نرگس کو ہراساں کرنے والے ان کی شان نہیں گھٹا سکتے


اب تو دنوں کا حساب بھی نہیں رکھا جا سکتا۔ یاد نہیں کہ آخری کالم کب لکھا تھا۔ یہ دنیا کے جھمیلے سوائے بوجھ ڈھونے اور بل بھرنے کے علاوہ کسی قابل ہی نہیں چھوڑتے۔ وہ حس بھی مر جاتی ہے جو آپ کا ضمیر جھنجھوڑ کر آپ کو لکھنے پر اکساتی ہے۔ جب تک آپ لکھ کر اپنے اندر کا جوالا باہر نہ اگل دیں آپ کو لیٹنے بیٹھنے نہیں دیتی۔ کبھی کبھی تو لگتا ہے کہ شاید آنکھوں پر پردہ اور دل پر تالا پڑ گیا۔ لیکن وہ کیا ہے کہ کئی بار ایسے مواقع آتے ہیں کہ یہ تالہ ہلکا سا چرچراتا ہے اور روشنی کی ایک باریک دھار دل میں گھسنے کو زور لگاتی ہے۔ آج بھی شاید کچھ ایسا ہی ہوا۔

ہماری سہیلی تمکنت اور ہم سابقہ پاکستانی فلم اور اسٹیج اسٹار نرگس جی کے ہمیشہ سے ہی فین رہے ہیں۔ نرگس اپنی خوبصورتی، رقص، اور برجستگی کی وجہ سے خاصی مشہور تھیں۔ جس زمانے میں اسٹیج پر نرگس کا طوطی بولتا تھا کسی بھی اور اداکارہ کا قدم جمانا مشکل ہی ہوتا تھا۔ یوں بھی کھل کر بولتی تھیں اور کبھی اپنی رائے کے اظہار سے ہچکچاتی نہیں تھیں۔ بقول تمکنت کے ’نرگس جی شیشے کی انسان ہیں۔ اندر باہر سے ایک جیسی۔‘

اب انہوں نے شو بزنس کا کام چھوڑ دیا ہے۔ لاہور میں ایک پارلر کھول رکھا ہے جہاں یہ ماضی کی اسٹار کسٹمرز کا میک اپ کرتی نظر آتی ہے۔ سوشل میڈیا پر بھی ایکٹو ہیں اس لیے ان کی خیر خبر ملتی رہتی ہے سوشل میڈیا کے توسط سے ہی علم ہوا کہ اب وہ اپنی تمام تر توجہ اس پارلر پر مرکوز کیے ہوئے ہیں۔ پہلے بھی ان کے مذہبی رجحان کے بارے میں گاہے بگاہے سنتے رہتے تھے۔ لیکن کچھ عرصے سے ان کی طبیعت میں اس کا واضح اثر نظر آنے لگا۔ چہرے کی شوخی غائب ہوئی۔ مزاج اور لباس دونوں میں متانت چھلکنے لگی۔ سر دوپٹے سے ڈھک لیا اور زبان سے کام کے علاوہ کوئی بات نہ کرتیں۔

کل رات تمکنت نے نرگس جی کی ایک پوسٹ انسٹاگرام پر شیئر کی جس میں وہ خاصی جذباتی اور روہانسی دکھائی دیں۔ قریب نو منٹ کی یہ ویڈیو ہم نے بھی دیکھنے کی ٹھانی۔ اس ویڈیو میں نرگس جی انتہائی غم سے کچھ ایسی خواتین کا ذکر کر رہی تھیں جو انہیں سوشل میڈیا پر ان کے ماضی کی وجہ سے ان کو ہراسانی کا نشانہ بنا رہی تھیں۔ ان خواتین کو یہ بھی اعتراض تھا کہ نرگس جی اپنے پارلر میں مختلف ڈیلز کیوں متعارف کرا رہی ہیں۔

وہ نرگس جی جنہیں ہم نے ہمیشہ دبنگ اور بے باک ہی دیکھا تھا اس ویڈیو میں ٹوٹ کر بکھرتی دکھائی دیں۔ انہوں نے اس بات کا گلہ کیا کہ کیسے ان کے ماضی کو بار بار ان کے لیے طعنہ بنایا جاتا ہے۔ یہ ایک سنگل ماں ہیں اور بچے کینیڈا میں مقیم ہیں۔ یہاں کی کمائی سے ہی وہ اپنے بچوں کی پرورش کر پاتی ہیں جن سے وہ سال میں صرف ایک بار مل سکتی ہیں۔ اسی ویڈیو میں انہوں نے اس بات کا بھی ذکر کیا کہ کیسے انہوں نے فلم اور اسٹیج پر کام کر کے بیس پچیس لوگوں پر مشتمل خاندان کو پالا۔ یہ سب باتیں کرتے ہوئے ان کی آنکھیں بھر آئیں۔

لیکن وہ کیا ہے کہ زندگی کی تلخ حقیقتیں اور یہ پاپی پیٹ جذبات کیا جانیں۔ فوراً ہی انہوں نے اپنے پارلر کی ڈیلز بتانا شروع کر دیں۔ آخر بل بھی تو بھرنے ہیں۔ بچے بھی تو پالنے ہیں۔

اس ویڈیو میں نرگس جی نے یہ سوال بھی کیا کہ اگر دنیا ان سے کسی حال میں راضی نہیں تو کیا وہ مر جائیں۔ یہی سوال ہمارے ذہن میں بھی کسمسایا۔ ہمیں لگتا ہے کہ وہ عورتیں جن کا تعلق میڈیا سے ہے وہ بے حیا ہیں۔ بدکردار ہیں۔ ہم سے کمتر ہیں۔ جذبات سے عاری ہیں۔ اگر وہ یہ جرات کر بھی لیں کہ اپنا پیشہ چھوڑ کر کوئی اور کام کرنے لگیں تو بھی انہیں جینے کا کوئی حق نہیں۔

’ٹم سالا گلام لوگ ہمیشہ ہماری جوٹی کے نیچے رہے گا۔‘

اگر خدا نے ہمیں ایسے گھروں میں پیدا کیا جہاں عورتوں پر کمانے کی ایسی مجبوری نہیں تھی کہ انہیں لاکھوں مردوں کی بھوکی نظروں کا سامنا کرنا پڑے تو اس میں ہمارا کیا کمال ہے؟ وہ عورت جو محنت کر کے اپنا ہی نہیں بلکہ اپنے خاندانوں کے خاندان بھی پال رہی ہے کیا اس قدر سبکی کی حقدار ہے؟ کیا اس کو حق نہیں کہ وہ اپنا ماضی بھلا کر ایک نیا آغاز کر سکے؟ کیا ہمیں احساس ہے کہ ہمارے سوشل میڈیا کمنٹس کس طرح کسی کو چکنا چور کر سکتے ہیں؟

خیر، ہمیں کیا لگے۔ اچھی عورت وہی ہے جو کسی عزت دار گھر میں پیدا ہو اور ایک اور خاندان کی افزائش نسل کے کام آئے۔ جو عورت اپنا خاندان پالتی ہے وہ یقیناً بری عورت ہے۔ اور اس برائی کا خاتمہ سوشل میڈیا پر انہیں ذلیل کرنے میں ہی پوشیدہ ہے۔

تف، افسوس۔ خدا باز رکھے ان ’خاندانی‘ اشرف المخلوقات سے جو اس سنگھاسن پر بیٹھے ہیں جہاں سے سب کیڑے مکوڑے نظر آتے ہیں۔ ہدایت کی ضرورت نرگس جی کو نہیں اس متعفن معاشرے کو ہے۔
نرگس جی، آپ ہماری جان ہیں، شان ہیں۔ خدا آپ کو ہمیشہ ہمت اور طاقت دے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments