جہالت بمقابلہ جہالت


آج کل پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم سے وابستہ سیاسی جماعتوں کا مقابلہ ہے ہی، لیکن ایک لحاظ سے جہالت اور شخصیت پرستی کا بھی دور دورہ ہے۔ چاہے سیاسی کارکنوں کا تعلق پی ٹی آئی، پی پی پی یا نون لیگ سے ہو ہر ایک بحث و تمحیص کے لامتناہی سلسلے میں جھگڑے نظر آتے ہیں۔ نون لیگ، پی پی اور دوسرے جماعتوں کا المیہ یہ ہے کہ باوجود کئی دفعہ برسر اقتدار رہنے کے وہ عوام کے توقعات پر پور اترنے میں ناکام رہے۔ ان کے ناکامی کی کئی وجوہات ہیں۔

کرپشن پاکستان میں سب بڑا مسئلہ رہا ہے اور رہے گا۔ اس کی وجوہات واضح ہے سب پولیٹکل پارٹیز بشمول عمران خان کے ملک ریاض سے مستفید ہوئے ہیں۔ اس لیے کرپشن کی حد تک سب برابر ہے۔ عمران کا بیانیہ کرپشن کی خاتمے کا تھا۔ مگر عملاً وہ کرپشن کے پیسے سے برسراقتدار میں آئے اور انھوں نے انہی پرانے چہرے اور الیکٹیبلز کی مدد سے حکومت بنائے۔ کرپشن انڈکس کے اعداد و شمار کے مطابق ان کی دور حکومت میں کرپشن میں کئی گنا اضافہ ہوا۔

عمران خان ایک اچھا مداری ہے، جب اس کا کھیل ختم ہوا اس نے ایک بین الاقوامی سازش کا ایک ڈرامہ رچایا۔ انٹرنیشنل ریلیشنز کے ایک ادنیٰ طالب علم ہونے کی وجہ سے بین الاقوامی تعلقات سے وابستہ ماہرین کے کچھ آراء سے مستفید ہونے کا موقع ملتا ہے۔ بات یہ نہیں کہ ریشہ دوانیاں اور سازش یا مداخلت نہیں ہوتی۔ دنیا کے ہر ملک کم وبیش بیرونی مداخلت اور ریشہ دوانیوں میں مصرف عمل رہتی ہیں۔ حتیٰ کہ جن کو ہم دوست ممالک کہتے ہیں وہ بھی ایک دوسرے کے معاملات کو اپنے مفادات کی خاطر سنورتے، بگاڑتے ہیں اور مختلف حربے ایک دوسرے کے خلاف آزماتے ہیں۔ یہ کوئی نئی بات نہیں۔ آئی ایم ایف کے مختلف کنڈیشنز کو ماننے بغیر ہمارے معاشی پالیسز نہیں بنتی۔ وگرنہ وہ ہم ان سے لون نہیں لے سکتے۔

عمران کے مداخلت والے بیانیہ اور یوتھیوں کے بغیر سوچ سمجھے ان کی باتوں پر ایمان لانا تعجب کی بات نہیں کیونکہ پاکستان میں تعلیم نہ ہونے کے برابر ہے۔ جو رہ سہی یوتھ سکول اور کالج سے یونیورسٹی لیول تک پڑھ چکے ان کے معیار کیا ہے اس کے بارے میں ہر معقول فرد کو پتہ ہے۔ انٹرنیٹ اور فیس بک کی وجہ سے کسی بھی معاملے کو گہرائی سے سمجھنے کے لیے نہ یوتھ کے پاس وقت ہے اور نہ ہی کسی بھی حکومت بشمول عمران کے ترجیحات میں شامل ہے کہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت پر مبنی شہری پیدا ہوں۔

تعجب ان اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں پر ضرور ہوتا ہے کہ وہ بھی شد و مد سے عمران کے بہت سے یوٹرن اور خیالی پلاؤ پکانے کے باوجود اب بھی ان فریب میں مبتلا ہیں کہ عمران ڈیلیور کر پائے گا۔

مباحثہ میں شامل لوگوں کی مختلف اقسام ہیں۔ 1) وہ لوگ جو تواتر سے پی ٹی وی اور اے آر وائی دیکھنے کے عادی ہیں اور جن کی منطق اور لوجک انھیں ٹی وی کے پھیلائے ہوئے جھوٹ پر ایمان لانے کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ 2) پاکستان کے مختلف اعلیٰ تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل جنھوں نے مسخ شدہ تاریخ کو بغیر کسی تنقیدی سوچ کے حقیقت جانا۔ جنھوں نے عمران، شریف اور زرداری کی باتوں پر ایمان لائے۔ 3) اور وہ طبقہ جن کا ان پارٹیوں سے کوئی لینا دینا نہیں، لیکن وہ ہر پارٹی کے ناقد ہیں۔

ظاہر ہے ایسے لوگوں کی تعداد کم ہیں جنھیں کسی بھی پارٹی سے کوئی سروکار نہیں۔ لیکن یہ بات درست ہے کہ ہر پارٹی میں کچھ معقول سوچنے والے شخصیات ہیں۔ اس لیے جب ان کی پارٹیوں پر تنقید ہوتی ہے تو وہ جذبات کی رو میں بہہ کر نہیں بلکہ معقولیت سے اپنے اپنے پارٹی کا دفاع کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ البتہ پی ٹی آئی کا کیس سب پارٹیوں سے ذرا مختلف ہے۔ یہ پارٹی معقولیت سے عاری لوگوں کا جم گٹھا ہے۔ ”جس پہ حق بات بھی پتھر کی طرح گرتی ہے۔

“ فوری اور بغیر سوچے سمجھے رد عمل ان کا خاصا ہے۔ اور اس پارٹی سے وابستہ افراد تنقید کرنے والے کو کسی بھی شخص کو ایسے پارٹی سے وابستہ شمار کرتے ہیں، جو پی ٹی آئی کا مخالف ہو۔ اور چونکہ عمران کی لوجک کے مطابق نیوٹرل رہنا جانوروں کا کام ہے۔ پتہ نہیں کسی پارٹی سے وابستہ نہ ہونے والوں کو وہ کن القاب سے نوازے کیا پتہ۔ ویسے بھی بدتمیزی اور گالی گلوچ پی ٹی آئی یا عمران خان اور ان کے پیروکاروں کا طرہ امتیاز ہے۔ تنقید ہو تو طوفان بد تمیزی کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوجاتا۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ میں پیپلز پارٹی اور نون لیگ کے سخت ناقد رہا ہوں اور رہوں گا۔ اور ان کے صفوں میں بھی بدتمیز لوگ بہت ہیں مگر پی ٹی آئی کے چند ورکر کو چھوڑ کر ان کی اکثریت بدتمیزی کی انتہا پر ہیں۔ اور وہ بدتمیز کیوں نہ ہوں گے جب ان کا لیڈر کا تمیز کا کوئی دائرہ نہ ہو۔

اور ان کے پیروکار جب دلیل سے مقابلہ نہیں کر سکتے تو ذاتی حملے شروع کرتے ہیں۔ بہت سارے شرفاء حالات کو دیکھتے ہوئے اپنے عافیت اسی میں سمجھتے ہیں کہ ایسے تکرار سے دور رہا جائے۔ یہ بات درست ہے کہ جنھیں اپنے آپ کو گالی گلوچ سے بچانا ضروری ہے تو ان کے پاس ایک مہذب طریقہ یہ ہے کہ وہ اپنے خیالات کو ایسے تحاریر کی ذریعے عوام تک لے آئین کہ بحث مباحثے اور گالی گلوچ کی نوبت ہی ختم ہو۔ لیکن یہ ناممکن ہے کیونکہ انھوں نے یہ طے کیا ہوا ہے کہ ”صرف ہم صاف اور شفاف ہیں باقی گنہگار، کرپٹ اور غدار“ ہیں۔

ایسے گھٹن کے ماحول میں بہت سے لوگ چھپ رہنا بہتر سمجھتے ہیں۔ لیکن طوفان بدتمیزی کے درمیان چپ رہنا ایسا ہی کہ معاشرے کو ایسے لوگوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے کہ وہ آپ کے جان کے درپے ہوں اور آپ آہ بھی نہ کریں۔ اندازہ تو یہی لگتا ہے کہ جہات کی جیت ہوگی۔ اور اس کی جیت کیوں نہ ہو جب ہمارے حکمرانوں نے سوچنے سمجھنے اور تجزیہ و تحلیل اور سوال کرنے پر پابندی لگا رکھی ہو۔ ایسے میں مقابلہ پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم سے وابستہ افراد کا نہیں بلکہ جہالت کا مقابلہ ہے اور اگرچہ سیاسی مقابلے میں پی ڈی ایم نے پی ٹی آئی کو بظاہر شکست دی ہے۔

مگر نفرت انگیز سیاست میں عمران کا کوئی مقابلہ نہیں۔ اور مزید خرابی، فرقہ وارانہ نفرت جلتی پر تیل کا کام کرتی ہے۔ ایسے حالات میں لوگوں کے ہوش کھو جاتے ہیں اور وہ صرف جوش سے کام لیتے ہیں۔ بد قسمتی سے ہمارے ملک میں تعلیم و تربیت ہمارے ترجیحات میں شامل ہی نہیں۔ جو بچے سکول اور دوسرے تعلیمی اداروں اور حتیٰ کی یونیورسٹی بھی جاتے ہیں وہ جوش کے کھوکھلے بیانات کی رو میں بہہ جاتے ہیں۔ اس بات سے ہرگز میری مراد جوش کو یکسر رد کرنا نہیں۔

لیکن خالی جوش سے کام نہیں چلتا۔ اس وقت عمران خان کے اپروچ بھی جوش والی ہے، ہوش والی نہیں۔ تاریخ ہماری ترجیحات میں شامل نہیں وہ ایک بیکار سی مضمون ہے ورنہ ہم تاریخ سے ہی کچھ سیکھ لیتے۔ اور 1857 کی جنگ آزادی سے پہلے اور بعد کی صورتحال سے پیدا ہونے والے مختلف مذاہب کے پیروکاروں کے اپروچ سے ہی کچھ سیکھ لیتے۔ انڈیا جب سامراجیت کے مضبوط جکڑ میں آ چکا تھا اس وقت ہندووں اور دوسرے مذاہب کے پیروکاروں نے وقت کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے وقت کے تقاضوں کے ساتھ اپنے آپ کو ہم آہنگ کرنے کی کوششیں جاری رکھی۔

اس کے مقابلے میں اس وقت کے اکثر مسلمانوں کی ترجیحات میں اس بدلتے ہوئے وقت کے ساتھ اپنے مطابقت پذیری کا فقدان تھا۔ جس کی وجہ سے انھوں نے کافی نقصانات کا سامنا کیا۔ اور موجودہ دور میں پاکستان کو جس انتشار سے نکالنے کے لیے عمران خان کا اپروچ ہے وہ انہیں ناعاقبت اندیش اکثریت مسلمانوں کا ہے جنھوں نے عملی کام کی بجائے خیالی دنیا میں جینا زیادہ بہتر سمجھا۔ آج بھی تعلیم و تربیت کے ذریعے مسائل کے گرداب اور اس دلدل سے نکلنا کسی پاکستانی حکمران کی ترجیحات میں شامل تھا نہ ہے۔ عمران خان جب اقتدار میں آئے تھے اس وقت اس نے ضرور تعلیم کو ترجیحات میں شامل کرنے کی بات کی تھی، مگر پھر جب اقتدار حاصل ہوا، تو تعلیم کا نظام مزید مفلوک الحال ہو گیا۔ اب وہ جہالت اور بدزبانی اور ناشائستگی سے نیا پاکستان اور ریاست مدینہ بنانا چاہتے ہیں۔

یعنی جاننا زندگی ہے اور جہالت مردگی ہے، جہالت ”نہیں ہے“ کی طرح ہے۔ اور زندگی ”ہے“ کی طرح ہے۔ جہالت بیماری کی طرح ہے اور علم علاج کی طرح ہے۔ جاننے والا انسان علم کی طرح باقی ہے اور جاہل اپنے جہالت کی وجہ سے نابود ہو جاتے ہیں۔

اور جب بھی کوئی سیاسی پسند یا نفرت جہالت کی وجہ اپنے انتہا کو پہنچے تو وہ نازی ازم، فاشزم، ٹرمپ ازم اور عمران ازم بن جاتی ہے۔ جس سے معاشرہ ترقی کی بجائے مزید تنزلی کا شکار ہوجاتا ہے۔

عمران ازم نے بہت سے پڑھے لکھے افراد کو بھی سوچنے سمجھنے سے عاری کر دیا ہے۔ اس کا تجربہ حال میں مجھے اس طرح ہوا کہ عمران کے ایک فالوور کے پوسٹ پر میں نے دلیل کے طور پر دوسرے نقطہ ہائے نظر آرٹیکل کی شکل میں پیش کیے تو انھوں نے کچھ آرٹیکل کو اس لیے ماننے سے انکار کیا کہ ان کے بقول وہ نون لیگ سے وابستہ اخبار میں چھپا ہے۔ دوسرے کو پڑھے بغیر انتہائی متعصب لکھاری قرار دیا اور ایک غیر ملکی اخبار میں چھپے ہوئے مضمون کو بیرونی پروپیگنڈا اور ناقابل اعتبار قرار دیا۔ لیکن جب میں نے ان کی توجہ عمران خان کے واشنگٹن پوسٹ میں چھپنے والی آرٹیکل سے متعلق دلایا اور دریافت کیا کہ اس آرٹیکل کو قابل اعتبار یا ناقابل اعتبار سمجھا جائے کیونکہ یہ اخبار امریکہ کا اخبار ہے توان کی طرف سے کوئی جواب نہ ملا۔

ہر معقول انسان یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ معقول بات وہی ہے جس کی بنیاد دلیل اور شواہد پر ہو، چا ہے اس کا تعلق عمران خان کی طرف سے ہو یا زرداری کی طرف۔ اور اگر کوئی بچہ بھی دلیل سے بات کرے تو ہر معقول شخص اسے قبول کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ مگر افسوس کہ بات ہے کہ ہم ہر دلیل کو جذبات سے رد کرنے کے عادی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).