جینیٹک کونسلنگ: اہمیت اور مسائل


پاکستان میں بچوں کی شرح اموات اتنی زیادہ ہے کہ ممالک کی درجہ بندی کی فہرست میں پاکستان سے زیادہ شرح صرف چند افریقی ممالک کی ہے جبکہ کئی افریقی ممالک کی شرح پاکستان سے بھی کم ہے۔ حالیہ اعداد و شمار کے مطابق اس میں سے پچاس فیصد بچے ایسے جینیٹک امراض کی وجہ سے مرتے ہیں جو کزنز سے شادیوں کی وجہ سے ان بچوں میں منتقل ہوتی ہیں۔ پاکستان کے اکثر علاقوں میں خاندان میں شادی کرنے کا رجحان 80 فیصد کے قریب ہے اور کچھ علاقوں میں تو یہ 100 فیصد کے لگ بھگ ہے۔

ایسے امراض سے بچنے کا ایک حل یہ ہے کہ شادی سے قبل یا بچوں کی پیدائش کا ارادہ کرتے وقت ممکنہ بیماریوں کے لیے شوہر اور بیوی کے جینیٹک ٹیسٹ کروائے جائیں۔ جینیٹک ٹیسٹ کروانے سے پہلے اور بعد جینیٹک کونسلنگ بہت اہم مرحلہ ہے۔ کراچی بائیوایتھکس گروپ[ 1 ] کے گزشتہ اجلاس میں جینیٹک کونسلنگ پر بحث کی گئی۔ اس ضمن میں اس کی ضرورت، اہمیت، پاکستان میں اس کی حالیہ صورت حال اور درپیش مسائل پر بات کی گئی۔

جینیٹک کونسلنگ ایک ایسا عمل ہے جس میں ایک ماہر کونسلر متاثرہ فیملی سے متعدد تفصیلی نشستوں میں گفتگو کرتا ہے جس میں وہ انہیں جینیاتی بیماری اور اس کے ٹیسٹ کے متعلق تفصیلی معلومات اس انداز سے فراہم کرتا ہے کہ ان کو سمجھ آ سکے۔ پھر جب وہ مطمئن ہو جائے کہ مخاطب گھر والوں کو سمجھ آ گیا ہے تو پھر وہ انہیں اس کے نتائج، خطرات، فوائد سے آگاہ کرتا ہے، مستقبل میں ممکنہ علاج اور خاندانی منصوبہ بندی سے متعلق مشورے فراہم کرتا ہے اور پھر اس کے ساتھ ٹیسٹ کے لیے گھر والوں کی آزادانہ رضامندی بھی دریافت کرتا ہے۔ جیسا کہ واضح ہے کہ یہ ایک تفصیلی کارروائی ہے۔ پنجاب تھیلیسیمیا اور دیگر جینیاتی امراض کی روک تھام اور تحقیق کے ادارے کے ڈائرکٹر جنرل ڈاکٹر حسین جعفری کے مطابق اس عمل میں اوسطاً چالیس منٹ لگ جاتے ہیں۔

کراچی بائیوایتھکس گروپ میں بحث کے دوران ایک کیس پیش کیا گیا جو کراچی اور ملک کے دیگر علاقوں کے ہسپتالوں میں پیش آنے والے اکثر حالات کی عکاسی کرتا ہے۔ گردے کے امراض کے ماہر ایک ڈاکٹر نے ایک بچے کے گردوں میں پتھری کی ایک خاص بیماری (nephrocalcinosis) کی تشخیص کی اور اپنے تجربے کی بنیاد پر اس نے والدین کی رضامندی سے بچے اور اس کے والدین کا سیمپل جینیٹک ٹیسٹنگ کے لیے بھجوایا کیونکہ یہ یہ خاص بیماری اکثر خاندان میں کی گئی شادیوں کے نتیجے میں منتقل ہوتی ہے۔

ٹیسٹ کے نتائج سے ڈاکٹر کے مفروضے کی تائید ہو گئی۔ والدین نے جب پوچھا کہ بچے کو یہ بیماری کیوں ہوئی ہے تو ان کو اس کی ٹیسٹ کے نتائج کی روشنی میں وجہ بتائی گئی کہ کزن سے شادی کی وجہ سے بچے میں اس بیماری کے جینز والدین سے جینیاتی ذریعے سے منتقل ہوئے ہیں۔ اگلی ملاقات میں بچے کے ساتھ صرف اس کی ماں آئی اور اس نے ڈاکٹر کو بتایا کہ اس کے شوہر نے ڈاکٹر سے ملاقات کے اگلے روز ہی اسے طلاق دے دی تھی۔ ڈاکٹر، جو کہ عموماً طبی معاملات پر ہی اپنی توجہ مرکوز رکھتا ہے اس کے لیے یہ ایک غیر متوقع اور پریشان کن صورت حال ہوتی ہے اور وہ اپنے آپ کو ایک ناکردہ گناہ کے احساس جرم کے بوجھ تلے محسوس کرتے ہیں۔ ایسے واقعات سے پریشان ہو کر بعض ڈاکٹر کونسلنگ کرنا ہی چھوڑ دیتے ہیں۔

اجلاس کے دوران یہ مسئلہ بھی اٹھایا گیا کہ بائیس کروڑ کی آبادی والے اس ملک میں جہاں مرنے والے آدھے بچے جینیاتی امراض کی وجہ سے مر رہے ہیں، محض گنتی کے چند جینیٹک کونسلر موجود ہیں جن کی تعداد ہاتھ کی انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے۔ مذکورہ کیس کی طرح اکثر ڈاکٹر ماہر جینیٹک کونسلر نہیں ہوتے۔ اگر فرض کریں ان کو جینیٹک کونسلنگ کی پیشہ ورانہ مہارت حاصل بھی ہو، تب بھی کسی سرکاری ہسپتال میں کام کرنے والے گردے کے امراض کے ایک ڈاکٹر کو او پی ڈی میں ایک دن میں اوسطاً 300 سے 400 مریضوں کا معائنہ کرنا ہوتا ہے۔

مریضوں کی اتنی بڑی تعداد کے ہوتے ہوئے 40 منٹ کونسلنگ پر صرف کرنا غیر حقیقی ہے۔ اگر کوئی ڈاکٹر مریض کے ساتھ 5 یا 10 منٹ گفتگو کر کے اس کو معلومات فراہم کرنے اور رضامندی حاصل کرنے کی کوشش کرے تب بھی اس بات کا اندیشہ رہتا ہے کہ شاید مخاطب کو بات سمجھ نہ آئی ہو اور کم از کم اس کے شبہات اور سوالات کو سننے کا موقعہ تو دستیاب ہی نہیں ہوتا۔

اس دوران یہ بات بھی واضح کی گئی کہ اوسط مہارت رکھنے والا ایک ڈاکٹر روز افزوں جینیاتی سائنس کی تفصیلات اور پیچیدگیوں سے واقف نہیں ہوتا۔ جس تیزی سے جینیاتی سائنس میں ترقی اور تحقیق ہو رہی ہے، ایک متخصص ماہر ہی اس سے متعلق معلومات پر مطلع رہ سکتا ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ معلومات رکھنے والا ہر ماہر کونسلنگ کرنے کا اہل نہیں ہوتا کیونکہ کونسلنگ ایک الگ مستقل فن ہے جس کے لیے کمیونیکیشن اسکلز (فن گفتگو میں مہارت) کی ضرورت ہوتی ہے۔

ایسے مسائل کے ساتھ ایک پیچیدگی یہ بھی ہے کہ مغربی ممالک کے برعکس دنیا کے اس حصے میں گھر اور خاندانی ڈھانچہ اور آپس کے تعلقات مختلف انداز کے ہیں۔ مغرب میں خاندانی منصوبہ بندی اور معالجے سے متعلق فیصلہ سازی میں فرد، یا بچے کی صورت میں صرف اس کے ماں باپ ہوتے ہیں۔ یہاں خاندان کی مختلف روایات کی وجہ سے ساس سسر، بہن بھائی وغیرہ بھی میاں بیوی کے باہمی فیصلوں پر اثر انداز ہوتے ہیں بلکہ بعض اوقات تو ایسے فیصلوں میں ساس سسر کے فیصلے زیادہ اہمیت اختیار کر جاتے ہیں۔

مزید یہ کہ اس فیصلہ سازی میں عموماً عورت (بہو) نقصان برداشت کر رہی ہوتی ہے۔ چونکہ ہمارے یہاں جدید علوم عموماً مغرب سے درآمد ہوتے ہیں، ان میں معلومات سے ساتھ ساتھ اقدار بھی درآمد ہو جاتی ہیں۔ ایسے میں کونسلنگ کرنے والے کو اس اعتبار سے بھی ماہر ہونا چاہیے کہ وہ مقامی ثقافت کی باریکیوں کو سمجھ سکے اور جہاں ضرورت ہو وہاں خاندان کے دیگر فیصلہ کن افراد کو مشاورت میں شامل کرے اور بات سمجھانے میں اس بات کا اہتمام کرے کے کسی کمزور پر ناحق دوش نہ پڑے۔

شرکا نے اس بات پر اتفاق کیا کہ پاکستان میں جینیٹک کونسلرز کی اس کمی کو پورا کرنے کے لیے ہنگامی بنیاد پر اقدامات کی ضرورت ہے۔ لیکن چونکہ اس ضرورت کو پورا کرنے میں زیادہ وقت لگ سکتا ہے اس لیے ڈاکٹر حسین جعفری نے یہ تجویز دی کہ ضروری نہیں کہ کونسلنگ کے لیے ڈاکٹر ہی مختص کیے جائیں بلکہ جن ہسپتالوں میں جینیٹک ٹیسٹنگ کی جاتی ہے کم از کم وہاں ایسے ماہرین نفسیات کو بھرتی کیا جائے جنہیں گفتگو میں اچھی مہارت حاصل ہو اور انہیں مختصر مدت میں کسی ایک جینیاتی عارضے کی معلومات میں مہارت فراہم کر دی جائے اور وہ صرف اس عارضے سے متعلق کونسلنگ فراہم کریں۔ اس کے علاوہ بھی مقتدرہ حلقوں میں اس بات پر غور ہونا چاہیے کہ مزید کیا اقدامات کیے جا سکتے ہیں (مثلاً شادی سے قبل فریقین کے لازمی جینیٹک ٹیسٹ) جن سے ایسے امراض کی روک تھام ہو سکے۔ اس ضمن میں بھی قوانین اور سہولیات کے مابین تدریج اور مقامی سماجی نزاکتواں کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments