پاکستان! ترقی معکوس کا جاری سفر


نو اپریل کی جاتی گھڑیوں میں جہاں ایک ڈرامے کا اختتام ہوتا نظر آیا وہیں ایسے ہی ایک دوسرے ڈرامے کے تیار ہوتے سانچے کے خد و خال ابھرنا شروع ہو گئے جو آنے والے ہفتوں اور مہینوں میں اپنی مکمل کاسٹ کے ساتھ عوام کی تفریح کے لیے پیش کر دیا جائے گا اور وقت کے ساتھ ساتھ اس کے رنگ نکھر کر اس کو اتنا توانا بنا دیں گے کہ وہ نیا نکور ڈرامہ حقیقت کا روپ اختیار کر لے گا۔ جہاں ایک طرف مٹھائیاں بانٹی جا رہی ہیں اور بہت سے لوگ ایک بار پھر اپنی کھلی آنکھوں میں سپنے سجا کر اپنے آپ کو ڈرامے میں شامل سمجھنے لگ جائیں گے، وہیں حکومت سے جانے والے اور ان کے حامیوں میں غم و غصہ بھی بڑھتا نظر آئے گا، حق تلفی کا احساس بے ین رکھے گا۔

آپ بھی سوچ رہیں ہوں گے کہ یہ آج کون سی پہیلیاں لے بٹھا ہوں جب کہ اسلام آباد کے مالک تبدیل ہو گئے ہیں۔ جیتنے والوں کے بارے میں لکھنا تو سورج کو چراغ دکھانا ہے کہ ابھی وقت پڑا ہے لیکن افسوس تو اس بات کا ہے کہ ہارنے والے یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ ان کے لیے قوانین فطرت بدل جائیں ہوں گے کہ کم از کم ان کی نیتیں سچی تھیں۔ اپنے اطراف میں دوستوں اور فیملی میں جذبات ( خوشی اور صدمے ) پر سب بندھن ٹوٹتے نظر آ رہے ہیں۔

میں سوچ رہا تھا کہ گزشتہ 75 سالہ تاریخ میں ایسا پہلی بار تو نہیں ہوا، میری عمر کے لوگوں کے لیے تو اب تقریباً یہ روٹین ہی بن چکی ہے کہ الیکشن کے تیسرے اور چوتھے سال ایک بے چینی سی شروع ہو جاتی ہے، اس بے چینی کو ”دھاندلی“ ، ”کرپشن“ ، ”اسلام کا خطرے میں ہونا“ اور ”بیرونی سازشیں“ جیسے سدا بہار پودے آکسیجن فراہم کرتے ہیں اور کسی نہ کسی عذر پر سربراہ حکومت کو چلتا کیا جاتا ہے لیکن تسلی ہے کہ ہوتی ہی نہیں۔ ایک نئے سکرپٹ کی نیو ڈال دی جاتی ہے، اداکار بھی تقریباً وہی رہتے ہیں اگر چہ ان کا رول تھوڑا سا تبدیل کر دیا جاتا ہے، نئی اصطلاحات متعارف کروائی جاتی ہیں تا کہ عام لوگوں کو یہ یقین رہے کہ وہ اب ایک نئے دور میں جی رہے ہیں۔

تہہ در تہہ ڈراموں کی یہ کہانی آپ سن 1947 سے بھی شروع کر سکتے ہیں لیکن آج صرف پچھلے پینتالیس سال پر ہی نظر ڈالتے ہیں اس  لئے کہ ہم ان کے ذاتی شاہد ہیں۔ ستر کی دہائی کا آغاز ہی ملک کی تقسیم سے ہوا جب اکثریت نے اقلیت کے ساتھ رہنے سے انکار کر دیا، بعد ازاں سنہ77 الیکشن میں دھاندلی کے خلاف شروع ہونے والی مہم جوئی، نظام مصطفی کے نعرے بلند کرتی نہ صرف پارلیمنٹ کو ہی لے بیٹھی بلکہ ایک منتخب وزیراعظم کو تختہ دار پر بھی چڑھا دیا۔

اس دہائی کا اختتام مارشل لا کی چھتری تلے ہوا جیسا کہ اس کا آغاز تھا اگرچہ نام اور چہرے مختلف تھے، اسی کی دہائی میں آمریت کی سیاہی کو کم کرنے کے لیے اور عوام میں پائے جانے والی بے چینی کے علاج اور اسلام کی برکات میں بڑھوتری کے لیے پہلے تو دسمبر 1984 میں ریفرنڈم کی رونقیں لگائی گئیں لیکن بے چینی بڑھتی جا رہی تھی اور اس کے علاج کے لیے 1985 میں الیکشنز کروائے گئے لیکن سیاسی ڈرامے کے سکرپٹ میں اداکاروں پر کنٹرول قائم رکھنے کے لیے سیاسی پارٹیوں کو اس میں شامل ہونے کی اجازت نہیں تھی۔

نئی نکور حکومت سے نئے پن کا احساس تو ہو گیا لیکن صرف تین سال بعد 1988 میں ڈرامے کی اس قسط کا اختتام کر دیا گیا حالانکہ اداکاروں کے ساتھ پانچ سال کا معاہدہ ہوا تھا۔ سکرپٹ رائٹر بورڈ کے مرکزی کردار کی اچانک موت نے جہاں کہانی کو ایک نیا موڑ دیا وہیں کچھ نئے کردار بھی سٹیج پر پہنچنے میں کامیاب ہو گئے، لوگوں میں جوش و خروش دیدنی تھا، آج کی نوجوان نسل سمجھتی ہے کہ ظلم صرف ان کے ساتھ ہوا ہے، ان دنوں بھی اتنے ہی خواب دیکھے گئے تھے، روشن مستقبل کے، انسانی حرمت اور حقوق کے اور پھر وہ ڈرامہ سیریل شروع ہوا جس کی حالیہ قسط ابھی کے شاہد ہیں۔

4 دسمبر 1988 کو بننے والی بینظیر بھٹو کی حکومت، جو اپنی ہیئت میں عمران خان کی موجودہ حکومت سے کوئی زیادہ مختلف نہیں تھی، اگست 1990کو کرپشن اور بدانتظامی کے الزامات میں ختم کر دی گئی۔ جس طرح سنہ 2018 کے الیکشنز کو بندوبستی کہا جاتا ہے اسی طرح سنہ 1990 کے الیکشنز میں مثبت نتائج کے حصول کے لیے اسلامی جمہوری محاذ کی جیت ہوئی اور نواز شریف کی پہلی حکومت قائم ہوئی، یہ ذیلی تفصیل ہے کہ سنہ2012 میں سپریم کورٹ کے فیصلے میں ان الیکشنز میں بینکرز اور جرنیلوں کے ہاتھوں رقوم کی تقسیم کے ذریعے دھاندلی ثابت بھی ہو گئی، بہرحال مرضی کی حکومت کے باوجود جلد بے چینی پھر شروع ہو گئی اور 18 اپریل 1993 کو صدر پاکستان نے اس حکومت کو گھر بھیج دیا، اگرچہ سپریم کورٹ نے صدارتی حکم کینسل کر دیا لیکن حکومت چلنا ناممکن ہو گیا اور ایک باقاعدہ درآمد شدہ (imported) وزیراعظم کی زیر نگرانی 6 اکتوبر 1993 کو ہونے والے الیکشنز میں بینظیر بھٹو ایک بار پھر اقتدار میں آ گئیں، تین سال کا عرصہ باہمی الزامات اور جوابی الزامات میں گزرا، بدانتظامی اتنی بڑھی کی وزیراعظم کا اپنا بھائی مرتضی بھٹو 20 ستمبر 1996 کو کراچی میں دن دھاڑے قتل کر دیا گیا اور5 نومبر 1996 کو کرپشن اور قومی سلامتی کے نام پر حکومت ختم کر دی گئی۔

حسب معمول ایک عبوری حکومت کے زیرانتظام 3فروری 1997 کو ہونے والے الیکشنز میں نواز شریف دوسری بار حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئے۔ ان کی پارٹی کو بھاری اکثریت حاصل ہو گئی تھی اور بظاہر پانچ سال کے لیے منتخب ہو گئے تھے لیکن دو سال بعد ہی بے چینی بڑھنا شروع ہو گئی، جو کہ 30مئی 1998 کے ایٹمی دھماکوں کے باوجود کم نہ ہو سکی اور تین سال بھی پورے ہونے سے پہلے 18اکتوبر 1999 کو حکومت کو گھر بھیج دیا گیا اور وزیراعظم نواز شریف کو کو گرفتار کر کے ملٹری کورٹ میں مقدمہ چلا دیا گیا۔

مارشل لا نافذ ہو گیا۔ آپ کہیں بور تو نہیں ہو گئے کہ کیا قصے لے بیٹھا ہوں۔ اگر ہمارا ملک نارمل ہوتا تو آئینی طور پر پانچ پانچ سال کے عرصے کے لیے منتخب پارلیمنٹ سے 1988 سے لے کر 1999 تک دو سے تین حکومتی ادوار بنتے تھے لیکن تو چل میں آیا کے اس کھیل میں عبوری حکومتوں کو شامل کریں تو ماشا اللہ ہم سات وزراء اعظم کو بھگتا کر پھر مارشل لا کی گود میں بٹھا دے گئے جو 2008 تک چلا اگرچہ بے چینی شروع ہو گئی تھی لیکن آٹھ سال کا عرصہ کھنچ تان کر نکال ہی لیا گیا۔

یاد رہے کہ اس دوران اپریل 2002 میں صدر پاکستان کے عہدے پر فائز شخص کو قانونی حیثیت دینے کے لیے (سپریم کورٹ کی زیر ہدایت) ایک ریفرنڈم بھی ہو چکا تھا لیکن کیا کریں اس آئین کا جس کے مطابق نظام حکومت پارلیمانی ہے اور اس میں وزیراعظم ہی سربراہ حکومت ہو سکتا ہے اس لیے اکتوبر 2002 میں جو الیکشنز ہوئے ان کی خصوصیت یہ تھی کہ ملک کی دونوں بڑی سیاسی پارٹیوں کی اصل قیادت کو ملک میں داخلے کی اجازت نہ تھی اور متبادل قیادت میں ہی الیکشنز لڑے گئے، اس طرح 23 نومبر 2002 کو ظفر اللہ جمالی کی قیادت میں مسلم لیگ کی حکومت قائم ہو گئی جس کو اور بہت سی پارٹیوں سے الگ ہونے والے ممبران کی سپورٹ حاصل تھی لیکن 24 جون 2004 کو ان کے استعفی کے بعد 1999 سے وزیر خزانہ کی ذمہ داری سنبھالنے والے شوکت عزیز وزیراعظم بن گئے اور نومبر 2007 تک اس عہدے پر کام کرتے رہے لیکن اس دوران وہی بے چینی بڑھتی جا رہی تھی، اصل طاقت کے مالک جنرل مشرف نے ایک بار پھر ایمرجنسی نافذ کر دی، عدلیہ بچاؤ تحریک اور پھر بینظیر بھٹو کے قتل کے بعد 18 فروری 2008 کو ہونے والے الیکشنز میں پیپلز پارٹی کے یوسف رضا گیلانی نے 25 مارچ 2008 کو وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالا اس بار امید تھی کہ وہ پانچ سال مکمل کر لیں گے اور اگرچہ وہ پہلے وزیراعظم بن گئے جس نے پانچ بار مسلسل بجٹ بھی منظور کروا لیا لیکن صدر زرداری کے خلاف کرپشن کیسز نہ کھولنے کی پاداش میں توہین عدالت کے جرم میں سپریم کورٹ کے ہاتھوں 25 اپریل 2012 کو نہ صرف وزارت اعظمی کا عہدہ بلکہ قومی اسمبلی کی نشست سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔

ان کی جگہ راجہ پرویز اشرف نے 22 جون 2012 سے لے کر 16 مارچ 2013 تک وزارت اعظمی کی کرسی کو استعمال کیا۔ اس سال ہونے والے الیکشنز میں مسلم کی فتح کے بعد نواز شریف تیسری بار وزیراعظم کے عہدے پر فائز ہوئے لیکن پاکستانی سیاست کے ریکارڈ کے مطابق سپریم کورٹ سے اقامہ کیس میں نااہل قرار دیے جانے کے بعد جولائی 2017 کو وزارت اعظمی کھو بیٹھنے کے ساتھ ساتھ کوئی عوامی عہدہ رکھنے کے لیے بھی نا اہل قرار دے دیے گئے اور بعد ازاں دس سال کی سزائے قید کے بھی مستحق قرار پائے۔ جولائی 2018 کے الیکشنز میں تحریک انصاف کی کامیابی کے بعد ایک مخلوط حکومت کے وزیراعظم کی حیثیت سے عمران خان کے دور حکومت کا اختتام 9 اپرئل 2002 کو ہوا۔

اس مختصر ترین تاریخی جائزے کے بعد واضح ہو چکا کہ ابھی تک کسی وزیراعظم کو، چاہے وہ مارشل کے زیر سایہ سیاسی بندوبست کا حصے ہو یہ بظاہر آزاد دور میں جیتا ہو، آئینی طور پر میسر پانچ سال کا عرصہ نصیب نہیں ہوا اور پارلیمانی نظام میں یہ کوئی انہونی بات نہیں لیکن وطن عزیز میں جہاں سوسائٹی میں جمہوری روایات کی کوئی تاریخ موجود نہیں اور حکمران اشرافیہ (جس میں سیاست دانوں کا کردار ایک جونئیر پارٹنر کا ہی ہے ) کے باہمی گٹھ جوڑ نے ہمیشہ سیاسی جماعتوں کو اپنے تابع رکھنے کے لیے ان میں توڑ پھوڑ کی حوصلہ افزائی ہی کی ہے، وہاں مضبوط شخصیات ہی سیاسی پارٹیوں کی شناخت بن جاتی ہیں اور ان کا حکومت میں ہونا یہ نا ہونا ہی سیاسی عمل کہلاتا ہے۔

یاد رہے کہ 1997 کے الیکشنز کے علاوہ باقی تمام الیکشنز کے نتیجے میں مخلوط حکومتیں ہی بنی ہیں، جن میں چھوٹی پارٹیاں باقی ملکوں کی طرح ہی عموماً بادشاہ گری کا فرض انجام دیتی آئی ہیں اور اپنے تعاون کی قیمت بھی وصول کرتی ہیں اور عمران خان کی حکومت بھی ایک مخلوط حکومت ہی تھی۔ علاوہ ازیں پچھلے چالیس پینتالیس سال میں مذہبیات کے غیر معمولی استعمال کے نتیجے میں معاشرے میں پیدا ہونے والے عدم برداشت کے رویے اب سیاسی میدان میں اپنا رنگ دکھانا شروع ہو گئے ہیں۔

ایک دوسرے کو غدار قرار دینے اور پرتشدد مظاہرے اب دن بدن بڑھتے نظر آئیں گے اس لیے کہ سیاسی پارٹیوں کی قیادتوں میں مصنوعی تبدیلیاں اور مسلسل سیاسی عدم استحکام کا تاثر نہ صرف ملکی معیشت کو چلنے نہیں دیتا بلکہ بے یقینی کی یہ فضا عام آدمی کے اعصاب پر بھی برا اثر ڈالتی ہے۔ ہم دائروں کے ایسے سفر پر چل پڑے ہیں جہاں سفر تو تیز تر ہے، مسافت کی تھکاوٹ کا احساس بھی ہوا جاتا ہے لیکن منزل کہیں نظر نہیں آتی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments