پنجاب اسمبلی کا دنگل


قومی اسمبلی میں ہونے والے تماشے کے بعد ، پنجاب اسمبلی میں بھی وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے موقع پر ایک نہایت افسوسناک سرکس لگا۔ اسمبلی میں ہونے والے لڑائی جھگڑے کے مناظر دیکھ کر ہر محب وطن پاکستانی کا دل دکھ سے بھر گیا اور سر شرم سے جھک گیا ہو گا۔ تحریک عدم اعتماد ہو، یا وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ کا انتخاب، آئین میں ان سب کا واضح طریقہ کار درج ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مرکز اور پنجاب میں دونوں معاملات آئینی طریقہ کار کے مطابق طے پا جاتے۔

دنیا بھر میں جمہوریت کا مطلب عددی اکثریت ہی ہوتا ہے۔ جس سیاسی جماعت کے پاس اراکین کی زیادہ تعداد ہوتی ہے، وہ حکومت بنا لیتی ہے۔ ہمارے ہاں بھی ایسا ہی ہے۔ جہاں تک جوڑ توڑ کا تعلق ہے تو وہ سیاست کا حصہ ہے۔ پاکستان کی سیاست میں بھی یہ جوڑ توڑ برسوں سے رائج ہے۔ سیاسی اخلاقیات کی بحث سے قطع نظر، حقیقت یہ ہے کہ ہر سیاسی جماعت حکومت بنانے کے لئے زیادہ سے زیادہ اراکین کو اپنی جانب مائل کرتی ہے۔ تحریک انصاف کی رخصت ہو جانے والی حکومت بھی مانگے تانگے کے اراکین پر قائم ہوئی تھی۔ مسلم لیگ (ن) کی موجودہ حکومت بھی اتحادیوں کی بیساکھیوں پر کھڑی ہے۔ لہذا اس عمل میں کوئی ایسی انوکھی بات نہیں جس پر اظہار حیرت کیا جائے یا غیر ملکی سازش کے فتوے صادر کیے جائیں۔

چند دن پہلے قومی اسمبلی میں جو کچھ ہوا اس کی وجہ سے قوم رات گئے تلک انتظار کی سولی پر لٹکتی رہی۔ پنجاب اسمبلی میں بھی اجلاس بلانے کے لئے عدالت کا رخ کرنا پڑا۔ انتخاب والے دن لڑائی جھگڑے اور مار دھاڑ کے شرمناک مناظر دیکھنے کو ملے۔ ڈپٹی سپیکر دوست مزاری پر لوٹے پھینکے گئے۔ ان کے بال نوچے گئے۔ ان کے ساتھ ہاتھا پائی ہوئی۔ مجبوراً پولیس کو طلب کرنا پڑا۔ ٹی۔ وی چینلز نے یہ مناظر بھی دکھائے کہ کس طرح قانون نافذ کرنے والے ادارے کے اہلکاروں کی مارپیٹ کی گئی۔

تحریک انصاف کے کچھ اراکین نے سر عام انہیں ٹھڈے مارے۔ خواتین اراکین نے ان کے بال نوچے اور دھکے دیے۔ یہ سب مناظر دیکھ کر خیال آتا رہا کہ ہم بھی کیا بد قسمت قوم ہیں، جن کی قسمت کا فیصلہ ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں سونپ دیا جاتا ہے، جو ہر طرح کی اخلاقیات سے عاری ہیں۔ سیاسی گرما گرمی دنیا بھر میں ہوتی ہے۔ اکثر مار دھاڑ کے مناظر بھی دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن اس طرح کا ہنگامہ، تشدد اور دنگل کہیں بھی دیکھنے کو نہیں ملتا۔

وزارت اعلیٰ کے امیدوار چوہدری پرویز الٰہی بھی بازو میں پٹی ڈالے دکھائی دیے۔ ان کا موقف تھا کہ مسلم لیگ (ن) کے اراکین نے ان پر حملہ کیا اور ان کا بازو توڑ دیا۔ اب سوشل میڈیا پر اس الزام کے بارے میں جو لطیفے گردش کر رہے ہیں، میں ان کا ذکر نہیں کرنا چاہتی۔ کاش اس سارے قصے کی غیر جانبدارانہ انکوائری ہو۔ قانون ہاتھ میں لینے والوں (خواہ ان کا تعلق کسی بھی جماعت سے ہو) کی گرفت کی جائے۔

قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی کے مناظر ٹیلی ویژن چینلوں کے ذریعے پاکستان کے عوام نے دیکھے۔ دوسرے ممالک نے بھی یہ تماشا ملاحظہ کیا۔ دنیا بھر میں ہماری سبکی ہوئی۔ بھارت نے اس صورتحال کی بھرپور کوریج کی۔ پاکستان میں قائم مختلف ممالک کے سفارت خانے رپورٹس مرتب کر کے اپنے اپنے ملک کو بھجواتے رہے۔ سنتے تھے کہ سیاست کے سینے میں دل ہوتا ہے نہ آنکھوں میں حیا۔ ان چند دنوں میں، ملک کے ساتھ جو کھیل کھیلا گیا، اسے دیکھ کر اس مقولے پر یقین پختہ ہو گیا۔

اس سیاسی کھیل کا سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ محض اقتدار کے لالچ میں قومی مفاد ات کو بالائے طاق رکھ دیا گیا۔ چند دنوں میں ڈالر کی قیمت کہاں سے کہاں پہنچ گئی۔ بے یقینی کی کیفیت سارے ملک پر طاری رہی۔ جس کی وجہ سے کاروبار متاثر ہوا۔ یہ بھی نہیں سوچا گیا کہ دنیا ہمارے بارے میں کیا سوچے گی۔ پاکستان کا تاثر یوں بھی کچھ زیادہ اچھا نہیں ہے۔ ہمارا بال بال قرض میں جکڑا ہوا ہے۔ قرض بھی وہ جس پر بھاری بھرکم سود کی ادائیگی کرنا پڑتی ہے۔

رمضان کے تقدس کا بھی خیال نہیں رکھا گیا۔ گالی گلوچ، مار دھاڑ، الزام تراشی کا ایک بازار گرم تھا (اور اب بھی ہے ) ۔ سیاسی عدم برداشت اپنے عروج پر ہے۔ ایک مخصوص سیاسی طبقہ ان سیاسی اختلافات کو حق اور باطل کی جنگ بنا کر پیش کرتا ہے۔ سوشل میڈیا نے ہر ایک کو اپنی بات کہنے کے لئے پلیٹ فارم فراہم کر رکھا ہے۔ یہ اچھی بات ہے۔ مگر اس پلیٹ فارم کا انتہائی منفی استعمال بھی ہو رہا ہے۔ اکثر و بیشتر لا یعنی بحثیں پڑھنے سننے کو ملتی ہیں۔

اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ اپنے پسندیدہ سیاسی رہنما کو درست ثابت کرنے کے لئے ایسی بے تکی اور غیر تصدیق شدہ باتیں کرتے ہیں، کہ سن کر حیرت ہوتی ہے۔ کچھ تو اس سیاسی صورتحال کو کربلا سے تشبیہ دینے سے بھی نہیں چوکتے۔ اپنے سیاسی لیڈر کو درست ثابت کرنے اور مخالف سیاسی جماعت کے رہنماؤں کو غلط ثابت کرنے کے لئے حضرت امام حسین اور یزید کا تذکرہ کرتے ہیں۔ آیات اور احادیث کے حوالے دیے جاتے ہیں۔ وہ جو معیشت، سفارتکاری اور انٹرنیشنل افیئرز کی الف، بے سے بھی نا بلد ہیں، وہ بھی اقتصادی امور اور بین الاقوامی امور کے ماہرین بن کر اظہار خیال فرماتے ہیں۔ انتہائی بے شرمی اور ڈھٹائی سے غلط معلومات پر مبنی فارورڈڈ میسیجز شیئر کیے جاتے ہیں۔

پاکستان سے باہر بھی کچھ نہ کچھ تماشا لگا رہتا ہے۔ چند دن سے تحریک انصاف کے حامیوں نے لندن میں میاں نواز شریف کے گھر کا گھیراؤ کر رکھا ہے۔ ملکہ برطانیہ سے وفاداری کا حلف لینے والے پاکستان کی فکر میں ادھ موئے ہوئے جا رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر وہ کلپس گردش کر رہے ہیں، جس میں یہ لوگ غلیظ گالیاں بکتے سنائی دیتے ہیں۔ ان مظاہروں کے جواب میں مسلم لیگ (ن) کے حامیوں نے بھی عمران خان کی سابقہ اہلیہ جمائمہ اور ان کے بیٹوں کے گھر کے باہر مظاہرے کرنے شروع کر دیے ہیں۔ دونوں جماعتوں کے حامیوں کا یہ طرز عمل نہایت غیر مناسب ہے۔ اس رویے کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے۔ اپنے گندے کپڑے ایک غیر ملک میں دھو کر یہ لوگ کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں؟

کسی زمانے میں ہم نوے کی دہائی کو پاکستانی سیاست کا بدترین دور قرار دیتے تھے۔ جب دو متحارب جماعتیں ایک دوسرے کی حکومتوں کے خلاف بر سر پیکار رہا کرتی تھیں۔ موجودہ صورتحال نے نوے کی دہائی کو بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ سیاست میں گالی گلوچ اور الزام تراشی کا کلچر ایک مرتبہ پھر زندہ ہو گیا ہے۔ چھوٹے بڑے کا لحاظ اور سچ جھوٹ کی تمیز باقی نہیں رہی۔ بیشتر سیاسی اور صحافتی تجزیہ کار متفق ہیں کہ اس صورتحال کا سہرا تحریک انصاف کے سر ہے۔

یقیناً سیاسی جماعتیں اور سیاست دان ایسی صورتحال کو اپنے سیاسی فوائد کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ کاش کہ سیاست دانوں کی محبت میں اندھے پیروکار فہم و فراست سے کام لیں۔ اس مر کی تفہیم نہایت ضروری ہے کہ سیاسی پسند نا پسند رکھنا ہم سب کا آئینی اور جمہوری حق ہے۔ پر امن احتجاج کرنا اور جلسے جلوس میں شرکت کرنا بھی۔ لیکن ہمیں سیاسی عدم برداشت کو بڑھانے میں حصہ دار نہیں بننا چاہیے۔ بطور محب وطن پاکستانی ہماری ذمہ داری ہے کہ کوئی بھی قدم اٹھانے اور کوئی بھی بیانیہ اپنانے سے پہلے قومی مفاد اور ملکی سلامتی کو ملحوظ خاطر رکھیں۔

۔
بشکریہ روزنامہ نئی بات


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments