مفتاح اسماعیل کا تیل کی قیمتوں میں اضافے اور ’حقیقت پسندانہ‘ بجٹ کا عندیہ

بلال کریم مغل - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد


مفتاح
پاکستان مسلم لیگ ن کے سینیئر رہنما اور وفاقی کابینہ کے رُکن مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ آئندہ بجٹ ’حقیقت پسندانہ‘ ہو گا اور تیل کی قیمتوں پر دی جانے والی سبسڈی پر نظرِ ثانی کرنی پڑے گی۔

یاد رہے کہ مفتاح اسماعیل نے منگل کے روز بطور رکن وفاقی کابینہ حلف اٹھایا ہے اور اس بات کا قوی امکان ہے کہ انھیں وزارت خزانہ کا قلمدان سونپا جائے گا۔

حلف اٹھانے سے ایک روز قبل (گذشتہ روز) صحافیوں اور ماہرینِ معیشت سے غیر رسمی گفتگو میں اُن کا کہنا تھا کہ حکومت فی الوقت تیل پر تقریباً 80 ارب روپے ماہانہ کی سبسڈی دے رہی ہے جو وفاقی حکومت کے سالانہ اخراجات اور سول ملٹری پینشنز کے برابر ہے۔

واضح رہے کہ عمران خان نے اپنی حکومت کے اواخر میں پیٹرولیم مصنوعات اور بجلی کی قیمتوں پر سبسڈی دینے کا اعلان کیا تھا تاہم اب نئی حکومت آنے کے بعد شاید یہ رعایت زیادہ عرصہ برقرار نہ رہ سکے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان اس وقت آئی ایم ایف پروگرام میں ہے اور آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت پاکستان کو اپنا بجٹ خسارہ کم کرنا ہے اور پیٹرولیم مصنوعات پر سبسڈی جاری رکھنے کے باعث شرائط پر عملدرآمد میں مشکلات کا سامنا ہو گا۔

آئی ایم ایف

مفتاح اسماعیل کا کہنا تھا کہ کئی دوست ممالک سمیت چین کے ایشیائی انفراسٹرکچر انوسٹمینٹ بینک کی شرائط کے تحت پاکستان کو آئی ایم ایف پروگرام کا حصہ رہنا ہو گا تبھی وہ پاکستان کے لیے مالی امداد یا سرمایہ کاری جاری رکھیں گے۔

اس بات کا امکان ہے کہ آنے والے دنوں میں مفتاح اسماعیل امریکہ کا دورہ کریں گے تاکہ آئی ایم ایف سے مذاکرات کر کے آنے والے بجٹ اور مالی استحکام کے حوالے سے اہم فیصلے لیے جا سکیں۔

مفتاح اسماعیل کا کہنا تھا کہ اس وقت ملک میں زر مبادلہ کی کمی ہے چنانچہ یہ ضروری ہے کہ پہلے معاشی استحکام کی طرف توجہ دی جائے۔

واضح رہے کہ مرکزی بینک کے ڈیٹا کے مطابق آٹھ اپریل یعنی عمران خان کی حکومت کے خاتمے سے ایک دن پہلے تک مرکزی بینک کے پاس 10 ارب 84 کروڑ 96 لاکھ ڈالر تھے جبکہ چھ ارب 17 کروڑ 85 لاکھ ڈالر کمرشل بینکوں کے پاس تھے، یعنی پاکستان کے زرِمبادلہ کے کُل ذخائر آٹھ اپریل کو 17 ارب دو کروڑ 81 لاکھ ڈالر تھے۔

اس کا مطلب ممکنہ طور پر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ پاکستانی عوام کے لیے کڑے معاشی حالات منتظر ہیں کیونکہ معاشی استحکام لانے کے لیے نئی حکومتیں بلند شرحِ سود، سبسڈیز کے خاتمے، اور ٹیکسوں میں اضافے جیسے اقدامات کرتی ہیں۔

جب بی بی سی نے ان سے سوال کیا کہ کیا معاشی استحکام یقینی بنانے کا مقصد یہ ہے کہ اگلے بجٹ میں آئی ایم ایف کی شرائط کی زیادہ پاسداری کی جائے گی اور عوام کے لیے ریلیف کم ہو گا تو ان کا کہنا تھا کہ آنے والا بجٹ ’حقیقت پسندانہ‘ ہو گا۔

روپے

اس کی وضاحت کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ پیٹرولیم مصنوعات پر دی جانے والی سبسڈی بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے برعکس ٹارگٹڈ نہیں ہے چنانچہ یہ خسارے کی بڑی وجہ ہے۔

انھوں نے کہا کہ حکومت کو اس پر نظر ثانی کرنی پڑے گی تاہم انھوں نے واضح طور پر نہیں بتایا کہ یہ سبسڈی کب تک برقرار رہے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ بہت سی چیزیں آئی ایم ایف سے مذاکرات کے بعد واضح ہوں گی۔

یہ بھی پڑھیے

30 وفاقی وزرا، چار وزرائے مملکت اور تین مشیروں پر مشتمل وفاقی کابینہ نے حلف اٹھا لیا

نواز حکومت کی بحالی: ’چمک‘ کا نتیجہ یا اسٹیبلشمنٹ کا سیاسی کردار محدود کرنے کی کوشش؟

اور مجھے یوں نکالا: عاصمہ شیرازی کا کالم

آمدنی پر ٹیکسز کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ وہ مسلم لیگ ن کے آخری دور حکومت میں انکم ٹیکس کے سلیب میں اضافے کے فیصلے کو درست سمجھتے ہیں اور اگر آئی ایم ایف نے تسلیم کیا تو وہ اس بار بھی یہی کریں گے۔

بی بی سی کے سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ اس وقت ملک میں مہنگائی کا شدید دباؤ ہے جو کہ کرنسی کی قدر میں کمی اور مالی خسارے کے باعث ہے۔

اس کا الزام انھوں نے گذشتہ حکومت کے انتظامی فیصلوں پر عائد کیا۔

مالی استحکام کے حوالے سے بی بی سی کے سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ اس وقت پاکستان پر مالی عدم استحکام کے باعث سرمایہ کاروں کے اعتماد میں کمی ہے تاہم وہ کوشش کریں گے کہ انٹرسٹ گروپس مثلآ ریئل سٹیٹ یا کنسٹرکشن شعبے کو سبسڈی دینے کے بجائے عوام کے لیے اقدامات کیے جائیں۔

پاکستان میں اس وقت یہ بحث جاری ہے کہ نئے عام انتخابات کب ہوں گے۔ سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی جانب سے بھی بار بار یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ فوری طور پر انتخابات کروائے جائیں جبکہ حکومت اور پی ڈی ایم میں شامل دیگر جماعتوں کی جانب سے بھی یہ کہا جا رہا ہے کہ اُن کی اگلی منزل عام انتخابات ہی ہیں، تاہم ان کا کوئی باقاعدہ شیڈول فی الحال موجود نہیں ہے۔

اسی تناظر میں جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ کتنے وقت کی منصوبہ بندی کرنے والے ہیں تو مفتاح اسماعیل نے کہا کہ وہ بجٹ اور معاشی منصوبہ بندی اگلے چند مہینوں کے لیے کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے۔

اُن کا کہنا تھا کہ وہ منصوبہ بندی اسی خیال کے تحت کریں گے کہ جیسے اُنھوں نے اگست 2023 تک کام کرنا ہے۔

اس سوال کے جواب میں کہ اگر روس کی جانب سے تیل کی قیمتوں کو بطور سٹریٹجک ہتھیار استعمال کیا گیا تو وہ درآمدی بل کو کیسے سنبھالیں گے، مفتاح اسماعیل نے کہا کہ پاکستان کا مسئلہ فی الوقت درآمدات زیادہ ہونا نہیں بلکہ برآمدات کا کم ہونا ہے۔

جاری کھاتوں یعنی کرنٹ اکاؤنٹ کا خسارہ کسی ملک کو اس وقت درپیش ہوتا ہے جب کسی ملک کی درآمدات اس کی برآمدات سے زیادہ ہوں۔

واضح رہے کہ رواں مالی سال میں جنوری 2022 میں جاری کھاتوں کا خسارہ ڈھائی ارب ڈالر تک جا پہنچا تھا تاہم فروری میں یہ نیچے گر کر 57.5 کروڑ ڈالر تک پہنچ گیا تھا۔

اس وقت وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا تھا کہ یہ برآمدات میں اضافے، درآمدات میں کمی اور وسیع پیمانے پر پیداوار میں اضافے کے باعث ہوا ہے۔

رواں مالی سال میں اب تک پاکستان کے جاری کھاتوں کا خسارہ 12 ارب ڈالر تک رہا ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ درآمدات کو ایک حد سے زیادہ گھٹایا نہیں جا سکتا اور نہ ہی وہ ایسا کرنا چاہتے ہیں بلکہ اس خسارے کو کم کرنے کے لیے پاکستان سے عالمی تجارت اور برآمدات کو مزید فروغ دینے کی ضرورت ہے۔

تاہم مفتاح اسماعیل کا یہ بھی کہنا تھا کہ رواں مالی سال میں یہ سب کچھ نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اس وقت ضرورت یہ ہے کہ پاکستان کو مالی بحران میں جانے سے روکا جا سکے اور جلد از جلد آئی ایم ایف پروگرام کو بحال کیا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32496 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments