مگر بچی کی ذہنی کیفیت اُس پرفشاں پرندے کی مانند تھی جو نئے آسمانوں کی کھوج میں اُڑان بھرنے کیلئے بے تاب ہو۔گھر آکر سوچتا رہا ۔مراعات یافتہ طبقے کے نوجوانوں کو فلاحی کام، صرف بیرونِ ملک درسگاہوں میں داخلے کیلئے نہیں بلکہ ایک دینی اور سماجی فرض کے طور پر کرنے چاہئیں۔ مختلف سماجی طبقوں کو آپس میں جوڑنے اور معاشرتی مسائل کے ادراک کی خاطر، نظامِ تعلیم میں طالب علموں کی تربیت کا مؤثر انتظام کیوں نہیں کیا جاتا۔ ایک دوست کو فون کیا جو ایک مشہور پرائیویٹ اسکول سسٹم کے ہیڈ آفس میں پالیسی انچارج تھا۔ اُسے پوچھا کہ بچوں کو سوشل ورک کی ترغیب دلانے کیلئے اسکول کیا انتظام کرتا ہے؟ جواب بہت واضح مگر انتہائی دل شکن تھا۔ ’’ہم سوشل ورک سرٹیفکیٹ کا انتظام غیر ملکی یونیورسٹیوں میں داخلہ کے وقت کرتے ہیں۔‘‘ میں بہت کچھ کہنا چاہ رہا تھا مگر خاموش رہا۔احساس تھا کہ کمرشل بنیادوں پر اُستوار اِس تعلیمی ادارے کے سینکڑوں اسکول، میری خواہش پر اپنا نظام تعلیم نہیں بدلیں گے۔ایک بات ظاہر تھی کہ بیرونِ ملک کی درس گاہیں داخلہ دیتے وقت طالب علموں کی سماجی تربیت اور رویوں کو پرکھتی ہیں۔ اِس کے برعکس ہمارے نظامِ تعلیم میں فلاحی سرگرمیوں کا ذکر تک نہیں ہوتا۔ حالانکہ شخصیت کو پروان چڑھانے میں کارِ خیر کی تربیت کو اولین ترجیح ملنی چاہیے۔ اتفاق کی بات ہے کہ اِس واقعہ کے ایک دو سال بعد مجھے صوبہ پنجاب میں سیکرٹری ایجوکیشن (اسکولز) تعینات کیا گیا۔ یہ الگ کہانی ہے کہ سرکاری اور نجی اسکولوں میں کوشش کے باوجود، سماجی تربیت کا عمل شروع نہ ہوسکا۔ اساتذہ تنظیموں کی ہٹ دھرمی اور عدالتی فیصلوں کی رکاوٹ آڑے آئی۔ امکان تھا کہ مستقل مزاجی سے اِس کوشش کو کامیابی حاصل ہو گی مگر 12 اکتوبر، 1999 کے بعد حالات تبدیل ہو گئے۔

قارئین کی معلومات کے لیے عرض ہے کہ پرائیویٹ اسکول اور دینی مدارس میں حکومت کے عمل دخل کا قانونی راستہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ وہ اتنے طاقتور ہیں کہ سرکار اُنہیں اپنی ڈگر میں کسی تبدیلی پر مائل نہیں کر سکتی۔ فرقہ پرستی میں منقسم ہونے کے باعث، مذہبی جماعتیں قوم میں جذبِ باہم تو پیدا نہ کر سکیں، مگر آنکھیں ترس گئیںکہ کبھی دینی مدارس کے اساتذہ کرام طالب علموں کو رفاع عامہ کی عملی تربیت دیتے نظر آئیں۔ مسئلے کی جڑ، دُوسروں پر سبقت حاصل کرنے کی جُستجو سے جُڑی ہے۔ والدین بچے کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ نہ صرف لائق ہو بلکہ اپنے ہم جماعتوں پر فوقیت بھی حاصل کرے۔ مسابقت کے جذبے کو ہوا دینے سے طالب علم، رواداری ، برداشت اور درگزر بھول کر اپنے ساتھیوں سے مفاہمت کی بجائے’ مخاصمت کا رویہ اپناتے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے، سوشل میڈیا پر جاپان کے ایک اسکول کی ویڈیو دیکھنے کا موقع ملا۔ ایک آٹھ نو سال کا طالب علم رکاوٹ کے اُوپر چھلانگ لگانے سے خوفزدہ تھا۔ رکاوٹ کے قریب آکر گِر جاتا یا راستہ بدل لیتا۔ اگر یہ واقعہ ہمارے کسی اسکول میں ہوتا تو ساتھی طالب علم بچے کی حالت پر ہنستے،مذاق اُڑاتے اور اُسے رونے پر مجبور کر دیتے۔ مگر جاپانی اسکول میں دُوسرے طالب علم اور اساتذہ حوصلہ بڑھا رہے تھے۔ وہ بھاگنا شروع کرتا تو تالیاں بجا کر ہمت افزائی کی جاتی۔ ایک دو دفعہ کی ناکامی کے بعد بچے نے رکاوٹ عبُور کر لی۔ دُوسرے طالب علموں کی خوشی دیدنی تھی۔ سب اُس کا نام لے کر ناچنے لگے۔

کھیل کے میدان میں کھلاڑیوں سے اسپورٹس مین اسپرٹ کی توقع کی جاتی ہے۔ حسن ابدال میں ہمارے پرنسپل، کرنل جے ڈی ایچ چیپ مین نے جب طالب علموں کو درس دیا کہ کھیل میں جیت اہم نہیں بلکہ قواعد و ضوابط کے مطابق اچھا کھیل ضروری ہے تو طالب علموں کو بات سمجھ نہ آئی کیونکہ ہماری تربیت میں کھیل ہو یا کوئی اور میدان، ہر قیمت پر جیت کے حصول کو اہمیت ملتی ہے۔ سیاسی میدان میں بھی رواداری اور برداشت کے الگ تقاضے ہیں۔ برسوں پہلے جب امریکہ کے صدر کینیڈی قتل ہوئے تو ’’ٹائم‘‘ رسالے میں کسی امریکی نوجوان کا ایک سطری خط بہت مشہور ہوا۔ اُس نے لکھا تھا ۔’’میں نے کینیڈی کو ووٹ نہیں دیا، مگر اوسوالڈ (کینیڈی کا قاتل) نے میرے صدر کو قتل کر دیا۔‘‘

حالیہ دنوں، پاکستانی نوجوانوں کے طرزِ عمل میں جو شدت اور عدم برداشت نظر آ رہی ہے اُس کا سارا الزام کسی ایک لیڈر کو دینا مناسب نہیں۔ سماجی رویوں میں ناروا تعصب اور درگزر کا فُقدان ایک دن میں پیدا نہیں ہوا۔ معاشرے کی رگوں میں یہ زہر آہستہ آہستہ سرایت کرتا رہا ہے۔ لیڈر تو صرف اپنے مفاد کیلئے آتش گیر مادے کو چنگاری دکھاتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر محمود

بشکریہ: روز نامہ دنیا

zafar-mehmood has 80 posts and counting.See all posts by zafar-mehmood

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments