خان کا اصل جرم: آگے کیا؟


عمران خان نے 1992 میں ورلڈ کپ جیتنے پر جو تقریر کی، اس نے ثابت کیا تھا کہ اس میں ”میں“ کا مادہ حد سے زیادہ ہے۔ اور یہ بھی کہ اس میں جیت کو مدبرانہ طریقے سے سنبھالنے کا ظرف نہیں ہے۔

اس کے ٹھیک تیس سال بعد اس نے یہ ثابت کیا کہ اس میں ہار برداشت کرنے کا بھی حوصلہ نہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ یہ بھی ثابت کیا کہ وہ آج بھی اپنی ذات سے اوپر نہیں سوچتا۔ اب یہی دیکھ لیں خود عزت سے جانے کی بجائے اپنے دو قریبی ساتھیوں کی قربانی دے دی۔ مگر دل کا جانا تو ٹھہر گیا تھا سو وہ تو گیا۔ خان نے سو جوتے بھی کھائے، اور سو پیاز بھی۔

کرپشن، سیاسی جوڑ توڑ، اختیارات کے ناجائز استعمال، ملکی معیشت کے ساتھ کھلواڑ نا اہلوں کو مسند اقتدار پر بٹھانا گڈ گورننس کے لئے ضروری اصلاحات کی بجائے تمام تر توجہ سیاسی مخالفین کو دیوار سے لگانے پر مرکوز رکھنا، اور اس مقصد کے لئے عدلیہ اور نیب کا استعمال، یہ سب سیاہ کارنامے تو خان کے کریڈٹ پر ہیں ہی، مگر اس ملک کو سب سے بڑا اور ناقابل تلافی نقصان جو خان نے پہنچایا ہے اور جو اس کا سب سے بڑا جرم بھی ہے، وہ یہ کہ پہلے تو اس نے ایک نا امیدی میں گھری قوم میں امید کی شمع روشن کی موروثی اور الیکٹیبلز کی سیاست کے خلاف آواز بلند کی، تبدیلی کا نعرہ لگایا، اور ایک ایسے پاکستان کے خواب دکھلائے جس میں امیر اور غریب کے لئے ایک ہی قانون ہو۔

مگر پھر چشم فلک نے دیکھا کہ اسی عمران خان نے کرسی کے لئے ایسی جماعتوں سے بھی شراکت داری کی جنہیں وہ فاشسٹ کہتا رہا ہے۔ ان لوگوں کو بھی شریک اقتدار کرنے پر تیار ہوا، جنہیں وہ پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو کہتا رہا۔ خان کو اقتدار تو مل گیا مگر وہ اپنا ایک بھی وعدہ پورا نہ کر سکا۔ اپنے ساڑھے تین سالہ اقتدار کے سفر میں اس نے اپنے بہت سے پرانے ساتھی اور سپورٹرز، بری کارکردگی کی بنا پر کھو دیے۔ اور عوام جب اس کے دکھلائے ہوئے خوش نما خوابوں سے جاگی تو آس پاس مہنگائی کی سونامی، پیٹرول کی قیمتوں کا بڑھتا ہوا سیلاب، کرپشن کا تسلسل، اور حکومتی ناکامی کے علاوہ کچھ نہ پایا۔

اس بات نے عوام کو مایوسی کے ایسے اندھیرے غار میں دھکیل دیا ہے کہ اب ان کے لئے امید کی ہلکی سی بھی کوئی کرن باقی نہیں رہی۔ عوام ایک بار پھر انہیں خاندانی سیاسی تماشا گیروں اور ان کے پیچھے موجود خاکیوں کے رحم و کرم پر آ گئے ہیں جو خان سے پہلے اس ملک کے وسائل سے اپنی آل اولاد کے لئے اگلے پانچ سو سالوں کی عیاشی کا سامان کر رہے تھے۔ یہ خان کا سب سے بڑا جرم ہے کہ اس کے دیے ہوئے دھوکے کی وجہ سے اب یہاں کبھی امید کا کوئی دیا روشن نہیں ہو سکے گا۔ اس نے عام آدمی کی نہ صرف زندگی مشکل کی بلکہ اس کی آنکھوں سے اچھے مستقبل کے سارے خواب بھی نوچ لئے۔

جو لوگ اب بھی خان کے سحر میں مبتلا ہیں وہ یا تو اس کی محبت میں اندھے ہو چکے ہیں یا انہیں خان کی حکومت کے کارناموں کا علم نہیں۔ ایسے لوگوں کو چاہیے کہ وہ مبشر لقمان کی باتیں سن لیں۔ وہی مبشر لقمان جو 126 دنوں کے دھرنوں میں خان کے ساتھ شانہ بہ شانہ کھڑا تھا۔ اور آج وہ کیا بات کر رہا ہے۔

خان اب اقتدار سے باہر ہے۔ ہمارا اب بھی یہی خیال ہے کہ جو ہوا ٹھیک نہیں ہوا۔ خان کو باقی کا وقت گزارنے دینا چاہیے تھا۔ یہ ہم پہلے ہی کہہ چکے ہیں۔ اسے اس طرح باہر کرنے سے اسے سیاسی شہید بنانا غیر ضروری تھا۔ یہ بات بھی اظہر من الشمس ہے کہ خان کو نکال باہر کرنے میں خان کی اپنی غلطیوں کے علاوہ عدلیہ اور مقتدر اداروں نے بھی حتی الوسع اپنا کردار ادا کیا۔ مگر جن لوگوں کو اس بات پر اعتراض ہے کہ خان کو ہٹانے میں اسٹیبلشمنٹ، عدلیہ گٹھ جوڑ اور لوٹا کریسی کا عمل دخل ہے اور جو لگتا ہے، کہ ہے ( انہیں یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ خان صاحب وزارت عظمی کی کرسی پر اسی اسٹیبلیشمنٹ اور فصلی بٹیروں کی مدد سے براجمان ہوئے تھے۔ چور دروازے سے آنے والے کو اکثر چور دروازے سے ہی باہر جانا پڑتا ہے۔ گندم از گندم، جو از جو۔

عمران کو چاہیے کہ وہ اب اپنے پچھلے چند سالوں کی سیاست پر ایک تنقیدی نظر ڈالے اور دیکھے اور اس نے کہاں کہاں کیا غلطیاں کیں۔ جوڑ توڑ، اے۔ ٹی۔ ایمز۔ اور الیکٹ ابیلز پر کیوں اپنے اقتدار کی بنیاد رکھی؟ کیا اسے علم نہیں تھا کہ اس طرح آپ کے ساتھ آ ملنے والے وقت پڑنے پر اور آپ سے زیادہ اچھی آفر ملنے پر کسی اور کے ساتھ بھی ہو سکتے ہیں۔ خان کو یہ بھی دیکھنا ہے کہ نہ تو وہ اور اس کی پارٹی حکومت کے لئے تیار تھے اور نہ ہی اس کے پاس کابینہ کے لئے مطلوبہ قابلیت و اہلیت والے لوگ تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اسے بار بار اپنی کابینہ میں نہ صرف اکھاڑ پچھاڑ کرنا پڑی بلکہ پیپلز پارٹی اور مشرف دور کے لوگوں کو بھی وزارتوں میں لانا پڑا۔

کرپشن اور احتساب کے نام پر اپوزیشن کو عدلیہ اور نیب کے ذریعے انتقام کا نشانہ بنایا۔ سیاسی مخالفین کے ساتھ ذاتی عناد پال لیا اور اس میں ہر حد سے گزر گیا۔ اپنی تمام تر توجہ اپوزیشن کو ختم کرنے پر مرکوز رکھی مگر اپنی ہی حکومت کی کرپشن کی داستانوں کی طرف سے کان بند کیے رکھے۔ بی۔ آر۔ ٹی پشاور انکوائری کے سلسلے میں سٹے لیا۔ مالم جبہ سکینڈل سے آنکھیں موندے رکھیں۔ ادویات کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافے کا مسئلہ ہو یا آٹے چینی کا بحران، ان سب پر حکومت خاموش تماشائی بنی رہی۔

ساری زندگی فوجی جرنیلوں کو ایکسٹینشن دینے کی مخالفت کرنے کے باوجود جب خود اس قبیح روایت کو ختم کرنے کا موقع ملا تو بوٹوں کے آگے لیٹ گیا۔ اور آخری غلطی یہ کہ ایک خط کا ہوا بنا کر سب پر غداری کا الزام لگا کر تحریک عدم اعتماد سے آنکھیں چرانے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہوئے بہت بے آبرو ہو کر وزیر اعظم سے سابقہ وزیر اعظم ہو گیا۔

عمران کے لئے اب آگے کیا؟ موقع تو بہر حال اس کے پاس اب بھی ہے۔ کچھ پبلک سمپتھی بھی ہے سو عمران کو چاہیے کہ اپنی تمام تر ماضی کی غلطیوں کا جائزہ لے کر قوم کے سامنے ان غلطیوں کا اعتراف کرے اور اس بات وعدہ کرے کہ اب سے وہ کسی بھی قسم کے اقتدار کی لالچ کے بغیر ملک میں بہتر تبدیلی لانے کی خاطر کام کرے گا۔ اس مقصد کے لئے اقتدار کی کرسی تک چور دروازے سے نہیں جائے گا۔ اسٹیبلیشمنٹ کے ہاتھوں میں نہیں کھیلے یا بلیک میل ہو گا۔ ایسے لوگوں، جن کی وجہ سے اسے بلیک میل کیا جا سکے، سے پیچھا چھڑا لے گا اور اپنی بھرپور توانائیاں حکومت کا قبلہ سیدھا رکھنے پر مرکوز کرے گا۔ اسے یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ ملک کی خدمت ایک طاقتور اور مثبت اپوزیشن سے بھی ہو سکتی ہے۔

اگر عمران پبلک میں آ کر اپنی سابقہ غلطیوں کا اعتراف اور انہیں نہ دہرانے کا وعدہ کرے تو ہم اور ہمارے جیسے بہت سے اور لوگ بھی اس کا ساتھ دینے کو تیار ملیں گے۔ مگر عمران کو ثابت کرنا ہو گا کہ وہ نیا عمران ہے۔ کیوں کہ نیا پاکستان، پرانے عمران کے بس کی بات نہیں۔

مگر ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ وہ عمران ہی کیا جو خود احتسابی کر لے۔ اے بسا آرزو کہ خاک شدہ

مظفر حسین بخاری

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مظفر حسین بخاری

ایم ایچ بخاری ڈیویلپمنٹ پروفیشنل ہیں اور ایک ملٹی لیٹرل ترقیاتی ادارے سے منسلک ہیں۔ کوہ نوردی اور تصویر کشی ان کا جنون ہے۔ مظہر کے تخلص سے شعر کہتے ہیں۔

muzzafar-hussain-bukhari has 19 posts and counting.See all posts by muzzafar-hussain-bukhari

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments